Daily Ausaf:
2025-04-07@10:16:24 GMT

درپیش مسائل اور چیلنجز

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

یہ’’بحث‘‘ اب عام اور بہت زیر بحث ہے کہ آیا حکومت اپنے پانچ سال پورے کر پائے گی؟ فروری 2024 ء میں قائم ہونے والی شہباز حکومت کو ابتدا سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ درپیش چیلنجز اتنے گھمبیر ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام نہیں لیکن تمام تر نامساعد اور مشکل ترین حالات کے باوجود شہباز حکومت یہ عہد کرتی دکھائی دی کہ ملک کو درپیش مسائل سے باہر نکال لائیں گے۔ مسائل اور زیر بحث ’’چیلنجز‘‘ ہمیشہ ہی سے ایسا موضوع رہا ہے جس پر متعدد بار لکھا گیا اور بات بھی ہو چکی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ تاہم ن لیگ نے 2024 ء میں اپنے لئے اقتدار کا جو راستہ چنا،مشکل ہی نہیں،دشوار گزار بھی تھا لیکن ایک سال کے دورانیے میں شہباز حکومت نے وہ کر دکھایا جس کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ کچھ جماعتیں سیاسی حقیقت ہیں۔ جن میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) بھی شامل ہے-لیکن اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار کے بعد پی ٹی آئی جن حالات و مشکلات کا شکار ہے،اس کی روداد کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ بالکل بھی امید نہیں تھی کہ بانی پی ٹی آئی زیادہ عرصہ جیل کی صعوبتیں برداشت کر سکیں گے،ٹوٹ جائیں گے،مگر ڈیڑھ دو سال میں ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ جیل میں ہیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جو حالات ہیں اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے بانی کے لئے آنے والے دنوں میں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں، نہ آسانیاں پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ 190 ملین پونڈ میں خان صاحب کو 14 سال کی سزا ہو چکی۔ 9 مئی کے مقدمات ابھی سماعت کے منتظر ہیں۔ یہ سماعت سول کورٹ میں ہوتی ہے یا فوجی عدالت میں؟ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے- جہاں اس حوالے سے ایک پٹیشن زیر سماعت ہے۔’’فیصلہ‘‘ اگر یہ آیا کہ ’’سویلنز‘‘ پر قائم 9 مئی کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے جا سکتے ہیں تو معاملہ پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی علامت سمجھا جائے گا۔ اگرچہ مقدور بھر کوشش ہوئی، مہرے بھی آزمائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کے لئے علی امین گنڈاپور کو ٹارگٹ دیا گیا۔ مگر جب ستارے گردش میں ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما کہتے ہیں بانی جیل میں ہشاش بشاش ہیں۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں لیکن اڈیالہ میں ان سے ملاقات کرنے والے لاہور کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے جب اڈیالہ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بانی سے ان کی ملاقات ہوئی تو بانی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ بہت پریشان اور مضطرب دکھائی دیتے تھے۔ مایوسی ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ مسلسل قیدو بند نے انہیں توڑ دیا تھا۔ وہ پارٹی رہنمائوں کی ’’کارکردگی‘‘ سے بھی کافی مایوس اور ناامید نظر آتے تھے۔ عید کے بعد ملک گیر احتجاج کی جو کال دے رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پرامید نہیں۔اس کی وجہ جمعیت علما اسلام کا عدمِ تعاون ہے۔کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام ابھی تک اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بننے کے لیئے راضی نہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ جمعیت اگر اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنتی اور احتجاج میں شامل نہیں ہوتی تو گرینڈ الائنس کی ملک گیر تحریک کا کچھ بننے والا نہیں۔کیونکہ جمعیت کے سوا کوئی دوسری پارٹی سٹریٹ پاور نہیں رکھتی۔جبکہ سٹریٹ پاور کے بغیر کسی بھی احتجاج یا تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔تاہم ابھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ جمعیت پی ٹی آئی اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بن جائے گی۔ گزشتہ ایک سال کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف عیاں ہو گی کہ اس ایک سال کے دورانئے میں پی ٹی آئی نے کچھ نہیں پایا بلکہ کھویا ہی کھویا ہے۔سیاست یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو جہاں بھی ضد اور ہٹ دھرمی ہو گی وہاں ناکامیاں ہی مقدر بنیں گی۔جھوٹی انا پرستی خسارے کا سودا ہوتی ہے۔جس سے منزلیں دور ہو جاتی ہیں۔خان صاحب کے ساتھ یہی ہوا انہوں نے اپنے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا راستہ چنا۔ضد، ہٹ دھرمی دکھانے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔بانی آج اگر جیل میں ہیں اور پوری جماعت مشکلات کا شکار ہے تو اس میں خود ان کا اپنا ہاتھ ہے۔خان صاحب کے ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ بات سما گئی ہے کہ نیلسن منڈیلا بن کر ہی جیل سے باہر نکلیں گے۔