پی ٹی آئی کا متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن؛ الیکشن کمیشن 8 اپریل کو سماعت کریگا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
سٹی42: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت مقرر کر دی۔
الیکشن کمیشن 8 اپریل منگل کی صبح پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت کرے گا۔ کیس کی سماعت کے لیے متنازعہ الیکشن میں بلامقابلہ چئیرمین منتخب قرار دیئے گئے بیرسٹر گوہر اور پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔
بہت بڑے ہاسپٹل کے سربراہ کو کورونا ہو گیا
اکبر ایس بابر سمیت تمام درخواست گزاروں کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن میں مارچ 2024 سے پی ٹی آئی کے متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ زیر التوا ہے اور کمیشن نے اب تک صرف 8 سماعتیں کی ہیں۔اب تک اس کیس کی تمام سماعتیں پی ٹی آئی کی طرف سے عدم تعون کے سبب ملتوی ہوئیں۔
متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن منظور نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان معطل ہے۔
عید الاضحیٰ کس روز، کس کس کی چھٹی ماری جائے گی
پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا تنازعہ؛ پس منظر
پی ٹی آئی کے اندر الیکشن کئی سال سے ایک تنازعہ بنے ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی کے اندر واحد حقیقی انترا پارٹی الیکشن 2013 میں مارچ میں ہوئے تھے جنہیں پی ٹی آئی کے اپنے کارکنوں نے دھاندلی کے شواہد کے ساتھ اپنے الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا تھا اور کئی سال کی سماعت اور التوا کے بعد پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمیشنر جسٹس جسٹس وجیہہ الدین احمدنے اس الیکشن کو دھاندلی کی وجہ سے کالعدم قرار دے دیا تھا اور بانی عمران خان کو نئے الیکشن تک "ڈکٹیٹر" کی حیثیت سے پارٹی کو چلانے کا اختیار دے دیا تھا۔ یہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ جو پی ٹی آئی کی طرف سے پاکستان کے صدر مملکت کے عہدہ کے لئے امیدوار بھی رہے تھے، انہوں نے اپنے اس فیصلہ کے ساتھ پی ٹی آئی چھوڑ دی تھی۔
سابق صوبائی وزیر ملک قاسم خٹک انتقال کر گئے
دوسرے انترا پارٹی الیکشن
پہلے دھاندلی زدہ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد جب پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ الدین احمد نے بانی کو پارٹی کا ڈکٹیٹر بنا دیا تو انہوں نے آئین میں تبدیلی کر کے نیا عبوری نظام بنایا جو ان کی مختصر مجلسِ مشاورت پر مشتمل تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا پی ایس ایل10 میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا اعلان
بعد میں پی ٹی آئی میں (آخری) انٹرا پارٹی الیکشن 2017 میں ہوئے تھے جو اپنی جگہ پر الگ سے متنازعہ تھے۔ پارٹی کے ٖڈکٹیٹر کی حیثیت نے بانی نے انٹرا پارٹی الیکشن کا نیا طریقہ کار متعارف کروایا جس کے مطابق کسی رکن کو ووٹ ڈالنے کے لئے کسی پارٹی دفتر مین جا کر پولنگ کے عمل میں شریک نہیں ہونا پڑا بلکہ پی ٹی آئی کے ارکان کی لسٹ میں اپنا نام، شناختی کارڈ اور فون نمبر درج کروانے والوں کو رکن مان کر ایس ایم ایس کے ذریعہ ووٹ دینے کے لئے کہا گیا۔
کل جب امریکہ میں سٹاک مارکیٹس کریش ہوئیں، پاکستان کی مارکیٹ اوپر گئی
آٹھ دن تک جاری رکھے گئے اس نام نہاد الیکشن میں ارکان کو ایس ایم ایس کے ذریعہ ووٹ دینے کی سہولت دی گئی تھی اور نیک محمد نامی ایک گمنام شخص کو بانی عمران خان کے مقابل چئیرمین کا امیدوار بنایا گیا تھا۔ نیک محمد کے پینل کے دوسرے ارکان بھی گمنام تھے۔ اس اپنی نوعیت کے واحد انٹرا پارٹی الیکشن میں پی ٹی آئی کے اپنے اعلان کے مطابق 2017 کے انٹرا پارٹی انتخابات کے دوران، پارٹی عہدوں کے لیے 2.
