پاک افغان تعلقات میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
10 فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دہشتگرد تنظیم دولتِ اسلامیہ یا داعش کو عراق اور شام میں تو دبا دیا گیا لیکن اُس کی شاخیں افغانستان اور افریقہ کے اندر کُھل چُکی ہیں اور ہمیں افغانستان کے جانب سے دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس 24 جون کو سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کُن اقدام کی ضرورت ہے۔
اِس سال کے آغاز میں 4 جنوری کو پہلا دہشتگردی کا واقعہ تربت میں پیش آیا جس میں ایک سپاہی شہید اور 35 زخمی ہو گئے۔ اِس کے بعد 9 جنوری کو لکی مروت میں دہشتگردوں نے 16 کان کنوں کو اغواء کر لیا، 16 جنوری کو کُرم ایجنسی میں انسانی امداد لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا گیا، ایسی درجنوں وارداتوں کے بعد 11 مارچ کو بی ایل اے بلوچستان نے ٹرین ہائی جیک کی جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 21 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
اُس کے بعد 15 مارچ کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 10 سے زائد دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ اس سال دہشتگردی کی اِس بڑھتی ہوئی لہر نے ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں کو گہری تشویش میں مُبتلا کر دیا ہے۔ سال کے ابتدائی 3 مہینوں میں درجنوں دہشتگرد حملے اور سینکڑوں شہادتیں کسی بھی ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
ریاستِ پاکستان کافی عرصے سے اِس مؤقف کو دہراتی آئی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کا تعلق افغانستان سے ہے جہاں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشتگردی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان اکثر و بیشتر اپنے اِس مؤقف کو بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتا ہے، ثبوت بھی پیش کیے جاتے ہیں لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
افغانستان اِس وقت درجنوں دہشتگردی تنظیموں کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے وہ ٹی ٹی پی ہو، حافظ گُل بہادر گروپ، داعش، بی ایل اے اور کئی دیگر گروپس افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں۔ 11 مارچ ٹرین ہائی جیکنگ واقعے میں ملوث کردار بھی افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔ تاہم افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کا تسلسل کے ساتھ یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمے داریوں کو پورا نہیں کر رہی۔ دفترِخارجہ کا مسلسل مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی یا دوسری دہشتگردی تنظیموں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکنا افغان طالبان کا فرض ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے مُلک میں موجود افغان شہریوں کو 31 مارچ تک مُلک چھوڑنے کی ڈیڈلائن بھی دے رکھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے اصل محرکات کیا ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ معاملات طے کیوں نہیں کر پا رہا۔ خیبرپُختونخوا کی حکومت افغان طالبان سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن قانونی طور پر یہ اختیار وفاق کا ہے۔گزشتہ سال جنوری میں جمیعت علمائے اِسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افغانستان کا خیر سگالی دورہ کیا۔
پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی بے چینی اور دہشتگردی کو ختم کرنے کی خواہش کے باوجود یہ ختم کیوں نہیں ہو رہی اور پاک افغان تعلقات میں ایسی کون سی رکاوٹیں ہیں جو اِس مسئلے کی راہ میں حائل ہیں، اِس کے لیے ہم نے ماہرین سے بات کی ہے۔
حل یہ ہے کہ وفاق خیبرپُختونخوا اور بلوچستان کو بھی اپنا سمجھے، فخر کاکاخیلمعروف صحافی اور دہشتگردی سے جُڑے معاملات پر ماہر مبصر فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات ہمیشہ اِسلام آباد اور کابل کے درمیان ہوتے ہیں اور وہیں اِن معاملات کو سیاسی رنگ دے کر خراب کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن اُن کو علاقائی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
اصل ایشو یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں نہ کوئی صنعت ہے نہ روزگار۔ یہاں کے لوگوں کا سارا انحصار تجارت پر ہوتا ہے، جب طورخم اور چمن کو بند کیا جاتا ہے تو اُس سے لوگوں کے اندر نفرت جنم لیتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں سیاسی نوعیت کی ہوتی ہیں جن کو بڑھا دیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اِن لوگوں کو معاملات کی سمجھ نہیں ہے۔
بنیادی طور پر معاملات تب خراب ہونا شروع ہوئے جب پاکستان کے وزیرِداخلہ نصیر اللہ بابر نے طالبان کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور پھر جنرل فیض حمید 15 اگست کو کابل میں پائے گئے اور اُنہوں نے کہا کہ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ‘۔
دنیا جس گند سے خود کو دور کرتی ہے ہم اُسے اپنانے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ طالبان وہ حکومت ہے جو خاتون کو زمین میں گاڑ کے اُس پر پتھر برساتی ہے۔ یہ لوگ بڑے بڑے میدانوں میں مجمع لگا کر لوگوں کے سروں میں گولیاں مارتے ہیں، اِنہوں نے میڈیا، میوزک اور ثقافت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔
ہم نے اپنے رویے سے پوری افغان قوم کو اپنا دشمن بنا لیا۔ اب ہم طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے جبکہ افغانستان کی موجودہ نسل ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔
فخر کاکاخیل نے کہا کہ موجودہ امن کی خرابی میں علاقائی طاقتوں کا بھی حصہ ہے۔ اِن سارے مسائل کا حل کیا ہے، اس سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ حل یہ ہے کہ وفاق پنجاب کو پاکستان سمجھنا بند کرے اور پورے پاکستان کو اُون کرے۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب ابھی تک پشاور نہیں گئے، حادثے کے بعد تین، چار گھنٹوں کے لیے کوئٹہ چلے گئے تھے۔ ہماری ریاستی رٹ کا حال یہ ہے کہ ابھی تک کُرم کے راستے کلیئر نہیں کرائے جا سکے۔ بلوچستان اور فاٹا عملاً فوج کے ہی کنٹرول میں ہے۔
فخر کاکاخیل نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اِس بات سے اتفاق کیا کہ بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے اور گورننس کے اندر جو گیپس ہوتے ہیں وہ آرمی کو پُر کرنا پڑتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی تعداد کے بارے میں جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں وہ بھی میرے خیال سے درست نہیں۔ 40 ہزار کی تعداد تو عمران خان نے بتائی تھی۔ جس بڑی تعداد میں حملے ہو رہے ہیں اُن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دہشتگردوں کی تعداد کتنی ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو خود چل کر پشاور اور کوئٹہ جانا چاہیے۔ اُنہیں پنجاب کے گرد گھومتی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا اور خیبرپُختونخوا اور بلوچستان کو اون کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے، بریگیڈیئر اسحٰق خٹکافغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر بریگیڈیئر اسحٰق خٹک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالیہ تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان کا اس وقت افغانستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے۔ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا بڑا سبب تحریک طالبان پاکستان ہے اور پاکستان اِس کی کاروائیوں کے لیے افغان طالبان حکومت کو موردِالزام ٹھہراتا ہے۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دیتے ہیں، اُن کی حمایت کرتے ہیں اور اُن کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے۔
موجودہ دور میں پاک افغان تعلقات کے راستے میں اِس سے بڑی کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آج اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو محدود کرتے ہیں یا اُن پہ روک لگاتے ہیں تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔
دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ دونوں ممالک کے مذاکرات اِس عدم اعتماد کی وجہ سے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
تجارت ایک ایسی چیز ہے جو مُلکوں اور خاص طور پر عوام کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے اہم چیز افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے 4 بارڈرز اکثر بند ہو جاتے ہیں۔ اور ابھی آج ہی طورخم بارڈر کھلا ہے۔ اِس کے علاوہ تجارت کے معاملے میں افغانیوں کا یہ شکوہ رہتا ہے کہ اُن کا جو مال کراچی بندرگاہ پہنچتا ہے اُس کی کلیئرنس میں تاخیر کی جاتی ہے، رشوت مانگی جاتی ہے اور طورخم اور چمن میں بھی یہی حالات ہیں۔
برگیڈئیر اسحٰق کے مطابق اِن تجارتی مشکلات کی وجہ سے افغان عوام پاکستان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور پھر اس وجہ سے بھی جب بارڈرز بند ہوتے ہیں تو افغان عوام کی مشکلات شدید تر ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ پاکستان سے علاج معالجہ کرواتے ہیں، اُن کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ روزگار کے لیے بھی پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ جب پاکستان آنے میں اُنہیں مشکلات درپیش ہوتی ہیں تو وہاں کے عوام پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں۔
تیسرا مسئلہ جو آج کل درپیش ہے وہ افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کا ہے جو دہشتگردی میں استعمال ہو رہے ہیں اور پاکستان میں اسمگل بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ان ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں مُلکوں کی حکومتیں ملوّث ہیں۔
برگیڈئیر اسحٰق خٹک نے کہا کہ یہ تینوں عوامل خیبرپختونخوا میں دہشتگردی سے متعلق ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا بی ایل اے وہاں سے آپریٹ کرتی ہے تو بی ایل اے کا ہیڈکوارٹر کبھی قندھار میں تھا، اب نہیں ہے۔ یہ گزشتہ افغان حکومت کے دور میں تھا جب افغان حکومت اور بھارتی حکومت وہاں اُنہیں سپورٹ کرتی تھی۔ لیکن افغان صوبوں نمروز اور ہلمند میں نسلی بلوچوں کی ایک بڑی آبادی اب بھی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل حل نہیں ہو سکتے، سابق سفارتکار وحید احمدسابق سفارتکار وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا کیوںکہ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ افغانیوں کا اپنے بارے میں تاثر بہت زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک بھی وہاں امن نہیں آنے دینا چاہتے۔
اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ذرا سوچیں کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں تو کیا ایران اس پیش رفت سے خوش ہوگا یا کیا بھارت اِس پیش رفت سے خوش ہوگا؟ پھر اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اِس سے چین کا اثر بڑھے گا جو کہ امریکا کو پسند نہیں۔ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اُس سے ٹرانزٹ ٹریڈ بڑھے گی، جو کہ روس اور وسط ایشیائی ممالک کو جوڑ کے رکھ دے گی اور سب سے اہم بات کہ افغانستان میں چین کا اثر بڑھے گا جو امریکا کو بالکل بھی پسند نہیں۔ اس لیے افغانستان میں کبھی امن نہیں ہونے دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے افغانستان کے ساتھ ا نہوں نے کہا کہ افغانستان میں میں دہشتگردی افغان طالبان کہ افغانستان ہو جاتے ہیں پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان کا کرتے ہوئے کے درمیان پاکستان ا بی ایل اے کہ افغان ہوتے ہیں کرتے ہیں ٹی ٹی پی یہ ہے کہ نہیں ہو رہے ہیں جاتا ہے ہیں اور نہیں کر کے خلاف ہے کہ ا لیکن ا ہیں تو کے لیے کے بعد ہے اور ا نہیں کر دیا
پڑھیں:
دہشتگردی کا خاتمہ… ترقی وخوشحالی کا ضامن
پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اربابِ اختیار کا عزم اور حکومت کی پالیسی کے بارے میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ دہشت گردی کی جو جہتیں اور پرتیں ہیں، وہ بھی آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی جو وجوہات ہیں وہ بھی خاصی حد تک منظرعام پر آ چکی ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ کی زیرصدارت کورکمانڈر کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں بھی ہر قیمت پر بلا تفریق دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
میڈیا میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز(ملٹری) کی زیر صدارت 268 ویں کور کمانڈر کانفرنس نے مادرِ وطن کے امن و استحکام کے لیے شہدائے افواج ِ پاکستان ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی لازوال قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فورم کو خطے کی موجودہ صورت حال، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز اور بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں پاکستان کی حکمتِ عملی کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔ کانفرنس میں علاقائی اور داخلی سلامتی کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ بھی لیا گیا۔
فورم نے ہرقیمت پر بلاتفریق دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے ملک دشمن عناصر ، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی، کسی کو بھی بلوچستان میں امن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بلوچستان کے استحکام اور خوش حالی میں خلل ڈالنے والے مذموم سیاسی مفادات اور سماجی عناصر کو بلوچستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت سے فیصلہ کن طور پر ناکام بنایا جائے گا۔ بلوچستان میں تمام ملکی اور غیرملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں پوری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں۔کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے کہا کہ ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کوکسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گئی ۔
فورم نے نیشنل ایکشن پلان کے دائرہ کار کے تحت’’ عزمِ استحکام‘‘ کی حکمتِ عملی کے تیز اور موثر نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ فورم نے دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کے تعاون سے مشترکہ نقطہ نظر کی اہمیت کو بھی اْجاگر کیا ۔شرکاء کانفرنس نے اعادہ کیا کہ ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری استقامت سے عمل درآمد کریں گے، قانون کی عملداری میں کسی قسم کی نرمی اور کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔
آرمی چیف نے پاکستان بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم شدہ ضلعی رابطہ کمیٹیوں کے آغاز کو بھی سراہا۔آرمی چیف نے بغیر کسی رکاوٹ کے نیشنل ایکشن پلان کے تیز نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں حکومتی ہدایات کے مطابق تمام ادارے پائیدار ہم آہنگی ، مربوط کوششوں اور تعاون کو یقینی بنائیں۔ پاک فوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کی مالی اعانت کے خلاف سخت قانونی اقدامات میں مکمل تعاون فراہم کرے گی، غیر قانونی سر گرمیاں دہشت گردی کی مالی معاونت سے اندرونی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
حالیہ عرصے میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف خاصی نتیجہ خیز کارروائیاں کی ہیں۔ ان کارروائیوں میں دہشت گردوں کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کو پروموٹ کرنے والے خیالات ونظریات کو مسترد کیا جائے۔ دہشت گردوں کی جب تک فنانس لائف لائن موجود ہے، اس وقت تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد ایک منصوبے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ان کی اسٹرٹیجی واضح نظر آتی ہے۔
پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ جو علاقے ہیں، وہ دہشت گردوں کے لیے سازگار ہیں۔ افغانستان کی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ وہ پورے افغانستان میں اپنی رٹ قائم کر سکے۔ اس کے علاوہ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل مختلف گروہ اپنے اپنے مفادات کے تحت سرگرم عمل ہیں۔ افغانستان کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ ایک ریاست سے زیادہ بے آئین علاقہ زیادہ نظر آتا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں آج بھی وار لارڈز کا کنٹرول ہے۔ ایسی صورت میں دہشت گرد اور انتہاپسند گروہوں کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ گاہ کے لیے آئیڈیل ہے۔ پاکستان کے لیے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ماضی میں کیپٹل ازم اور سوشلزم کے درمیان جو نظریاتی چپقلش جاری رہی، اس کی وجہ سے افغانستان، ایران اور پاکستان میں دائیں بازو کے نظریات اور سوچ کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس وجہ سے اس پورے خطے میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ نے جنم لیا اور کولڈ وار کی وجہ سے اس مائنڈ سیٹ نے سیاست، معیشت اور معاشرت پر بالادستی حاصل کر لی۔ آج ان تین ملکوں میں دائیں بازو کی سوچ طاقت ور حلقوں تک میں موجود ہے۔ بہرحال اب چونکہ کولڈ وار ختم ہو چکی ہے اور دنیا میں نئے نظریات اور صف بندیاں ہو رہی ہیں، اس تناظر میں پاکستان نے بھی لازمی طو رپر تبدیل ہونا ہے۔
امریکا میں ٹرمپ کی شکل میں جو سوچ پیدا ہوئی ہے، اس نے عالمی تجارت کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا کے ممالک پر پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی نئے حالات کا سامنا ہے۔ ان حالات میں انتہاپسندی کا کلچر مسائل کو زیادہ پیچیدہ اور گھمبیر بنا رہا ہے۔ پاکستان میں جو مخصوص گروہ اور مائنڈسیٹ انتہاپسندی کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہے، وہ درحقیقت پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کر رہا ہے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے یہاں امن کا قیام، جمہوری اقدار کی پاسداری اور آئین وقانون کی حکمرانی قائم کرنا لازم ہو چکا ہے۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں چونکہ سماجی سیٹ اپ اس قسم کا ہے کہ یہاں معاشی تقسیم کی مختلف تہیں نہیں ہیں۔ یا تو بالادست طبقہ ہے اور دوسرا وہ طبقہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سماج کے خدوخال قدیم قبائلی اور سرداری اقدار اور روایات کو لیے ہوئے ہیں۔ تعلیم کا فقدان ہے، انفرااسٹرکچر کی کمی ہے، حکومتی سسٹم بھی قبائلی وڈیروں اور سرداروں کے زیرنگیں ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیاں اور کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ درمیانے طبقہ کا وجود نہیں ہے۔
صوبائی حکومتوں کی جوابدہی کی روایت بھی موجود نہیں ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو جو مالی اور انتظامی اختیارات ملے ہیں، اس کے مقابلے میں اگر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ انتہائی کم ہے۔ علاقائی سیاست بھی قبیلوں کے درمیان تقسیم ہے۔ اس قسم کی سیاست بھی مسائل کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔ ملک کی مین اسٹریم پاپولر پارٹیز کا تنظیمی ڈھانچہ بھی قبائلی اور سرداری نظام کے گرد گھومتا ہے۔ اس وجہ سے بھی غیرقانونی سرگرمیوں کو روکنا خاصا مشکل کام ہو چکا ہے۔
اس قسم کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے وفاق پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کو غیرمعمولی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومتوں کے حوالے سے بھی سرکاری خزانے کے اخراجات اور خرچ کا کوئی ایسا میکنزم تیار ہونا چاہیے، جس سے پتہ چل سکے کہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تخمینہ اور حجم کتنا ہے اور ان محکموں کی کارکردگی کیا ہے۔ صوبے کے ٹیکس ریونیوز کی وصولی کی شرح کیا ہے اور کتنا ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ماضی کی روایت کی پاسداری جاری رہے اور سرکاری اخراجات کا کوئی حساب اور تخمینہ نہ ہو۔
پارلیمنٹیرینز اور سیاسی قیادت کو بھی اپنے طرزعمل اور سیاسی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لینا پڑے گا۔ ماضی کی سیاست اب نہیں چل سکتی۔ صوبائی منافرت پھیلانے سے بھی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہر صوبے کو اعداد وشمار سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بات کرنی ہو گی۔ اب چونکہ سردجنگ کا دور تبدیل ہو چکا ہے، ترقی یافتہ ملکوں سے امدادیں اور گرانٹس بھی ماضی کی طرح نہیں مل سکتیں۔ محض وفاق کو نشانہ بنانے سے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قوم پرستی کی سیاست کا یہ مطلب نہیں کہ کسی ایک صوبے یا مخصوص کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔
قوم پرستی کی سیاست کا مطلب اپنی قوم کے لیے ترقی کی منصوبہ بندی کرنا اور اس پر وسائل خرچ کرنا ہے۔ دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ صوبوں کے لیے بھی ترقی کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں دہشت گردی کی تمام شکلوں کی بیخ کنی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