کیا ایسا ہو گا؟ ایسا ہو سکتا ہے؟ بانی نیلسن منڈیلا بن سکتے ہیں؟ ہمیں کم از کم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا-ان اطلاعات میں بھی کافی حد تک سچائی ہے کہ پی ٹی آئی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ انتشار و خلفشار کا شکار ہے-چیئرمین بیرسٹر گوہر کی پارٹی پر گرفت نہیں-رہنماں کی پارٹی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے ان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا پتہ چلتا ہے۔اس روش نے پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، وہ بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ جماعت کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے جو تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔وہ پتہ دیتی ہے کہ اندر کے حالات ٹھیک نہیں۔یہی منظر کشی ہوتی ہے کہ ڈی چوک میں 24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد پارٹی مزید کمزور تر ہوئی ہے۔یہی ادراک ہوتا ہے کہ اس کی صفوں میں بڑی دراڑ اور خلا موجود ہے۔حکومتی جماعت ن لیگ کی بات کریں تو وہ اس وقت پنجاب کو ’’فوکس‘‘ کیے ہوئے ہے۔ن لیگ سمجھتی ہے پنجاب کے 12 کروڑ باسیوں کے دل جیت لیئے تو سمجھو پورا پاکستان جیت لیا کیونکہ پنجاب ہی فیصلہ کرتا ہے کہ ملک پر کس نے حکمرانی کرنی ہے۔اسی لئے وزیراعلیٰ مریم نواز دن رات پنجاب کے لئے کام کر رہی ہیں اور 80 سے زیادہ فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔یہ وہ حقیقت ہے جو پی ٹی آئی کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔وہ سمجھتی ہے مزید چار سال اور گزر گئے، پنجاب میں اسی رفتار سے ترقیاتی اور رفاعی کام جاری رہے تو پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اسی لئے پی ٹی آئی ملک میں انتشار کی سیاست قائم کرنا چاہتی ہے۔’’انتشار‘‘ کا مطلب ہے سیاسی عدم استحکام جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ملک میں معاشی استحکام قائم رہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل بھی پارٹی ہدایات کے مطابق منفی پروپیگنڈہ مہم چلائے ہوئے ہے جس کا مقصد فوج اور ریاست کو بدنام کرنا ہے۔اس ونگ کے ذریعے انتشار پھیلایا جا رہا ہے،افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ بے چینی اور بدگمانی کا احتمال ہو۔ سمجھنے کی بات ہے پی ٹی آئی کسی بیرونی اشارے پر ایسا کر رہی ہے یا منفی ہر عمل اس کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔پی ٹی آئی قیادت کو سمجھنا چاہئیے ملک ہے تو ہم ہیں۔فوج مستحکم ہو گی تو ملک کا دفاع بھی مستحکم ہو گا۔پتہ نہیں پی ٹی آئی کیوں ریاست کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس پر بہت سے الزامات ہیں کیا درست بھی ہیں، یہ دیکھنا ہو گا۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے اسے 2024 ء کے الیکشن اور اس کے نتائج پر شدید تحفظات ہیں۔یہی تحفظات 2018 ء کے الیکشن میں ن لیگ کو بھی تھے۔لیکن پی ٹی آئی کو تسلیم نہیں تھا کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب کوئی جنرل باجوہ اور کوئی جنرل فیض نہیں، جو پی ٹی آئی کا ہمسفر و دمساز ہو۔کسی کے کہنے، نا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔پی ٹی آئی کو 2028 ء کے الیکشن تک انتظار کرنا ہوگا۔نہ حکومت جانے والی ہے، نا ہی اس کے جانے کے آثار یا امکانات پائے جاتے ہیں-پی ٹی آئی کو سوچنا اب یہ چاہئیے کہ 2028 ء کے عام انتخابات کیسے صاف شفاف بنائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے انہیں آئندہ انتخابات کو دھاندلی سے پاک بنانے کے لئے مذاکرات کی طرف بڑھنا ہو گا۔سب جماعتیں اگر اس یک نکاتی ایجنڈیپر متفق ہو جائیں کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔اس کے نتائج کو ہر کوئی تسلیم کرے۔تو پھر ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک صحیح ڈگر پر چلنے لگے۔ آئندہ جب الیکشن ہوں تو لوگ اس کے غیر جانبدارانہ ہونے کے عمل کو دل سے تسلیم کریں۔جب تک الیکشن کے حوالے سے ہم اس یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو جاتے اور مذاکرات نہیں کرتے، سیاسی انتشار و خلفشار کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔الیکشن ہارنے والے ہار تسلیم نہیں کریں گے تو ’’انارکی’’ کی فضا قائم رہے گی-افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے تو پی ٹی آئی کو بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔9 مئی کے واقعات ناقابل معافی و ناقابل تردید ہیں-رانا ثنااللہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، عمران خان 9 مئی پر قوم سے معافی مانگ لیں تو ان کے لیئے مشکلات سے نجات کا شاید کوئی راستہ نکل آئے۔اب یہ پی ٹی آئی کو دیکھنا ہے کہ اپنے لئے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔یا ایسے ہی ’’گرداب‘‘ میں پھنسی رہے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گرینڈ الائنس پی ٹی آئی کو ملک میں ہیں اور نہیں ہو سکتا ہے کے لئے کہ ملک

