جب لوگوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ریاست کسی قوم کے فائدے کے لئے نہیں،بلکہ اشرافیہ کے فائدے کے لئے چلائی جاتی ہے،تو فرد قوم کی خاطر قربانی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے،اور اپنے مفادات کی تلاش میں مگن ہو جاتا ہے! مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ ہمارے نزدیک اسلام کے دامن تقدیس پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح کا سبق مسلمان دوسری قوموں سے لیں، آپ کے ہاں اگر شمع کافوری جل رہی ہے تو آپ کو کسی فقیر کے جھونپڑے سے اس کا ٹمٹماتا ہوا دیا چرانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام اور اس میں آزادانہ طور پر اللہ کے دین متین کے عملی غلبے اور نفاذ کے لئے کی گئی نبی کریم ﷺاور ان کی مقدس جماعت کی ہجرت کو چودہ سو پینتالیس سال بیت گئے،اس طویل دورانیے میں اس کائنات نے بارہا مسلمانوں کے عروج و زوال کو دیکھا اور تاریخ نے ان حالات و واقعات اور ان کے اسباب کو اپنے دامن میں محفوظ کیا جب تک من حیث المجموع مسلمانوں میں ملی احساس بیدار رہا ،قرآن و سنت کی الٰہی تعلیمات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ العمل رہیں۔
اسلامی نظام خلافت و حکومت کا سانچہ کسی بھی صورت میں برقرار رہا، اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم رہا، نصف دنیا پر مسلمانوں کی حکومت و سیادت رہی اور مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی برادری میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے اور پھر جب سے مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں الٰہی تعلیمات کو پس پشت ڈالا قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دیئے ہوئے اسلامی مملکتی نظام کی جگہ اقوام باطل کے نظاموں کو اپنایا اپنے سنہرے ماضی سے خود کو کاٹ دیا تو کرئہ ارض پر ذلت و پستی کا نشان بن گئے ہر گزرتا دن ان کی رسوائی کا باعث بنتا گیا جس دنیا کے ذخائر اور خزانوں کے کل تک مالک تھے آج وہی دنیا اپنی تمام تر وسعتوں اور خزانوں سمیت ان کے لئے تنگ کردی گئی کل تک جو قومیں ایک ایک نوالے کے لئے ان کے دست سخاوت کی محتاج تھی وہ سیادت و قیادت کی مالک بن کر مسلمانوں کو اپنا نظریاتی فکری معاشی اور معاشرتی غلام بنانے لگیں اور آج پوری دنیا کا مسلمان قدم قدم پر ان کا محتاج ہے۔ ایک بار پھر مسلم قوم کو اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے سوچنا ہوگااور اس دنیا کے بوسیدہ نظاموں کو انقلاب اسلامی کی تیز ہوائوں کے جھونکوں سے خس و خاشاک کی طرح اڑاکر پھر سے دنیا میں اسلامی علم لہرانا ہوگا، آئیں عہد کریں کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی بساط کی حد تک اسلامی روح کو زندہ کریں گے دنیا کے فرسودہ نظاموں اور روایات سے بغاوت کریں گے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اسلامی فلاحی معاشرے کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنی دنیا و آخرت کی ترقی و کامیابی کے ہر باب کو وا کریں گے۔ یہی ہماری عزت و عظمت ترقی و کامیابی کا راستہ ہے، تاریخ آج چودہ سو سال بعد بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے کارناموں کو سلام پیش کرتی ہے، رات کا وقت تھا، مدینہ کی گلیوں میں مکمل خاموشی تھی،صرف ہوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھار کسی جانور کی آواز سنائی دیتی تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم، اپنی عادت کے مطابق اپنی رعایا کی حالت جاننے کے لئے شہر کی گلیوں میں نکلے ہوئے تھے،ان کا لباس سادہ اور چہرے پر ایک فکر مند تاثرات تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند رہتے تھے، اس رات بھی وہ مختلف گھروں کے قریب جا کر لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے تاکہ انہیں حقیقی حالات کا علم ہو سکے،اسی دوران، ایک گھر سے ایک عورت کی آواز سنائی دی جو اپنی بچیوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ صبر کریں، صبح کچھ کھانے کو ملے گا،یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ کا دل بھر آیا اور وہ اس گھر کی طرف بڑھے، حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر جا کر معلوم کیا کہ یہ عورت کیوں پریشان ہے،عورت نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور بچے بھوک سے بے حال ہیں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فورا ًواپس پلٹے اور بیت المال سے اناج اور دیگر ضروریات کا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھا کر اس عورت کے گھر پہنچا دیا، حضرت عمرؓ کے خادم نے کہا حضرت آپ یہ بوجھ نہ اٹھائیں یہ اناج کی بوری مجھے دے دیں اسے میں اٹھا لیتا ہوں حضرت عمرؓ نے جواب دیا کیا قیامت کے دن میرا بوجھ بھی تم اٹھائو گے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی ریاست کی حدود میں زبردست اضافہ ہوا۔
