’’سکول میں سب مجھے ہیرو کے نام سے پکارتے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
وجیہہ شکل وصورت، درازقد اورسرخ وسفید رنگت کے حامل نامور اداکار و ڈائریکٹرآصف خان ہماری فلمی صنعت کے سنہری دورکے معروف ہیرو اورولن ہیں۔ انہوں نے اردو، پشتو اورپنجابی فلموں میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔ ان کو دیکھتے ہی ان پرہالی وڈکی فلموں کے ہیرو کاگمان ہوتا ہے ، اس لیے فلم بین ان کی اداکاری کے ساتھ ساتھ ان کی وجیہہ شخصیت کوبھی بہت پسند کرتے ہیں، ان کے کریڈٹ پر تقریباً بارہ سو فلمیں ہیں جن میں زیادہ ترسپر ہٹ اورہٹ ہوئیں۔
آصف خان کا بنیادی تعلق خیبرپختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے خوبصورت گاؤں بدرشی سے ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش1947ہے لیکن وہ ایک عرصے سے لاہور میں رہائش پذیر ہیں، ان سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر اورپاکستان فلم انڈسٹری کی زبوں حالی پر کھل کربات کی ،ان سے ہوئی بات چیت قارئین کی نذر ہے۔
اپنے فلمی کیریئر کی شروعات سے متعلق آصف خان بتاتے ہیںکہ بچپن سے ہی فلموں کا بہت شوق تھا۔ سنتوش،صبیحہ اور اسلم پرویزکی فلمیں بہت شوق سے دیکھتے تھے، پڑوسی ملک کے اداکاروں میں راج کپوراور اشوک پسندیدہ اداکار تھے، ان میں سب سے زیادہ دلیپ کمار سے متاثر تھا۔ اسی طرح پاکستان میں محمد علی اورلالہ سدھیر بھی پسندیدہ اداکار تھے۔ ہم نوشہرہ کے قریب بدرشی گاؤں میں رہتے اورسکول پیدل جاتے، پھر سو روپے میں ایک سائیکل خرید لی۔ اس زمانے میں سنیماکا تین بجے والا شو میرا من بھاتا شو تھا، میں دوبجے کلاس کی کھڑکی سے کود کر فلم دیکھنے کے لیے سنیماکارخ کرتا، گاؤں میں سب لوگ مجھے ہیروکے نام سے پکارتے۔ سکول میں بھی بہت مارکھائی کہ بڑے بال کیوں رکھے ہیں؟ میں بھی کہتا کہ مارو، میں تو ایکٹر ہوں، یوں سکول میں بھی سبھی مجھے ہیرو کے نام سے پکارنے لگے۔
بہرحال زندگی کا کارواں اسی شوق کو لے کر چلتا رہاکہ ایک مرتبہ کسی نے آکے مجھے بتایاکہ ہمارے علاقے میں فلم والے شوٹنگ پرآئے ہوئے ہیں، پوچھا کون کون ہیں ؟ بتایاگیا کہ خلیل قیصر، لالہ سدھیر، ساقی، شمیم آراء بیگم اور آغا طالش وغیرہ ، میں یہ سن کر اس طرف بھاگا بھاگاجاپہنچا۔ یہ جگہ ہمارے گاؤں کے قریب ہی تھی، وہاں شمیم آراء بیگم، ساقی صاحب اور لالہ سدھیر پرگانا فلم بند ہورہا تھا ’’بن کے میرا پروانہ، آئے گا اکبر خانا، کہہ دوں گی دلبر جانہ، پخیر راغلے‘‘چونکہ وہ پہاڑی علاقہ تھا اورمیں ایک پہاڑی پر بیٹھا یہ منظردیکھ رہا تھا، شوٹنگ جہاں ہو رہی تھی وہ علاقہ انتہائی خوبصورت تھا، پانی کے چشمے بہہ رہے تھے۔
ہم اکثر وہاں پکنک منانے جایاکرتے۔ اچھا تو میں بتا رہا تھا ،کہ گانے کی عکس بندی کے دوران گاؤں کا ایک لڑکا اپنے گھوڑے کوپانی پلانے چشمے پر آیا، جس کی وجہ سے شاٹ روک دینا پڑا اور وہاں گاؤں کے لڑکوں اورفلمی یونٹ کے آپرینٹس کیمرہ مین سلیم بٹ جو ابھی نیا نیا ہی اس فیلڈ میں آیا تھا،کے مابین لڑائی توتکارشروع ہوگئی۔