پڑھیں:

کراچی، بدترین ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناقص ہے اور ٹرانسپورٹ کے اس فرسودہ نظام کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے یہ شہر آبادی کے اعتبار سے بھی تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن کراچی کے سب سے بڑے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں اور غریب آبادی بسوں، منی بسوں میں جانوروں کی طرح چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہیں۔

یہ المیہ سے کم صورتحال نہیں ہے کہ کراچی شہر کی زیادہ تر آبادی خصوصاً مضافات کے لوگ آمدورفت کے لیے بسوں، منی بسوں، رکشائوں کا انتخاب کرتے ہیں اور صبح کے وقت تو ٹرانسپورٹ کی مشکلات بہت بڑھ جاتی ہیں۔

سرکاری ملازمین، فیکٹریوں میں کام کرنے والے اور تجارتی امور سے منسلک افراد کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس طرح شام کو بھی کم و بیش یہی صورتحال ہوتی ہے، کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو عملی تدابیر اختیارکرنی ہوں گی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنے پر ترجیحی بنیاد پر توجہ دینی ہوگی۔ ماس ٹرانزٹ اسکیم پر بھی عملدرآمد کرنا ہوگا اور لوکل ٹرینوں کے نظام کو بھی بہتر شکل دینی ہوگی۔ 
 جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جب نعمت اللہ خان ناظم تھے تو کراچی کے ماسٹر پلان کے لیے بڑی رقم فراہم کی گئی تھی اور جماعت اسلامی نے پورے شہر میں جنرل پرویز مشرف کی فوجداری پر بنی ہوئی اور نعمت اللہ خان کی تصاویر لگائی تھیں لیکن اربوں روپے کے ٹرانسپورٹ کے بجٹ کے باوجود کراچی کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اس وقت بھی حل نہیں ہوسکا تھا اور آج بھی کراچی کے شہری بدترین ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار ہیں اور وہ حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سب سے پہلے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل پر توجہ دی جائے۔

