امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے ہی پارٹنر ممالک پر جوابی نوعیت کے بڑے محصولات کا اعلان کیا، جسے انہوں نے ایک نئے ''سنہری دور‘‘ کی شروعات قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی بدولت صنعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کی ملازمتیں بڑی تعداد میں امریکہ واپس آئیں گی۔
یہ اقدام آزادتجارت اور عالمی تجارتی نظام سے ایک حیران کن انحراف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
عشروں پر محیط ان اصولوں سے رو گردانی دراصل دیگر ممالک کو بھی مجبور کر سکتی ہے کہ وہ بھی جوابی اقدامات کریں۔ یوں نہ صرف عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹیں کھڑی ہو سکتی ہیں بلکہ ٹریڈ پروٹیکشن ازم (تحفظ پسند تجارتی اقدامات) کے ایک نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکتا ہے۔(جاری ہے)
امریکہ کی طرف سے چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ویتنام جیسے ایشیائی ممالک پر سب سے زیادہ سخت محصولات عائد کیے جا رہے ہیں۔
کیا مکمل تجارتی جنگ شروع ہو سکتی ہے؟صدر ٹرمپ نے چین سے درآمدات پر پہلے سے موجود 20 فیصد محصولات کے علاوہ 34 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نو اپریل سے جب یہ نئے قوانین نافذ العمل ہوں گے تو چین پر مجموعی ٹیکس کی شرح 54 فیصد ہو جائے گی۔
یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان 582.
بیجنگ نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور جوابی اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ ''جیسے کو تیسا‘‘ طرز کی پالیسی سے دنیا کی دو بڑی معیشتیں گہری تجارتی جنگ میں الجھ سکتی ہیں۔ یوں عالمی سپلائی چین متاثر ہو سکتی ہے۔
چین کی یورپی یونین سے تعاون کی اپیلچین کے یورپی یونین کے لیے چیمبر آف کامرس کے سیکریٹری جنرل فنگ ڈونگ کوئی نے کہا،''ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محصولات تجارتی تحفظ پسندی کو جنم دے سکتے ہیں اور عالمی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں پر زور دیا کہ اختلافات مذاکرات سے حل کریں نہ کہ محاذ آرائی سے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین اور یورپی یونین کو کثیر الجہتی تجارتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔
جاپان کا ردعمل: مایوسی لیکن احتیاطصدر ٹرمپ نے جاپان پر 24 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا ہے حالانکہ جاپان کی جانب سے سفارتی کوششیں کی گئی تھیں کہ اسے محصولات سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ٹرمپ نے جاپان پر یہ الزام بھی عائد کہ کہ ٹوکیو حکومت نے امریکی چاول کی جاپان امپورٹ پر 700 فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔
تاہم جاپان کے وزیر زراعت تاکو ایٹو نے ان اعداوشمار کو ''غیر منطقی‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔جاپان کے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ امریکی فیصلے سے ''انتہائی مایوس‘‘ ہوئے ہیں اور وہ ملکی صنعت کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔
رواں ہفتے ہی جاپانی گاڑیوں کی امریکہ درآمد پر 25 فیصد ٹیکس بھی لاگو ہو گیا ہے۔
اس وجہ سے جاپانی آٹو صنعت میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ صنعت ملکی جی ڈی پی کا تقریباً تین فیصد ہے اور آٹھ فیصد ملازمتیں بلاواسطیہ یا بالواسطہ اسی صنعت سے جڑی ہوئی ہیں۔ تاہم جاپان کی حکومت نے بدلہ لینے کے بجائے محتاط رویہ اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔ ’ٹیرف کنگ‘ بھارت پر اثراتٹرمپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ''اچھا دوست‘‘ قرار دیا، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بھارت ''ہم سے اچھا سلوک نہیں کر رہا۔
‘‘ انہوں نے بھارت کو''ٹیرف کنگ‘‘ اور ''تجارتی نظام کا غلط فائدہ اٹھانے والا‘‘ ملک قرار دیا ہے۔اب امریکہ بھارت سے درآمدات پر 27 فیصد محصولات عائد کر رہا ہے، جو نو اپریل سے نافذ ہوں گے۔
2024ء میں دونوں ممالک کے درمیان 129.2 ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہوئی، جس میں بھارت نے 87 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ کو برآمد کیں اور 41.8 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں، یعنی بھارت کو 45.7 ارب ڈالر کا تجارتی فائدہ حاصل ہوا۔
بھارت نے کہا ہے کہ وہ ان محصولات کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت جاری رکھے گا۔
جنوب مشرقی ایشیا کی 'چائنہ پلس ون‘ حکمت عملی خطرے میں؟جنوب مشرقی ایشیا کے چھ ممالک پر بھی صدر ٹرمپ نے 32 سے 49 فیصد تک کے محصولات عائد کیے ہیں۔ ویتنام، تھائی لینڈ جیسے ممالک نے پچھلے کچھ سالوں میں امریکی مارکیٹ کے لیے بڑی برآمدی معیشتیں قائم کی ہیں۔
