غزہ میں اسرائیلی فائرنگ سے شہید 15 امدادی کارکنوں کی دل دہلا دینے والی ویڈیو منظرعام پر
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی فائرنگ سے شہید 15 امدادی کارکنوں کی دل دہلا دینے والی ویڈیو منظرعام پر WhatsAppFacebookTwitter 0 6 April, 2025 سب نیوز
غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 15 فلسطینی امدادی کارکنوں کی شہادت کی لرزہ خیز ویڈیو منظرعام پر آگئی ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے یہ ویڈیو جاری کی ہے، جو شہید ہونے والے ایک امدادی کارکن کے موبائل فون سے ملی ہے۔ یہ فون اور لاش ایک ہفتے بعد اجتماعی قبر سے برآمد کیے گئے تھے۔
ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینسیں، فائر ٹرک اور اقوام متحدہ کی گاڑیاں شناختی نشانات کے ساتھ موجود ہیں، جن کی ایمرجنسی لائٹس بھی جل رہی ہیں۔ تاہم، جیسے ہی امدادی قافلہ رفح کے علاقے میں پہنچا، فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دو امدادی کارکن جیسے ہی زخمیوں کو بچانے ایک ایمبولینس کی طرف بڑھے، اسرائیلی فوج نے ان پر شدید گولیاں برسا دیں۔
ویڈیو میں ایک امدادی کارکن کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جس کے الفاظ تھے: “ماں، مجھے معاف کر دینا، لوگوں کی مدد کرنا ہی میرا راستہ تھا۔”
اقوام متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر نے اس واقعے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے سلامتی کونسل سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ واقعہ 2017 کے بعد ہلال احمر اور ریڈ کراس پر ہونے والا سب سے مہلک حملہ ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق واقعے کے دو دن بعد اسرائیلی فوجیوں نے ایمبولینسیں اور لاشیں اجتماعی قبر میں چھپا دیں۔ سیٹلائٹ تصاویر اور موقع سے ملنے والے شواہد نے انکشاف کیا کہ یہ ایک منصوبہ بند اور سفاکانہ کارروائی تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں 1,060 سے زیادہ طبی اہلکار شامل ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
یہود مخالفت سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کا لائحہ عمل جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اپریل 2025ء) دنیا بھر میں یہود مخالفت کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر اقوام متحدہ نے اس لعنت پر قابو پانے کے لیے ایک بڑا لائحہ عمل جاری کیا ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کے پورے نظام میں اس مسئلے کی نگرانی اور اسے روکنے کے اقدامات میں اضافہ کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے 'تہذیبوں کے اتحاد' (یو این اے او سی) اور نسل کشی کی روک تھام پر خصوصی مشیر کے دفتر کی جانب سے یہ لائحہ عمل رواں سال جنوری میں سامنے لایا گیا تھا۔
یہ اقدام یہود مخالفت اور شناخت کی بنیاد پر نفرت سے نمٹنے کے سابقہ اقدامات کا تسلسل ہے جو مساوات، انصاف اور انسانی وقار کے فروغ سے متعلق ادارے کے عزم کو تقویت دیتا ہے۔ Tweet URLاس پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک ابتدائی ٹھوس اقدام کے طور پر اقوام متحدہ 'یو این سسٹم سٹاف کالج' کی شراکت سے آن لائن آگاہی کا نمونہ بھی تیار کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
یہ صارفین کو ایسے علم اور ذرائع سے کام لینے کے قابل بنائے گا جن کی بدولت وہ یہود مخالفت کو پہچاننے کے ساتھ اس کے خلاف ردعمل بھی دے سکیں گے۔یہود مخالفت کے خلاف غیرمتزلزل عزم'یو این اے او سی' کے اعلیٰ سطحی نمائندے میگوئل اینجل موریشنز نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا قیام ہولوکاسٹ کے بعد عمل میں آیا تھا۔ ادارہ یہود مخالفت، انتہاپسندی اور کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت کی ترغیب اور تشدد سے نمٹنے کے لیے ثابت قدمی سے کوششیں کر رہا ہے جن کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس لائحہ عمل سے کام لینے کے لیے مشترکہ کوششوں کی بدولت شناخت کی بنیاد پر نفرت سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
یہود مخالفت پر قابو پانے کی کوششوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایسے نقصان دہ دقیانوسی تصورات کا مقابلہ اور ان کا ابطال کیا جائے جو اسے دوام دیتے ہیں۔ عام طور پر ایسے تصورات کی بنیاد صدیوں پرانے سازشی نظریات اور غلط و گمراہ کن اطلاعات پر ہوتی ہے جن سے خوف اور بداعتمادی کا ماحول تشکیل پاتا ہے۔
ایسے تصورات جھوٹے بیانیوں یا متعدد سماجی مسائل یا اقدامات پر مفروضہ اجتماعی ذمہ داری عائد کرنے کے ذریعے تمام یہودیوں کے خلاف الزام تراشی کو ہوا دیتے ہیں۔ پریشان کن طور سے یہ ہولوکاسٹ سے انکار یا ان واقعات کو توڑموڑ کر پیش کرنے کا سبب بھی ہوتے ہیں۔
دقیانوسی تصورات کا قلع قمعنسل کشی کی روک تھام پر سیکرٹری جنرل کی قائمقام خصوصی مشیر ورجینیا گامبا نے اس مسئلے کے حوالے سے عالمگیر آگاہی کو بہتر بنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہود مخالفت کے مختلف النوع اظہار اور ان نقصان دہ دقیانوسی تصورات کو بہتر طور پر سمجھ کر اور ان سے نمٹںے کے لیے مزید علم کی بدولت دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ساتھیوں کے کام کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ عدم رواداری، امتیازی سلوک اور کسی ایک مذہب کے پیروکاروں پر حملے دوسروں کے خلاف بھی عدم برداشت، تفریق اور حملوں کا باعث بنتے ہیں۔