سندھ حکومت کی تازہ ترین رپورٹ میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ حکومت نے جب خود تسلیم کرلیا ہے کہ کراچی کے شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے نظام انتہائی ناقص ہے تو پھر اصلاح احوال کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کراچی کے شہریوں کے ساتھ یہ صریحاً ظلم ہے کہ انھیں ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولت بھی حاصل نہیں ہے، مضافاتی بستیوں کے لاکھوں لوگ روزانہ ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ متحدہ کے ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی میں جتنے بھی فلائی اوور بنائے گئے ہیں اس سے عام آدمیوں کو فائدہ کم پہنچا ہے جب کہ کاروں پر سفرکرنے والوں کے اوقات کار میں فلائی اوور سے کمی ہوئی ہے اورکاروں کی آمدورفت کا نظام بہتر ہوا ہے۔

فلائی اوور سے شہریوں کو زیادہ فوائد حاصل اس لیے بھی نہیں ہوئے ہیں کہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کا نظام بنیادی طور پر ناقص ہے اور اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے جس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اس سے ہمیشہ انحراف کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جتنے بھی فلائی اوورز بنے ہیں اس میں وفاقی حکومت سندھ حکومت یا سٹی گورنمنٹ کی کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی ہے۔

یہ فلائی اوور جاپان کی حکومت کی امداد سے تعمیرکیے گئے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ معاہدے کے تحت جاپان پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس سلسلے میں جاپانی ماہرین کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں کا بھی دورہ کرچکے ہیں اور کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے متعلق رپورٹیں دے چکے ہیں۔

ان چشم کشا رپورٹوں میں جاپانی ماہرین نے حکومت پاکستان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔حکومت سندھ کے ٹرانسپورٹ کے حکام کی ذمے داری ہے کہ وہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے تمام شہروں، دیہاتوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرے۔ عارضی اقدامات کے بجائے مستقل منصوبہ بندی کرے اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے۔

ٹریفک پولیس کو حسن اخلاقی کی تربیت دے اور ٹریفک پولیس میں بڑھتی ہوئے کرپشن کو روکے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب ٹرانسپورٹ کا محکمہ شہریوں کے مسائل کو نہ صرف سمجھے بلکہ انھیں حل کرنے کے لیے جامع حکمت عملی طے کرے۔ جاپان کی حکومت اور کارکمپنیاں کراچی کے ٹرانسپورٹ کے پورے نظام کو اس لیے بھی بہتر بنانا چاہتی ہیں کہ کراچی شہر میں جاپانی کمپنیوں کی بہت کھپت ہے۔

یہ ان کے خود اپنے معاشی مفاد میں ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہو، تاکہ جاپان کی کاروں کی کھپت اس شہر میں مزید بڑھ سکے۔ جاپان کے ٹرانسپورٹ کے ممتاز ماہر مینورو شیبویا نے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے متعلق جو ٹرانسپورٹ رپورٹ 2030کے متعلق وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو پیش کی تھی اس میں کہا گیا ہے کہ 2030تک کراچی کی آبادی 31.6 ملین نفوس تک پہنچ جائے گی۔

آبادی میں اس اضافے سے ٹرانسپورٹ کے شہریوں کے لیے مسائل بڑھیں گے جس سے کراچی کے شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا اور ملکی اقتصادیات پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ رپورٹ میں کراچی کے ٹرانسپورٹ کے روڈ نیٹ ورک میں نئے کوریڈور کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • تم آگ لگانا سیکھ گئے
  • کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ملک میں بجلی سستی ہوگی، خواجہ آصف
  • کوئی فیصلہ اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا، پی ڈی ایم آج بھی قائم ہے: فضل الرحمن
  • جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز
  • کراچی، بدترین ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار
  • وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کو ہٹانے کی کوئی بات نہیں چل رہی، جنید اکبر
  • ایسی پالیسیاں لانا چاہتے ہیں، جن سے لوگوں کے صحت کے مسائل کم ہوں، مصطفیٰ کمال
  • نیشنل کانفرنس حکومت لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، محبوبہ مفتی
  • نیشنل کانفرنس حکومت لوگوں کی درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، محبوبہ مفتی