ادھرخلیل قیصرمرحوم، میڈم شمیم اور لالہ سدھیریہ منظردیکھ رہے تھے، میں نے سوچاکہ بچو، یہی وقت ہے،چلو اٹھو! میں نیچے دوڑ پڑا، گاؤں والے لڑکے کو جھڑکا اورکچھ ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اسی اثناء میں گاؤں کے چند بزرگ بھی درمیان میں آگئے، میں نے ان سے کہاکہ یہ پنجاب سے آئے ہوئے ہمارے مہمان ہیں اورپھر لالہ جی توہمارے پشاورکے ہیں اورپھر یہ معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔
سارا فلمی یونٹ یہ منظردیکھ رہا تھا، اسی دوران میری ساقی صاحب سے دوستی ہوگئی، وہ پشتو، انگریزی، فرانسیسی سمیت تقریباً اٹھارہ زبانوں پرعبوررکھتے تھے، بہت قابل اورپیارمحبت کرنے والے انسان تھے، جب تک فلمی یونٹ ہمارے گاؤں کے پاس رہا، میں روزانہ ان کے لیے چائے پراٹھے لے کرشوٹنگ دیکھنے جاتا، یوں مجھے فلمی صنعت میں داخل ہونے کے لیے ایک راستہ مل گیا۔
اس کے کچھ ہی عرصہ بعد غالباً 1961کی بات ہوگی، میں مری میں ماتھے پردلیپ کمارجیسے بال سجائے، سوٹ شوٹ پہن کر مال روڈ پرخراماں خراماں ٹہل رہاتھا کہ پیچھے سے کسی نے مجھے پکارا، جب مڑکر دیکھا توساقی صاحب پر نظر پڑی۔ ان کے ساتھ بوسکی کی قمیص پہنے ہوئے لمبا تڑنگا، گھونگریالے بالوں والا ایک خوبصورت نوجوان بھی تھا، ساقی صاحب نے بتایا کہ یہ محمد علی ہے جوکراچی کی فلم’’ چراغ جلتا رہا‘‘میں کام کر رہا ہے۔
محمد علی کودیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ایک اچھا دوست مل گیا، ان دونوں کو لے کرایک ہوٹل میں چائے پلانے کے لیے لے گیا، باتوں باتوں میں، میں نے پوچھاکہ آپ لوگ یہاں کیسے آئے ہیں؟ جواب ملاکہ فلم الیون اورڈی سی الیون کے مابین کرکٹ میچ ہورہے ہیں، وہاں صبیحہ بھابھی بھی تھیں، میں بھی میچ دیکھنے وی وی آئی پی سٹینڈ میں بیٹھارہا، اداکارآزاد صاحب کھیل پر بہترین رواں تبصرہ کررہے تھے، وہاں محمد علی نے مجھے بتایا کہ وہ فلم ’’شرارت ‘‘ کی شوٹنگ کے لیے لاہور آرہے ہیں۔
لہٰذا تم بھی آ جاؤ، میں دوتین دن پہلے لاہور پہنچ گیا۔ باری اسٹوڈیو میں پیانو پرگانا فلم بند ہورہا تھا، محمد علی صاحب نے مجھے اپنے گھرمیں رہنے کے لیے ایک کمرہ دیا، پھر علی صاحب، زیبا بھابھی سے شادی کر کے ماڈل ٹاؤن منتقل ہوگئے،وہ بہت بڑے انسان تھے، بہت نفیس،خوش اخلاق اورخوش لباس تھے۔ مجھے ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ایک پشتوفلم شروع ہوئی ہے۔
اس میں کام کرنا چاہو گے، میں نے کہاکہ پشتوفلم میں کیاکام کریں گے، اس میں تومحبت کی کہانی ہی نہیں ہوتی، میں تو اردو فلموں کے لیے آیا ہوں، یہاں لوگ سمجھتے تھے کہ آصف خان ایک پٹھان ہے اوریہ ٹھیک طرح سے اردو بول نہیں سکتا، بس اس دن سے میں نے اپنی اردو بہترکرنا شروع کر دی۔ محمد علی اوردلیپ کمارکوکاپی کرنا شروع کردیا، محنت کے بعد میں نے اپنی اردو اتنی درست کر لی کہ فلم کے سیٹ پر پتا نہیں چلتا تھا کہ یہ پٹھان آدمی ہے۔
اپنی پہلی فلم کی پیشکش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ غالباً 1972 کی بات ہوگی، میڈم شمیم آراء مجھے ایورنیواسٹوڈیو میں آتے جاتے فوارے کے قریب کھڑا دیکھتی تھیں، ایک دن ان کے ماموں میرے پاس آئے اورکہاکہ آصف خان، میڈم بلارہی ہیں، میں گیا تومیڈم نے کہا کہ میں نے اپنی ذاتی فلم’’ سہاگ ‘‘ شروع کی ہے۔