2017 کے نام نہاد ایس ایم ایس انٹرا پارٹی الیکشن میں کئی دن تک "ارکان" کو موبیلائز کرنے کے بعد جو ایس ایم ایس ووٹ اکٹھے ہوئے، وہ کبھی کسی نے نہیں دیکھے تاہم خود پی ٹی آئی کے اعلان کے مطابق بانی کو دو لاکھ سے کم ایس ایم ایس ووٹ ملے تھے۔ بانی کے پینل میں جہانگیر ترین سیکرٹری جنرل تھے۔ وسطی پنجاب کے صدر علیم خان تھے، سندھ کے پارٹی صدر عارف علوی تھے، بلوچستان کے صدر یار محمد رند اور خیبر پختونخوا کے صدر علی امین گنڈاپور تھے۔
اس ایس ایم ایس انٹراپارٹی الیکشن پر ناقدین نے بہت سوالات اٹھائے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسے تسلیم کر لیا تھا اور بانی عمران خان اور دوسرے عہدیداروں کے پانچ سال کے لئے منتخب قرار دیتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔
ایس ایم ایس الیکشن کی میعاد ختم ہونے کے بعد
اس انٹراپارٹی الیکشن کی میعاد ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی اور تب چئیرمین عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بھی تھے، انہوں نے الیکشن کمیشن کی یاد دہانیوں کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے، ان کی پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ چکی تھی جس کا نتیجہ بعد میں بہت سے لوگوں کے پارٹی چھوڑ کر نئی پارٹیاں بنا لینے اور دوسری پارٹیوں میں چلے جانے کی صورت میں نکلا۔
خود بانی کی وزارتِ عظمیٰ قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کے عدم اعتماد کے نتیجہ میں اپریل 2022 میں ختم ہو گئی تھی۔
پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے اور عہدیداروں کی مدت ایکسپائر ہو جانے کو لے کر پی ٹی آئی کے بانی رکن اور سابق سیکرٹری اطلاعات اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن چلے گئے۔ کیونکہ کسی پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن اس پارٹی کو انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور بالآخر اس کی رجسٹریشن ہی ختم کر دیتا ہے۔اکبر ایس بابر کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کے لئے کئی مہلتیں دیں۔
دو دسمبر 2023 کے متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن
اس دوران پی ٹی آئی کے بانی نے 9 مئی 2023 کا سنگین حملہ کیا، ان کے بہت سے کارکن پکڑے گئے، بہت سے لیڈر اور کارکن پارٹی چھوڑ گئے۔ الیکشن کمیشن کے بہت دباؤ کے بعد 2 دسمبر 2023 کو، پی ٹی آئی نے نئے انٹرا پارٹی انتخابات کے نام سے اسلام آباد میں ایک مختصر اجتماع کیا اور اس میں چند لوگوں کو بلا مقابلہ منتخب پارٹی عہدیدار قرار دے دیا۔ فروری 2024 میں پاکستان میں عام انتخابات ہونا تھے جس میں انتخابی نشان کے ساتھ شریک ہونے کے لئے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کروانا لازم تھا۔
اکبر ایس بابر نے 2دسمبر کے نام نہاد انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کر دیا
پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے اس متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کر دیا۔ اکبرایس بابر نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات چیلنج کرنے کے لیے الیکشن کمیشن میں باضابطہ درخواست دائرکی جس مین کہا کہ یہ سرگرمی پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں تھی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے 2 دسمبر کو ہونے والے انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا کی اور پارٹی کے آئین مین دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی درخواست کی۔