ویتنام نے گزشتہ سال امریکہ کو 142 ارب ڈالر کی برآمدات کیں، جو اس کی مجموعی معیشت کا 30 فیصد بنتی ہیں۔ اب امریکہ نے اس پر 46 فیصد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔
ویتنامی وزیراعظم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے ''ریپڈ ریسپانس ٹیم‘‘ بنانے کا اعلان کیا ہے جبکہ نائب وزیراعظم اگلے ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔
مذاکرات کو ترجیح دی جائےانڈونیشیا پر بھی 32 فیصد ٹیکس عائد ہوا ہے، جس سے ماہرین کو معاشی بحران کا خدشہ ہو چلا ہے۔
سنگاپور پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ادھر کمبوڈیا نے 49 فیصد امریکی ٹیکس کو ''غیر معقول‘‘ قرار دے دیا ہے۔تائیوان نے بھی نئے امریکی محصولات کو غیر منصفانہ قرار دیا ہےِ۔ تاہم یہ ٹیکس سیمی کنڈکٹرز پر لاگو نہیں ہو گا۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک عمومی طور پر جوابی کارروائی کے بجائے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔
تھائی وزیراعظم نے کہا، ''ہمیں مذاکرات کرنا ہیں، تفصیل میں جانا ہو گا۔ ہم اپنی جی ڈی پی کا ہدف نہیں گنوا سکتے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد
اس رپورٹ کی تیاری میں ڈی ڈبلیو چائنیز سے کوئی مو، نئی دہلی سے مرلی کرشنن، ٹوکیو سے جولیئن رائل، ڈی ڈبلیو انڈونیشیا سے یوسف پامنچک اور ڈیوڈ ہٹ نے تعاون فراہم کیا۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ارب ڈالر کی ٹیکس عائد فیصد ٹیکس انہوں نے قرار دیا کے لیے کیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
امریکی ٹیرف، پاکستان کیلئے معاشی مشکلات بڑھنے کاخدشہ
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستانی مصنوعات پر 29فیصد امریکی ٹیرف عائد ہونے کے معاملے پر حکومت نے موثر حکمت عملی تیار کر لی ۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اعلیٰ سطح کی سٹیئرنگ کمیٹی اور ورکنگ گروپ قائم کر دیا جو امریکہ کے ساتھ اضافی ٹیرف
کے معاملے پر مذاکرات کرے گا ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 12 رکنی سٹیئرنگ کمیٹی کے کنوینر جبکہ سیکرٹری تجارت جواد پال کو ورکنگ گروپ کا کنوینر مقرر کر دیا گیاہے سٹیئرنگ کمیٹی ٹیرف کے معاملے پر قائم ورکنگ گروپ کی نگرانی کرے گی، 19 رکنی ورکنگ گروپ میں متعلقہ سیکرٹریز، کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں ۔وزیراعظم کو امریکی ٹیرف کے معاملے پر پیش رفت سے آگاہ رکھا جائے گا ،بلاشبہ امریکہ پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور جب امریکہ اپنی مارکیٹ پر ٹیرف عائد کررہاہے تو اس سے پاکستانی برآمد کنندگان کو قیمتوں میں اضافہ اور رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،معاشی ماہرین کے مطابق ٹیرف کا مطلب یہ ہے کہ امریکی خریداروں کو پاکستانی چیزیں مہنگی پڑیں گی، جس سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو نقصان ہوگا، پاکستان کا تجارتی حجم امریکہ کے ساتھ سرپلس میں ہے۔ سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کو پانچ ارب ڈالر کا سامان بیچتا ہے اور امریکہ سے اڑھائی سے تین ارب کا سامان خریدتا ہے،ٹرمپ فیصلے کے بعد ڈالر کا زرمبادلہ ملک آنا کم یا بند ہو سکتا ہے جس سے پاکستان میں بے روزگاری بڑھنے کا خدشہ ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان کو امریکی ٹیرف کے اپنی معیشت پر منفی اثرات کوممکن حد تک کیسے کم کرناچاہئے؟اس حوالے سے کثیرالجہتی اقدامات درکاہیں ،سب سے پہلے پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرے اور جو ہم 58 فیصد ٹیرف وصول کر رہے ہیں اس کے جواب میں امریکہ نے جو 29 فیصد ٹیرف عائد کیا اس کو متوازن بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے ،پاکستان کو عالمی تجارت میں اپنی حکمت عملی کو متنوع بنانا اور امریکی مارکیٹ پر انحصارکم کرناچاہیے، اسی طرح عالمی سطح پر تجارت کی نئی راہیں تلاش کی جانی چاہئیں ، یورپ کے ساتھ جی ایس پی پلس کا سٹیٹس قائم رہنا ضروری ہے تاکہ پاکستان یورپی مارکیٹ میں زیرو ٹیکس ایکسپورٹ کو انجوائے کر سکے،اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ سے تجارت بڑھانے پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کی جانی چاہئے ،پاکستانی مصنوعات کو ویلیو ایڈیشن کے ذریعے دنیا میں پہنچانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں ،بظاہر امریکہ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف پاکستان کیلئے بڑا چیلنج ہے لیکن اگر حکومت اور کاروباری طبقہ مشترکہ طور پر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی تجارتی حکمت عملی اپنائیں تو یہ چیلنج پاکستان کے لیے مواقع کی شکل میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے، عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کو مزید متوازن اور لچکدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان عالمی تجارت میں اپنا کردار مزید مستحکم کرے۔
تجزیہ