اس میں ولن کاکردارکرو گے؟ میں نے کہا کہ ہاں کیوں نہیں کروں گا، اس کے بعد مجھے توساری رات نیند نہیں آئی کہ صبح ’’سہاگ‘‘ کی شوٹنگ ہونے والی ہے۔ ندیم صاحب، ضیاء محی الدین، میڈم شمیم آراء، زمرد بیگم جیسے بڑے ناموںکے درمیان ولن کاکردار اداکرناآسان بھی نہیں تھا، شوٹنگ کے وقت تقریباً تمام ہی اسٹوڈیوہنرمند آگئے کہ دیکھیں یہ پٹھان کیاگل کھلائے گا؟ سیٹ پر ہدایت کارفرید احمد سے ملاقات ہوئی، میڈم موجود تھیں، ضیاء محی الدین ایک طرف بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، ندیم بڑے اچھے طریقے سے ملے۔
فرید صاحب نے بتایا کہ سین کچھ اس طرح ہے کہ ایک لڑکی بیٹھی ہوگی آپ نے اسے پکڑنا ہے اوراس نے جان بچاکر بھاگناہے، میں نے میڈم سے کہاکہ اس قسم کے تمام سین مجھے توکبھی حقیقت سے قریب لگے ہی نہیں، پوچھا وہ کیوں؟ میں نے جواباً کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردکے ہاتھ سے ایک عورت اتنی آسانی سے اپنا ہاتھ چھڑا لے؟ آپ بتائیں کہ میں یہ سین کس طرح سے کروں؟ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آپ اس منظر میں حقیقت کا رنگ بھر دیں۔
یہ ایک لمبا ون شاٹ تھا، منظرکچھ یوں تھا کہ میں سیڑھیوں سے اتررہا ہوں، نیچے بیڈ پر لڑکی (شمیم آراء) بیٹھی ہے، میری نظر اس پر پڑتی ہے، میں قریب آتا ہوں تو وہ گھبراجاتی ہے، میں نے اسے ہاتھ سے پکڑا، اس نے ہاتھ چھڑانے کی بڑی کوشش کی لیکن بے بس ہوگئی، پھر میں نے اسے اٹھاکرآئرن راڈ بیڈ پردے مارا، سیٹ پر موجود لوگوں کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی، شاٹ ختم ہوا، سب نے تالیاں بجاکرحوصلہ افزائی کی، ہدایت کارفرید احمد بھی آگئے اورخوش ہوئے، اس طرح اردو فلموں میں میری اداکاری کا آغاز ہوگیا، اس فلم میں مجھے تین ایوارڈ ملے۔
اپنی پہلی پشتو فلم کے بارے انہوں نے کہا کہ اسی طرح فلم سازاورہدایت کار رحیم گل کی پشتو فلم ’’موسیٰ خان گل مکئی‘‘ شروع ہورہی تھی، انہوں نے کمال صاحب کو ہیرو لیا، محمد علی صاحب نے میری سفارش کی کہ آصف خان کوموقع دیا جائے، میں نے اس زمانے میں نوشہرہ میں ایک پٹرول پمپ لیا تھا، میں وہاں موجودتھاکہ ساقی صاحب میرے پاس آئے اورکہاکہ محمد علی نے تمہیں بلایا ہے۔ اس کے بعد میں دوتین دن بعد لاہورپہنچا اوررحیم گل سے ملاقات ہوئی۔
اس فلم کی کاسٹ میں یاسمین خان اور ثریا خان وغیرہ تھے، اس دوران رنگیلاصاحب کا شاگرد ممتازعلی خان مجھے ملا اورکہا کہ میں فلم ’’درہ خیبر‘‘ شروع کررہا ہوں ،آپ اس میں کام کریں۔ میں نے اس کوغورسے دیکھاکہ یہ بچہ کیافلم بنائے گا، خیر اس فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی ، بن بھی گئی اورسپر ڈوپر ہٹ بھی ہو گئی، ’’درہ خیبر‘‘ ، ’’موسیٰ خان گل مکئی‘‘ سے پہلے نمائش کے لئے پیش ہوئی، بس اس طرح پشتو فلموں میں بھی میں نے کام شروع کردیا، اس کے ساتھ اردو فلمیں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اورمیرا شمار بھی چوٹی کے ہیرو اور ولن کردار نبھانے والوں میں ہونے لگا اورپھرچل سوچل، میں نے تقریباً سات سو اردو فلمیں کیں۔