ان کے دور میں عراق، شام، مصر اور ایران کے بڑے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے،انہوں نے اپنی بہترین حکمرانی کی بدولت لوگوں کو انصاف اور امن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ ریاست کے انتظام و انصرام کے لئے متعدد اصلاحات کیں، جن میں بیت المال کی تشکیل، پولیس کا قیام اور عدالتوں کی بنیاد شامل ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ایک مثالی دور تھا، ہمیں بھی اگر خوشحالی اور ترقی چاہیے تو دور فاروقی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظیم حکمرانی اور اصلاحات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،انہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی راہ میں اور اپنی رعایا کی خدمت میں گزارا اور اپنے عمل سے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایک حقیقی حکمران کیسا ہونا چاہیے،مغربی دنیا میں بھی ان کی قیادت اور انصاف پسندی کو سراہا جاتا ہے ، اس کی ایک مثال ہارورڈ یونیورسٹی ہے، جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بطور موضوع پڑھایا جاتا ہے،ان کے عدل و انصاف، اصلاحات اور حکمرانی کے اصول آج بھی دنیا بھر کے طالب علموں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جاتا ہے کے لئے اور ان
پڑھیں:
ملکی و عالمی سطح پر امن و انصاف کے قیام کیلئے ملکر جدوجہد کی جائے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے ایک مختصر خطاب میں چند اہم نکات کیطرف شرکاء تقریب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ تہوار لوگوں کو جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کی جانب سے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ایک پُروقار عید ملن تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں 15 سے زائد ممالک کے سفارت خانوں کے نمائندوں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے ممبران پارلیمنٹ، مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے رہنماؤں، مذہبی شخصیات اور سول سوسائٹیز، سیاسی و سماجی اور تعلیمی تنظیموں و اداروں کے ذمہ داران نے شرکت کی۔ پروگرام میں میڈیا کے منتخب افراد و دیگر میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے اشخاص بھی موجود رہے۔ مجموعی طور پر اس پروگرام میں تقریباً ساڑھے تین سو افراد نے شرکت کی۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد سماج کی اہم اور بااثر شخصیات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر عید کی خوشیوں میں شریک کرنا اور اس کے ذریعے بہتر سماج کی تعمیر کے لئے امن و انصاف کے پیغام کو عام کرنا تھا۔
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ایک مختصر خطاب میں چند اہم نکات کی طرف شرکاء تقریب کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ تہوار لوگوں کو جوڑنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت بعض لوگ ان تہواروں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں، ایسی صورتحال بنادی گئی ہے کہ تیوہاروں سے لوگوں کو ڈر لگنے لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہواروں کو بانٹنے والی دیواریں بنانے کی کوشش ہورہی ہے حالانکہ ان کا اصل کردار جوڑنے والے پُلوں کا ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ملنے ملانے کے علاوہ انہیں مل جل کر جدوجہد کرنے اور سماج کے ہر طبقے کو عدل حاصل کرنے میں مدد کا ذریعہ بننا چاہیئے۔ اس پروقار تقریب کے موقع پر مختلف ممالک، مکاتب و مذاہب اور الگ الگ نظریات و اداروں سے منسلک لوگوں کا ایک ساتھ جمع ہونا، سماج کو ایک بڑا پیغام دیتا ہے، اس طرح مل جل کر بیٹھنے سے عید کا جو اتحاد باہمی اور سماجی اشتراکیت کا پیغام ہے، اسے آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے وقف ترمیمی بل کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک غیر منصفانہ قانون ہے جس کے خلاف پورے ملک کو متحد ہوکر آگے آنا چاہیئے چونکہ یہ بل مذہبی تفریق اور امتیاز پر مبنی ہے لہٰذا ہم سب کو مل کر اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیئے۔ اس موقع پر متعدد ممالک کے سفارت خانوں کے نمائندوں، ملک و ملت کی اہم اور بااثر شخصیات نیز عام شہریوں سے جماعت اسلامی ہند کے امیر نے مسئلہ فلسطین پر مثبت اور تعمیری پیش رفت کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جس بربریت اور وحشیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کے خلاف عالمی برادری اور دنیا کے ہر ملک و فرد کو سامنے آنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ امن و انصاف کے قیام کے لئے مل کر جدوجہد کرنا، ہم تمام کی ذمہ داری ہے۔