وزیراعلیٰ بلوچستان خوفزدہ ہیں کہ ہم انکی کرسی نہ چھین لیں، اختر مینگل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
مستونگ میں دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ یہ فیصلہ ہم کرینگے کہ کوئٹہ میں کس جگہ بیٹھنا اور احتجاج کرنا ہے، آپ نہیں کرینگے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل نے ترجمان حکومت بلوچستان، ڈی آئی جی کوئٹہ اور ڈی سی کوئٹہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ کوئٹہ میں کس جگہ بیٹھنا اور احتجاج کرنا ہے، آپ نہیں کریں گے۔ یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم کوئٹہ میں بیٹھیں یا ہاکی گراؤنڈ میں، یہ فیصلہ آپ کا نہیں، ہمارا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مستونگ میں جاری دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے شرکاء سے کہا کہ آپ ساتھیوں کی تکالیف و مشکلات ہمارے سرخرو ہونے کا سبب بنیں گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کو خوف ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء مجھ سے وزیراعلیٰ کی کرسی چھیننا چاہتے ہیں۔ ہم وزیراعلیٰ اور اس کے ساتھیوں کے ضمیر کو جگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج شام کو دھرنے کے مقام سے ایک اہم اعلان کریں گے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
باپ کو پوت پتا پت گھوڑا
نادر شاہ درانی نے بدترین قتل عام کے بعد، جب دلی فتح کرلی تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نےشاہی محل میں فاتح بادشاہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ جنگ کے تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طائوس بھی اپنے ساتھ ایران لےگیاجو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہاں نے بڑے چائو سے بنوایا تھا۔ اس سب کے علاوہ فاتح بادشاہ نے محمد شاہ رنگیلا کی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے سے کرنے کا مطالبہ کردیا، جس سے انکار کی مجال نہ تھی ،لیکن محمد شاہ رنگیلے نے بوقت نکاح چرواہے کے بیٹے نادر شاہ کو نیچا دکھانے کے لئے دلھن کے باپ کے طور پر اپنا نام لکھواتے ہوئے اپنا شجرہ نسب بیان کیا اور خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیزخان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا ،پھروہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور تلوار سونت کر بولا ’’ لکھو! شمشیرابن شمشیر ابن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جائو۔ المیہ مگر یہ ہےکہ ریاست پاکستان کےمقدر میں غدار ابن غدار آئے ہیں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے ، کچھ تو ایسے شاہکار ہیں کہ پرکھوں کی غداری کا سرٹیفکیٹ وصول کرنے ڈھاکہ جانے پر بھی شرمندہ نہ ہوئے۔ کچھ ایسے ہیں کہ ابھی تک اسی خاندانی کردار کو جاری رکھے ہوئے ہیں، پیشہ آباء ہی ان کا شیوہ ہے ۔کوئی جب حب الوطنی کی بات کرے تو یہ مشکوک النسب انگاروں پر لوٹ جاتے ہیں ، ایک دھکوسلہ صبح شام کا راگ بنالیا گیا ہے کہ ’’ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹےجارہے ہیں‘‘ حالانکہ اسی سرٹیفکیٹ کے لئے انہوں نے ہزاروں میل کا سفر کیا تھا ۔ چلیں ہم کسی کو غدار نہیں کہتے لیکن ایک کہانی تو بیان کر ہی سکتے ہیں ، غداری یا حب الوطنی کا فیصلہ قارئین خو دکر لیں گے ، اب کہانی سنانے پر تو پابندی نہیں ۔
