کیا انمول بلوچ واقعی ایک کروڑ پتی سے شادی کر رہی ہیں؟ حقیقت سامنے آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
کراچی: پاکستانی اداکارہ انمول بلوچ نے اپنی شادی سے متعلق گردش کرنے والی افواہوں کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
انسٹاگرام پر دی گئی وضاحت میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ان کی شادی نہیں ہوئی، اور جب کبھی ایسا ہوگا تو وہ خود اپنے مداحوں کو آگاہ کریں گی۔
اداکارہ نے لکھا: "جب وقت آئے گا، میں خود اپنے فینز اور انڈسٹری کو اطلاع دوں گی۔ یہ تمام خبریں جھوٹی ہیں، ہر چیز پر یقین نہ کریں جو آپ آن لائن دیکھتے ہیں۔" انمول نے اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ فی الحال شادی کی کوئی بات نہیں ہے۔
یہ افواہیں اس وقت پھیلیں جب عید اسپیشل مارننگ شو میں میزبان ندا یاسر نے حال ہی میں شادی شدہ شخصیات کو مبارکباد دیتے ہوئے انمول کا نام لیا، جس پر گلوکار فلک شبیر نے بھی مبارکباد دی۔ اس بات نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا، اور مداح سمجھنے لگے کہ شاید انمول نے خفیہ نکاح کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ انمول بلوچ کی شادی 2025 میں ایک کروڑ پتی بزنس مین عمیر بیگ سے ہونے والی ہے تاہم یہ تمام خبریں کسی بھی مستند ذریعہ سے تصدیق شدہ نہیں تھیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ایک انٹرویو میں انمول بلوچ نے خواتین کی مالی خودمختاری پر زور دیتے ہوئے کہا تھا: "چاہے آپ کے والدین کون ہوں یا آپ کس سے شادی کریں، ایک عورت کو مالی طور پر خودمختار ہونا چاہیے۔"
انہوں نے مزید کہا: "اگر آپ صرف شوہر کی کمائی پر انحصار کریں گی تو آپ کسی بھی ظلم کو سہنے پر مجبور ہو جائیں گی۔"
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انمول بلوچ
پڑھیں:
والد کے بعد بیٹی کو ملازمت ملے گی، تحریری فیصلہ آگیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری ملازم کی وفات کے بعد اس کی شادی شدہ بیٹی کو ملازمت نہ دینے کا فیصلہ غیر قانونی اور امتیازی قرار دینےکا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
اعلیٰ عدالت نے مرحوم والد کی جگہ بیٹی کو ملازمت کے لیے اہل قرار دے دیا، کرک سے تعلق رکھنے والی خاتون کی درخواست پر جسٹس منصور نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
درخواست گزار کو 17مارچ 2023 کو متوفی سرکاری ملازم کے کوٹے پر ٹیچر بھرتی کیا گیا تھا، دو ماہ بعد 15 مئی2023 کو ضلعی تعلیمی افسر نے تقرری کا حکم واپس لے لیا تھا۔
وضاحتی مراسلے میں کہا گیا تھا کہ شادی شدہ بیٹی کو متوفی سرکاری ملازم کے کوٹے پرملازمت کا حق نہیں ہے۔
تحریری فیصلہ کے مطابق عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خود مختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، قوانین کے تحت مرحوم یا طبی بنیادوں پر ریٹائرڈ ملازم کے تمام بچے ملازمت کے اہل ہیں۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سیکشن افسر کا ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز کو تبدیل کرنا غیر قانونی عمل ہے، ایسی ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق شادی سے عورت کی قانونی حیثیت، اس کی ذات اور خود مختاری ختم نہیں ہوجاتی، عورت کے یہ حقوق شادی پر منحصر نہیں ہوسکتے، عورت کی مالی خود مختاری ایک بنیادی حق ہے۔
آئین ازدواجی اکائیوں یا سماجی کرداروں کی بنیاد کی بجائے ہر شہریوں کو انفرادی حقوق دیتا ہے، اسلام میں بھی عورت کو اپنی جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے۔
پاکستان نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کی، ایسی روایات کو ختم کرنا چاہیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔
جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد ودیگر بنام محمد جلال کیس کے فیصلے کا اطلاق موجودہ کیس پرنہیں ہوتا، سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کا اطلاق ان تقرریوں پر نہیں ہوتا جو پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے عمومی طور پر آئندہ کے لیے لاگو ہوتے ہیں، خاتون کو نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، متعلقہ محکمہ درخواست گزار کی تقرری کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کرے۔
مزیدپڑھیں:مرغی کے گوشت کی قیمتوں کو ایک بار پھر پر لگ گئے