درخواست میں کہا گیا کہ 2 دسمبر 2023 والی سرگرمی میں الیکشن قواعد و ضوابط، شیڈول، کاغذات نامزدگی اور طریقہ کارکا نہیں بتایا گیا ، 2 دسمبرتک انتخابات کے بارے میں معلومات پی ٹی آئی ویب سائٹ پر نہیں تھیں۔
اکبر ایس بابر کی درخواست میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں میں جعلی انٹراپارٹی الیکشن کا عمل کو ختم کیا جائے اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی قوانین اور ضابطوں کا پابند بنایا جائے ۔
اس درخواست کی سماعتیں ہوئیں تو 2 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی کا نام نہاد چئیرمین بننے والے بیرسٹر گوہر نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں، دلائل دیئے لیکن الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے اپنے ہی آئین کو بنیاد بنا کر یہ قرار دیا کہ دو دسمبر کی سرگرمی انٹرا پارٹی الیکشن نہیں تھی، اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا اور پی ٹی آئی کو دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی ہدایت دی۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کی روشنی میں بعد میں الیکشن کمیشن نے فروری 2024 کے جنرل الیکشن کے لئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان جاری نہیں کیا اور اس پارٹی کے لیدروں کو انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے مختلف انتخابی نشانوں کے ساتھ الیکشن لڑنا پڑا۔
3 مارچ 2024 کا ایک اور متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر 3 مارچ 2024 کو ایک اور" انٹرا پارٹی الیکشن" کروایا۔ یہ سرگرمی دو دسمبر 2023 والی سرگرمی سے بھی زیادہ متنازعہ تھی۔ اس کے لئے پشاور شہر سے باہر ایک مضافاتی گاؤں میں سڑک کنارے ایک ٹینٹ لگایا گیا، وہاں کچھ لوگوں کو جمع کیا گیا اور ایک بار پھر بیرسٹر گوہر اور کئی دوسرے لوگوں کو پارٹی کا چئیرمین اور دوسرے عہدوں پر "منتخب" قرار دے دیا گیا۔
28 فروری کو بیرسٹر گوہر کے بلا مقابلہ چئیرمین بننے کا اعلان
تین مارچ کے اس نام نہاد " انٹرا پارٹی الیکشن" سے کئی روز پہلے ہی 29 فروری کو پی ٹی آئی نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جسے نیوز آؤٹ لیتس نے شائع کیا جس مین بتایا گیا تھا کہ بیرسٹر گوہر بلامقابلہ چئیر مین منتخب ہو گئے ہیں اور عمر ایوب بلا مقابلہ جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے ہیں۔نو مئی تسدد کے مقدمات میں جیل میں قید یاسمین راشد کو بلا مقابلہ پی ٹی آئی پنجاب کی صدر بتایا گیا۔
پی ٹی آئی کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا، حلیم عادل شیخ صدر پی ٹی آئی سندھ بن گئے ہیں، اس پریس ریلیز میں کہا گیا کہ صرف پی ٹی آئی بلوچستان کی صدارت کی نشست پر انٹراپارٹی الیکشن ہو گا جو کوئٹہ میں 3 مارچ 2024 کو ہوگا۔
اس اعلامیہ کے مطابق پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نتائج کا حتمی اعلان 3 مارچ کو کیا جائنا تھا۔
تین مارچ 2024 کو متنی میں کچھ درجن کارکنوں اور کچھ لیدروں کا مختصر جلسہ کر کے اسے انٹرا پارٹی الیکشن قرار دیا گیا اور پی ٹی آئی نے 4 مارچ کو الیکشن کمشن میں اپنے " انٹرا پارٹی انتخابات کی تفصیلات" الیکشن کمیشن کو جمع کروائیں۔
اکبر ایس بابر دوبارہ الیکشن کمیشن پہنچ گئے
اس مرتبہ بھی اکبر ایس بابر نے اس متنازعہ سرگرمی کو انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم نہیں کیا، ان کے ساتھ کئی دوسرے پی ٹی آئی ارکان نے بھی الیکشن کمیشن کو درخواستیں دیں۔ ان درخواستوں میں بتایا گیا کہ کارکنوں نے پی ٹی آئی کے سنٹرل سیکریٹریٹ جا کر انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی اور دوسری تفصیلات مانگیں تو انہین کاغذات نامزدگی نہین دیئے گئے۔ ان درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ تین مارچ کو کوئی انترا پارٹی الیکشن ہوئے ہی نہیں، نہ ہی پی ٹی آئی نے اپنے آئین کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ارکان کو موقع فراہم کیا۔