داستان ہےبلوچستان کی ، پاکستان سے پہلے کا بلوچستان جو آج کے بلوچستان سے مختلف تھا، یہ اکائی جس کی بنیاد پر بعض بھاڑے کے ٹٹووں نے غل مچا رکھا ہے ، پاکستان ہی کی عطا ہے ، کوئی زیادسہ پرانی بات نہیں ، 1969میں ، قلات ، خاران ، گوادر وغیرہ کو ملا کر ایک صوبہ یعنی اکائی بلوچستان کے نام سے قائم کردی گئی ،ورنہ ایک متحد بلوچستان تو کبھی تھاہی نہیں ۔اگست 1947 میںقیام پاکستان کے وقت موجودہ بلوچستان 5 آزاد ریاستوں میں تقسیم تھا، قلات سب سے بڑی ریاست تھی،جس کے پاس موجودہ بلوچستان کا 20 فیصد رقبہ تھا جب کہ باقی 80 فیصد علاقہ خاران،لسبیلہ، مکران اور برٹش بلوچستان میں تقسیم تھا، یہ برٹش بلوچستان ایجنسی جو کوئٹہ اور ارد گرد کے علاقوں پر مشتمل تھی ، اسی کا نام بلوچستان تھا اور یہ نام بھی اس مختصر علاقے کو انگریز نے دیا تھا ، 1877 میں ۔ گوادر ریاست عمان کا حصہ تھا ، جسے ریاست پاکستان نے 50کی دہائی میں خرید کر بلوچستان کا حصہ بنایا ۔ بلوچستان کیا ہے ، اس کی تاریخ اور پاکستان سے الحاق ایک لمبی داستان ہے ، پھر سہی ۔
سر دست بات کریں گےانگریز کے وفادار مینگل سردار کی ، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مینگل بحیثیت قبیلہ انتہائی غیرت مند اور قابل فخت روایات رکھنے والا محب وطن قبیلہ ہے ۔ زیر بحث صرف ایک کردار ہے ، انگریز کا وفادار اپنے قبیلے اور زمین کا غدار یعنی میر رحیم خان مینگل ، جس نے یہ وفادارری یوں نبھائی کہ مینگل قبیلے کی شان ، حریت کے پاسبان اور مجاہدین آزادی نورا مینگل ، شہباز مینگل اور نوردین خان مینگل کو گرفتار کروادیا ، انگریز خوش ہوا، رحیم مینگل کو نہ صرف سردار بنادیا گیابلکہ خان بہادر کے خطاب سے بھی عطا ہوا،مگر یہ چند روزہ بہار تھی ، غیورمینگلوں نے غدار ، معذرت غدار نہیں، انگریز کے’’ یار‘‘ (یاگماشتہ کہہ لیں )رحیم مینگل کو قتل کردیا،جس پر گورا سرکار یوں آپے سے باہر ہوئی کہ لیفٹیننٹ کرنل رامسے کی قیادت میں بھاری دستہ وڈھ جیسے چھوٹے سے قصبے کو فتح کرنے کے لئے بھیجا گیا، جس نے قتل وغارت کی انتہا کردی ۔ رحیم مینگل کے مخالفین اور ان کے خاندانوں کو قتل کیا ، مارااور ان کی جائیدادیں چھین کر اپنے ایجنٹ کی اولاد کے سپرد کردیں ، یوں سرداری کی پگڑی ایک بار پھر انگریز کے ہاتھوں سے رحیم مینگل کے وارث رسول بخش مینگل کے سر سجادی گئی ۔ ہندی زبان کی کہاوت ہے کہ ’’ باپ کو پُوت پِتا پَت گھوڑا بہت نَہِیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘ رسول بخش مینگل نے بھی پرکھوں کی روایات کو زندہ رکھا اور جب دیکھا کہ نواب آف قلات قائد اعظم ؒسےراہ و رسم بڑھا رہے ہیں تو کانگریس اور انگریز سے مل کر ریاست قلات کےخلاف بغاوت اور شر انگیزی کی منصوبہ شروع کردی ، پکڑےجانے پرنواب نےاسےجلاوطنی کی سزا دی اور یہ ریاست لسبیلہ کے علاقے بیلا میں ’’ روپوش ‘‘ ہو گیا۔ اسی رسول بخش کے بیٹے عطا اللہ مینگل نے بھی اپنی سرشت نہ بدلی اور آباء کی رسم کو جاری رکھا اور 70 کی دہائی میں، بھارت سے مال وصول کرکے غداری کا مرتکب ہوا ، دشمن سے وصولی کا خون کا یہ قرض اب اختر مینگل کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
یہ خون کی تاثیر اورنسلوں کی بگڑی ہوئی جبلت ہے، اسے سدھارا نہیں جا سکتا ، ان سنپولیوں کو جتنا مرضی دودھ پلا لیں ، یہ کبھی وفادار نہیں ہو سکتے ، اپنا مفاد ہوگا تو سگی بیٹی کی شادی ارب پتی پنجابی سے کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کریں گے ، اور جب آقائوں کےمفادات کی بات آئے تو غریب کے بچے مروانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ کہانی یہاں ختم ہونے والی نہیں ،سلطان باہو ؒ نے بہت پہلے بہت پتے کی بات کہہ دی تھی :
نال کسنگی سنگ نہ کریے
کُل نُوں لاج نہ لائیے ہُو
تُمّے مُول تربوز نہ ہوون
توڑ مکّے لے جائیے ہُو
کاں دے بچے ہنس نہ تھیندے
پئے موتی چوگ چُگائیے ہُو
کُوڑے کُھوہ نہ مِٹھّے ہُندے
سَے مناں کھنڈ پائیے ہُو
سپاں دے پت متر نہ بندے
بھانویں چلیاں ددھ پیائیے ہو