اپنی ڈائریکشن میں بننے والی فلم ’’کالا دھنداگورے لوگ‘‘ سے متعلق انہوں نے کہا کہ میرے پاس جب تھوڑے سے پیسے آئے تو میں نے برمنگھم، برطانیہ میں آرٹ ٹائپ کی اردو فلم’’ کالادھنداگورے لوگ ‘‘ شروع کی۔ فلم کے لیے وہاں چھ ماہ تک قیام پذیر رہے، فلم سازی میں میرے شریک کارکفایت حسین شاہ تھے، وہ اس فلم کوبمبئی کے کسی فلمی میلے میں بھی لے کرگئے تھے لیکن پاکستانی ہونے کی وجہ سے یہ مناسب پذیرائی حاصل نہیں کر سکی، ویسے وہاں کی انڈسٹری کے قابل ذکر لوگوں نے وہ فلم دیکھی، پسند بھی کی اورہمارے کام کوکافی سراہا بھی۔ اس فلم کے موسیقارپرویزچوہان تھے جوبھارتی موسیقارجوڑی شنکرجے کشن کے ساتھ کام کرچکے تھے۔
انہوں نے لاہورمیں گانوں کی صدا بندی کے لیے کراچی سے میوزیشن منگوائے، یہاں مجھے لوگوں نے کہاکہ میوزک پراتنا خرچہ کیوں کررہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ جب میوزک اچھا نہ ہو تو فلم کیسے اچھا بنے گی؟ چوہان صاحب موسیقی کے لیے برطانیہ سے یہاں آئے، وہ گانے اب بھی آپ سنیں تو یوں لگے گا جیسے انڈین گانے سن رہے ہوں۔ گیت نگارڈاکٹرصفی تھے، حسن طارق کے ساتھ کبھی کام کرنے کااتفاق نہیں ہوا، البتہ اردو فلموں میں چار ڈائریکٹر ایسے تھے جنہوں نے مجھے اپنی فلموں میں کاسٹ کیا،جن میں جاوید فاضل، اقبال کاشمیری، جان محمد اور اقبال یوسف شامل ہیں۔ جان محمدکی تقریباً ہرفلم میں کام کیا اورتمام فلمیں سپرہٹ رہیں، جیسے ’’چوروں کا بادشاہ‘‘ وغیرہ، اس زمانے میں فلم انڈسٹری میں گھرجیساماحول تھا، ہمارا زیادہ وقت گھرکے بجائے سٹوڈیومیں کام کے دوران گزرتا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں آصف خان نے بتایا کہ میں اور بدرمنیر بھائیوں جیسے تھے، کبھی میری بدر صاحب سے ناراضگی نہیں ہوئی اور نہ کسی اورکے ساتھ ، وہ بڑے اداکار تھے ، پشتو فلموں میں ان کا طوطی بولتا تھا، فلموں میں ہماری جوڑی کو بہت پسندکیا جاتا۔ فلم آنے سے قبل ہی لوگ پوچھتے تھے کہ اس فلم میں آصف خان اوربدرمنیر ہوں گے، جب ہماری کوئی پشتو فلم سینما میں لگتی توشائقین کاتانتا بندھا رہتا، جسے پشتوفلم کا دور زریں بھی کہاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں کئی مرتبہ استنبول، لندن، روس، جاپان، سری لنکا، نیپال وغیرہ گیا ہوں، ہرایک فلم میں ہیرو بدلتے تھے لیکن میں ولن، ہیرو اورسائیڈ ہیروکا کردار اداکرتا رہا۔ منیلا، فلپائن میں تین چارفلمیں کیں، فلمی صنعت کی بہاریں ہم نے دیکھی ہیں، بیرون ملک بننے والی فلموں میں اکثر مجھے کاسٹ کیاجاتا تھا، یہ ہماری خوش قسمتی رہی کہ ہم لوگ فلمی دنیا میں اس کے سنہری دور میں داخل ہوئے۔
اپنی فلموں کی تعدادکے حوالے سے انہوں نے کہاکہ میں نے پشتو، پنجابی اوراردوکی کل ملاکر بارہ سو فلمیں کیں، ہر ہیرو، ہیروئن کے ساتھ کام کیا جیسے سلطان راہی، ان کے ساتھ بہت کام کیا۔ وحید مراد کے ساتھ بھی کام کیا، اپنی فلم ’’کالادھنداگورے لوگ‘‘ میں ان کو لندن لے گیا تھا، یہ ان کی آخری فلم تھی، ڈبنگ کے دوران وہ بیمار پڑگئے، غلام محی الدین کے ساتھ بھی بہت کام کیا، اظہارقاضی اورندیم صاحب کا بھی ساتھ رہا۔