الیکشن کمیشن نے بھی اعتراضات لگا دیئے
الیکشن کمشن نے خود بھی پی ٹی آئی کی 4 مارچ کو جمع کروائی انٹرا پارٹی الیکشن کی "تفصیل" کو لے کر اس پروسیس پر اعتراضات کر دیئے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات عائد کر تے ہوئے تحریک انصاف کو 30 اپریل ک 2024 کو طلب کیا۔ الیکشن کمشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو 30 اپریل کو پیش ہونے کی ہدایت کی۔
بعد میں الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر اور دوسرے چیلنج کرنے والوں کی درخواستوں کی بھی سماعت کی اور تب سے اب تک اس کیس کی کئی سماعتیں کر چکا ہے۔ آئندہ سماعت پرسوں 8 پریل کو مقرر ہے۔
Waseem Azmetذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن متنازعہ انٹرا پارٹی الیکشن انٹرا پارٹی الیکشن نہ انٹرا پارٹی انتخابات انٹراپارٹی الیکشن الیکشن کمیشن میں پارٹی الیکشن کا الیکشن کمیشن نے پارٹی الیکشن کی پی ٹی ا ئی کے ا اکبر ایس بابر نے پی ٹی ا ئی پی ٹی ا ئی کو پی ٹی ا ئی نے پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر ایس ایم ایس میں کہا گیا میں الیکشن بلا مقابلہ چیف الیکشن کی درخواست الیکشن میں بتایا گیا الیکشن کو پارٹی کے کے مطابق انہوں نے نام نہاد چیلنج کر کی سماعت کے بانی مارچ کو گئے ہیں کے ساتھ دے دیا کے صدر کے لئے کے بعد اپنے ا کیس کی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا معاملہ، اہم کیس سماعت کے لیے مقرر
پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ دینے اور الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ 7 اپریل کو سماعت کرے گی۔ جسٹس خالد اسحاق، ایڈووکیٹ منیر احمد کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے متعلق اہم کیس کو سماعت کے لیے مقرر کرلیا گیاہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ دینے اور الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے خلاف درخواست پر لاہور ہائیکورٹ 7 اپریل کو سماعت کرے گی۔ جسٹس خالد اسحاق، ایڈووکیٹ منیر احمد کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کریں گے۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم آئین کے منافی ہیں، جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں، حالانکہ سپریم کورٹ ان نشستوں کی فراہمی کے حوالے سے واضح فیصلہ دے چکی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو آئین کے آرٹیکل 27-اے کے تحت نوٹ جمع کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے، جب کہ امریکی نژاد سید اقتدار حیدر کی فریق بننے کی درخواست بھی منظور کر لی گئی ہے۔
سید اقتدار حیدر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فریق نمبر 12، یعنی پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین، الیکشن کمیشن میں کوما کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں، بلکہ پاکستان پارلیمنٹیرینز کے طور پر رجسٹرڈ ہے، اس لیے اسے غلط فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کو سید اقتدار حیدر کے تحریری دلائل کو مرکزی درخواست کا حصہ بنانے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ علاوہ ازیں وکیل اظہر صدیق نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے اور الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