برطانوی اور آسٹریلوی ہائی کمشنرز کی پاکستانیوں کو عید مبارک
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی+ این این آئی) پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ اور آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے تمام پاکستانیوں کو عید کی مبارک باد دی ہے۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے تہنیتی پیغام میں اپنی اور برطانوی ہائی کمشن کی جانب سے تمام مسلمانوں کی عید کی مبارک باد دی۔ برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ عید کا دن اپنی فیملی، پیاروں کے ساتھ خوشی منانے کا دن ہے جیسا کہ ہم اس وقت ایک بہت ہی چیلنجنگ دور سے گزر رہے ہیں۔ سب کو عیدمبارک! اسی طرح پاکستان میں تعینات آسٹریلوی ہائی کمشنر نیل ہاکنز نے اپنے عیدالفطر کے مبارک باد کے پیغام میں کہا کہ گلاب جامن کے بغیر عید ناممکن! پاکستان میں اور آسٹریلیا میں عید منانے والے تمام لوگوں کو میٹھی عید مبارک ہو۔ جبکہ پاکستان میں جاپان کے سفیر اکاماٹسو شوچی نے عید الفطر کے پرمسرت موقع پر تمام مسلمانوں بالخصوص پاکستانی قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے خیر سگالی کے اپنے پیغام میں مسلمانوں کے لیے امن، خوشحالی اور خوشی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مبارک موقع پر جاپان کے سفارت خانے میں میرے ساتھی اور میں پاکستان اور اس کے عوام کی مسلسل ترقی اور خوشحالی کے لیے دعاگو ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: برطانوی ہائی پاکستان میں ہائی کمشنر پیغام میں
پڑھیں:
امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
امریکا نے اپنی متعدد جامعات میں زیرتعلیم غیر ملکی طلبا کے ویزے اچانک منسوخ کردیے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا کے متعدد طلبا کے ویزے منسوخ کردیے ہیں۔ ہارورڈ، مشی گن، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا بھی متاثرین میں شامل ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ویزا منسوخی ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جبکہ طلبہ کو حراست میں لینے اور ملک بدری کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ویزے مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کیے جا سکتے ہیں، لیکن جامعات اور کالجز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت چپکے سے طلبا کی قانونی رہائش کی حیثیت ختم کر رہی ہے جبکہ طلبا کو نہ ہی تعلیمی اداروں کو اس بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان طلبا کو ہدف بنایا ہوا ہے جو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج یا تقاریر میں ’ملوث‘ پائے گئے ہیں۔ ان میں کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کی قیادت کرنے والے محمود خلیل جیسے گرین کارڈ ہولڈرز بھی شامل ہیں۔
اس تناظر میں کیا امریکا میں مقیم پاکستانی طلبا بھی پریشانیوں سے دوچار ہو رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو ان کی پریشانیوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی پاکستان میں برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
یہ بھی پڑھیںبرین ڈرین کی وجوہات کیا ہیں؟
امریکا میں مقیم ایک پاکستانی( جن کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے ہے) اور جو وہاں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ امریکا میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے طلبا کو بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’چونکہ زیادہ تر طلبا وفاقی گرانٹ پر پڑھ رہے ہیں، اس وقت عارضی طور پر گرانٹس کو فریز کیا جا چکا ہے، اس سے ممکنہ طور پر انہیں تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی طلبا کے وظائف میں تعطل ہے، جس کی وجہ سے طلبا کو پریشانی کا سامنا ہے۔ حتی کہ انٹرنیشنل ایڈوائزرز جو طلبا کے مسائل کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان بڑی آرگنائزیشن کے بھی بہت سے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ یا پھر عارضی طور پر ان کے کانٹریکٹس کو روک دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بہت سی ایجوکیشنل ایجنسیاں غیر فعال ہو چکی ہیں، اب وہ طلبا کی مدد نہیں کر پائیں گی۔ اس تناظر میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ کیونکہ طلبا کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ انہیں آنے والے مہینوں میں وظیفہ ملے گا بھی یا نہیں۔
ان کہا کہنا تھا کہ اسکالرشپس کا کیا اسٹیٹس رہے گا؟ برقرار رہے گا بھی یا نہیں؟ اس سب کے دوران یونیورسٹیاں انہیں کوئی سہولت فراہم کریں گی یا نہیں، یہ تمام سوالات ہر طالب علم کے ذہن میں اس وقت شدید انزائٹی پیدا کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کی طرح امریکا میں بھی پاکستانی طلبا کے لیے رہائش کا کرایہ بہت زیاد ہوتا ہے، دیگر ضروری اخراجات بھی کافی ہیں۔ اس لیے بغیر وظیفے کے یہاں پر رہنا سب کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کر رہی اور جو ڈونر ایجنسی ہے وہ بھی آپ کو اپنا نہیں رہی تو اس صورتحال میں طلبا وہاں اس اسٹیٹس کے ساتھ کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں۔
’یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہر سال رینیوول ہوتا ہے اور ہر سال ڈاکومنٹیشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ساری صورتحال نے طلبا کو شدید پریشان کن صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے، وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں جس طرح طلباء کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں، اس نے امریکا میں موجود غیر ملکی طلباء کی پریشانی کو دگنا کر دیا ہے۔ وظائف، اخراجات اور دیگر پریشانیوں کے ساتھ اب یہ بھی پریشانی سر پر منڈلا رہی ہے کہ کوئی بھی موقع تلاش کر کے انہیں کسی بھی وقت ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس پریشان کن صورت حال سے دوچار طلبا میں ایک بڑی تعداد ان طلبا کی بھی ہے جو اپنی تمام کشتیاں جلا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ اب ان افراد کا وطن واپس جانا آسان نہیں ہے۔
’ میں خود بھی اپنا گھر اور دیگر اثاثہ جات بیچ کر امریکا آیا تھا۔ کیونکہ میرا تو اسکالرشپ تھا۔ بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا تاکہ ان کا مستقبل بھی سنور جائے۔ ان حالات میں مجھے واپس وطن جانا پڑا تو مالی طور پر بہت ہی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ پریشانی کھائے جا رہی ہوگی۔ کیونکہ پاکستان میں دوگنی محنت بھی کرلیں تو یہاں کے برابر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ اس لیے امریکا سے اگر واپس وطن جانا بھی پڑا تو کسی اور ملک کا انتخاب کر لوں گا۔ کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ جو پاکستان میں کم از کم سیکیورٹی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے فی الحال محفوظ نہیں ہے۔‘
بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے مختلف ممالک میں جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ حافظ محمد حماد علی کا بھی کہنا ہے کہ امریکا میں پاکستانیوں کے داخلے پر عائد کی جانے والی قدغنوں کی وجہ سے غیر یقینی کی صورتحال بڑھ رہی ہے۔
ان کے مطابق امریکی یونیورسٹیاں پاکستان کے ہائی اچیورز کو اسکالرشپ دیتی ہے۔ یوں پاکستانی بچے امریکا پڑھنے جاتے ہیں۔ اب کئی بچے اسکالرشپ ملنے کے باوجود بھی امریکا جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
حافظ محمد حماد علی نے بتایا کہ وقتی طور پر اس صورتحال میں پاکستانی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا لیکن اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہمارے بچے جاپان اور چین سمیت نئی جگہوں پر اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کر سکیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورت حال میں پاکستان سے ہونے والا برین ڈرین رک جائے گا، حافظ محمد حماد علی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ ذہین بچے پاکستان میں رک کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں کیونکہ یہاں کا نظام پڑھے لکھے محنتی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں کیا پاکستان سے سارا ٹیلنٹ بیرون ملک چلا گیا؟
ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ برین ڈرین صرف امریکا کی جانب سے طلبا کے ویزے منسوخ کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستانی محنتی طلبا امریکا کے علاوہ بھی بہت سی اسکالرشپس پر یورپ کی اچھی یونیورسٹیوں میں بہ آسانی داخلہ لے سکتے ہیں۔ اب یقیناً امریکا جانے کے خواہشمند طلبا باقی یورپی ممالک کی اچھی یونیورسٹیوں کو اپروچ کریں گے۔ پاکستانی طلباء کا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ تھمنا ذرا مشکل ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ان کے لیے نہ اچھی تنخواہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پریکٹیکل اسکلز کا کوئی کانسپٹ ہے۔‘
’ یہ سچ ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک نے طلباء کے لیے امیگریشن پالیسیوں میں کافی حد تک سختی برتی ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس کی بڑی مثال ہیں لیکن اس سے بھی پاکستانی طلباء کے ملک چھوڑنے میں تو کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ طلباء نے کینیڈا اور آسٹریلیا کے بجائے اٹلی، چین، اسٹونیا، نیدرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ‘
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق تقریباً ہر دوسرے پاکستانی کی خواہش ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کسی بھی دوسرے ملک چلا جائے۔ اس سلسلہ کو اس وقت تک نہیں روکا جا سکتا جب تک ہمارے ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے پاکستانی طلبا کو مکمل طور پر مایوس کر دیا ہے۔
برین ڈرین کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ صنعتوں میں زیادہ سے زیادہ نوکریاں نکالی جائیں۔ طلباء کی ذہانت کو سراہا جائے اور انہیں ان کی اسکلز کے مطابق تنخواہیں دی جائیں۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کے عین مطابق نہ سہی مگر اس کے قریب قریب تنخواہیں لازمی دی جائیں تاکہ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برین ڈرین پاکستان