اپنے بیٹے اورفلم سٹار اربازخان کے بارے میں آصف خان نے بتایاکہ ایک مرتبہ ہدایتکارسیدنور نے کہاکہ آپ کے بیٹے کومیں موقع دیناچاہتا ہوں ، میں نے کہاکہ وہ توسیدھا سادا سا لڑکا ہے جو نماز، روزے میں اپنی ماں پرگیا ہے۔ فلم’’گھونگھٹ ‘‘ کی شوٹنگ ہمایوں قریشی کے گھر پر ہورہی تھی، میں اور میرابیٹا اربازخان بھی وہاں پہنچ گئے، فلم کی اوپننگ تھی، میں نے ہمایوں سے کہا کہ اس کو اندر لے جاکر دیکھوکہ اداکاری کر بھی سکتا ہے یانہیں؟ شان، صائمہ اورہم سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے، پانچ دس منٹ بعد ہمایوں باہرنکلے اورمجھے دیکھ کرکہا ’’ویری گڈ‘‘، میں بہت خوش ہوا اوریوں ارباز ’’گھونگھٹ‘‘ میں کاسٹ ہوگیا جوگولڈن جوبلی فلم ثابت ہوئی لیکن اربازخان پشتوفلموں میں کام نہیں کرناچاہتا تھا، میں نے اسے سمجھایا کہ پشتو فلموں میں ہی تمہاراکیرئیر ہے، تمہیں پذیرائی پشتو فلموں سے ہی حاصل ہوگی، اب وہ پشتو فلموں سے اتنا پیارکرتا ہے کہ پندرہ بیس پشتو فلموں کی ہدایت کاری بھی کر چکا ہے۔ دوتین سو فلموں میں ہیروکاکردار اداکیا ہے، لوگ اسے بہت پسندکرتے ہیں، پھر اس نے اچھی، سپر ہٹ اورگولڈن جوبلی فلمیں دی ہیں، ارباز این سی اے سے فارغ التحصیل بھی ہے۔
آصف خان نے کہا کہ بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں،ایک بیٹا اور باقی بیٹیاں ہیں جو اپنے گھروں میں خوش ہیں، میں اہلیان کراچی کا بہت شکرگزار ہوں جہاں کا میں ٹاپ کا ہیرو تھا، وہاں میری فلم لگتی اورلوگ ٹوٹ پڑتے، لیکن آج فلم اسٹوڈیوز ویران بالکل ختم ہوچکے ہیں۔ ایک زمانے میں یہاںگاڑیوں اورلوگوں کی چہل پہل ہواکرتی تھی، شام کو پورے لاہورکاسب سے خوبصورت علاقہ یہی ہواکرتا تھا، بڑے بڑے لوگ یہاں آتے تھے، اب تو پاکستان فلم انڈسٹری ختم ہوکر رہ گئی ہے، آنے والے وقت میں بھی کچھ امید نظر نہیں آ رہی۔
انہوں نے کہاکہ ممتازعلی خان بڑے اچھے ڈائریکٹر تھے، عزیزتبسم بھی کمال کے ڈائریکٹر تھے جنہوں نے پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ (1970 ) بنائی تھی پھر نسیم خان اورعنایت اللہ خان بہت اچھے ڈائریکٹرتھے، یہ چار حضرات پشتو فلموں کے بہترین ڈائریکٹر مانے جاتے ہیں، اب ارباز، ارشد خان، شاہد خان اس میدان میں اچھاکام کر رہے ہیں، آغا جہانگیر بڑا خوبصورت آرٹسٹ ہے، وہ ہیرو کے ساتھ ولن کاکردار بھی بخوبی اداکرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتو فلم انڈسٹری میں اب پروڈکشن بہت کم ہو کررہ گئی ہے، ایک وقت تھاکہ ہم دس دس فلموں کی شوٹنگ کرتے تھے۔ کابل اور دبئی پشتو فلم انڈسٹری کی ایک بڑی مارکیٹ تھی، ایک سوال کے جواب میں آصف خان نے بتایا کہ فلم ’’کالادھنداگورے لوگ‘‘ کے بعد ’’شیشے کا دل لوہے کے ہاتھ‘‘ ، پشتو فلم ’’مقدر‘‘ ، ’’پرستان‘‘ کی ڈائریکشن دی۔ ’’پختون پہ ولائیت کنہ‘‘ یہ میری اردوفلم ’’کالا دھندا گورے لوگ‘‘ کا پشتو ورژن تھا، اس کو بھی پرڈیوس کیا۔ انہوں نے کہاکہ میری دعا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کی گئی بہاریں دوبارہ لوٹ آئیں لیکن اب ویڈیو اورموبائل کا دور ہے، میڈیا بہت تیزہوچکا ہے اس لیے ہمیں جدید تقاضوں کے مطابق فلم انڈسٹری کے احیاء کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔
