سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کیلئے اہل قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
سپریم کورٹ— فائل فوٹو
سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خود مختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی۔
9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا ہے۔
شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق کے پی سول سرونٹس رولز کے تحت مرحوم یا طبی بنیادوں پر ریٹائر سرکاری ملازم کے تمام بچے ملازمت کے اہل ہیں، سیکشن افسر کی جانب سے ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز کو تبدیل کرنا غیر قانونی ہے، ایسی ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق شادی کی بنیاد پر بیٹیوں کو مرحوم ملازم کے کوٹے سے خارج کرنا امتیازی سلوک ہے، ایسا عمل آئین کے آرٹیکل 25، 27 اور 14 کی خلاف ورزی ہے، شادی سے عورت کی قانونی حیثیت، اس کی ذات اور خود مختاری ختم نہیں ہو جاتی۔
عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ مالی خود مختاری بنیادی حق ہے، عورت کے یہ حقوق شادی پر منحصرنہیں ہوسکتے، آئین ازدواجی اکائیوں یا سماجی کرداروں کی بنیاد کے بجائے ہر شہری کو انفرادی حقوق دیتا ہے، اسلام میں بھی عورت کو اپنی جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے۔
فیصلے کے مطابق پاکستان نے خواتین کیخلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کی ہے، اس کنونشن کے تحت شادی کی بنیاد پر ملازمت میں امتیازی سلوک ممنوع ہے، نسوانی قانونی نظریے کے تحت عورت کی معاشی اور قانونی خود مختاری کو تسلیم کرنا چاہیے اور ایسی روایات کو ختم کرنا چاہیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالتوں اور انتظامی اداروں کو اپنے فیصلوں میں صنفی حساس اور غیرجانبدار زبان استعمال کرنی چاہیے، ایسے الفاظ پدر شاہی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور آئینی اقدار کے منافی ہیں، یہ اصول طے شدہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے عمومی طور پر آئندہ کے لیے لاگو ہوتے ہیں۔
عدالت نے خاتون کو نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور متعلقہ محکمے کو درخواست گزار کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ نے خود مختاری کو نوکری کی بنیاد
پڑھیں:
مانسہرہ میں غیرت کے نام پر خاتون اور اس کی 16 ماہ کی بچی قتل
اس حوالے سے پولیس نے صحافیوں کو مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ کنگ عبداللہ اسپتال کی پولیس چوکی میں جرگہ کے بعد مقتولہ کی نعش مقتولہ کے سسرال کے بجائے ملزمان پارٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مانسہرہ کے علاقہ جابہ میں غیرت کے نام پر ایک خاتون اور اسکی سولہ ماہ کی بچی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق مانسہرہ لاہور ہوٹل کے پاس مسماة رابعہ نے محمد عمر سے تین/ساڑھے تین سال قبل پسند کی شادی کی تھی، اب ان کی سولہ ماہ کی بیٹی بھی تھی مقتولہ رابعہ کا شوہر عمر سعودی عرب میں مقیم ہے۔ جمعہ کی نماز کے وقت رابعہ کے ورثا نے مبینہ طور پر محمد عمر کے گھر جاکر رابعہ اور اس کی سولہ ماہ کی بیٹی کو مبینہ غیرت کے نام پسند کی شادی کرنے پر گولیاں مار کرقتل کر دیا ہے جب کہ کنگ عبداللہ ہسپتال مانسہرہ کے حکام نے بتایا کہ پولیس اور ریسکیو حکام نے ماں بیٹی کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے ہسپتال منتقل کیا مگر مقتولہ رابعہ کی نعش بھی اٹھانے نہیں دی گئی۔
اس حوالے سے پولیس نے صحافیوں کو مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ کنگ عبداللہ اسپتال کی پولیس چوکی میں جرگہ کے بعد مقتولہ کی نعش مقتولہ کے سسرال کے بجائے ملزمان پارٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ مقامی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مقتولہ نے اپنی ذات پات برادری سے باہر چھپ کر شادی کرلی تھی۔ شادی کے بعد تین سال تک روپوش رہی، شوہر کے روزگار کے سلسلہ میں بیرون ملک جانے کے بعد ملزمان کو قتل کرنے کا موقع مل گیا، ماں بیٹی قتل کی واردات کے بعد مانسہرہ کے حالات کشیدہ ہوگے تھے، دونوں برادیوں کی طرف سے اشتعال پایا گیا اور مزید خون خرابے کا خدشہ پیدا ہوگیا جس وجہ سے مقامی پولیس نے افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے لاشیں اٹھانے سے قبل ہی دونوں پارٹیوں کا جرگہ میں معاملہ حل کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