آصف خان کو فلم ’’شانی‘‘ میں بہترین ساتھی اداکارکا نگار ایوارڈ برائے سال 1989ملاہے، فلم ’’کالادھنداگورے لوگ‘‘ میں بہترین تدوین کارکا نگارایوارڈ ایڈیٹر اکبرعلی کوبرائے سال1981 دیاگیا اسی طرح پنجابی فلم ’’شعلہ‘‘ میں بہترین اداکارکا نگارایوارڈ برائے سال 1978بھی آصف خان کے نام آیاہے، ان کی چنداہم فلموں میں’’کیوں تم سے اتنا پیار ہے‘‘ (2005)’’زما ارمان‘‘ (2013ء )’’خیردے یار نشہ کے دے‘‘ (2016)’’گنداگیری نہ منم‘‘ (2016) اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے پشتو اوراردو ڈراموں میں بھی بہترین کام کیا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہاکہ فلم انڈسٹری نے بتایا کہ پشتو فلموں شمیم ا راء فلموں میں پشتو فلم اردو فلم محمد علی کی شوٹنگ کے لیے ا رہا تھا رہے تھے میں بہت نے مجھے میں کام فلم میں کام کیا میں بھی کے ساتھ بھی بہت گاؤں کے میں کی فلم کی کام کر کہ ایک ہی تھی میں ہی تو فلم کے نام کے بعد کہ میں فلم کے اس فلم
پڑھیں:
اعظم سواتی نے عمران خان سے متعلق قرآن پر حلف کے ساتھ بیان دیدیا
— فائل فوٹوپی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی نے عمران خان سے متعلق قرآن پر حلف کے ساتھ بیان دے دیا۔
اعظم سواتی نے کہا ہے کہ میرے بارے میں بانی پی ٹی آئی سے منسوب غلط خبریں چلائی گئیں، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے وقت بشریٰ بی بی بھی موجود تھیں۔
اعظم سواتی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے کہا کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں، میں نے کہا کہ اب مانسہرہ میں میرے ایک لاکھ ووٹ نہیں، سو ووٹ بھی نہیں، دسمبر 2022 میں بانی نے مجھے کہا آرمی چیف سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔
اعظم سواتی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا مجھے آپ پر اعتماد ہے، جائیں اور فوجی قیادت سے بات کریں، بانی سے مشاورت کے بعد آرمی چیف کے استاد کے ذریعے رابطے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے عارف علوی کے ذریعے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن دروازے نہ کھلے، پارٹی رہنماؤں نے مجھے گھر سے اٹھایا اور 22 اگست کا جلسہ ملتوی کروانے کا کہا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ بیرسٹر گوہر میرے گھر آئے اور مجھے اڈیالا جیل لے کر گئے، بانی پی ٹی آئی سے کہا عارف علوی اور ساتھیوں سے مل کر اسٹیبلشمنٹ سے بات کروں گا۔
اعظم سواتی نے کہا کہ بانی نے کہا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کس سے کہاں رابطہ کر رہے ہو، بانی نے کہا اگر وہ بات کرنا چاہتے ہیں تو میں پہلے دن سے تیار ہوں۔
اعظم سواتی نے کہا کہ ایک وی لاگر کہتا ہے اعظم سواتی 26 نومبر کو کہاں تھا، میں اٹک جیل میں تھا، مجھ پر تشدد ہوا، پارٹی میں تفریق نہیں پیدا کرنا چاہتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک کو بچانا ہے تو شر اور فساد پیدا کرنے والوں کا منہ بند کرنا پڑے گا، علی امین کے ساتھ کھڑا ہوں، وہ بانی پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ ہیں۔