شیخوپورہ میں کار کی موٹرسائیکلوں کو ٹکر سے 3 نوجوان جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثہ سرگودھا روڈ سچا سودا نزد ڈیرہ بازیگراں کے قریب پیش آیا، جہاں تیز رفتار کار نے مخالف سمت میں آنے والی موٹر سائیکلوں کو روندھ دیا جس سے 3 موٹرسائیکل سوار موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ایک معمولی زخمی ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں کار کی موٹرسائیکلوں کو ٹکر سے 3 نوجوان جاں بحق ہو گئے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق حادثہ سرگودھا روڈ سچا سودا نزد ڈیرہ بازیگراں کے قریب پیش آیا، جہاں تیز رفتار کار نے مخالف سمت میں آنے والی موٹر سائیکلوں کو روندھ دیا جس سے 3 موٹرسائیکل سوار موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ایک معمولی زخمی ہوا۔ ریسکیو کی امدادی ٹیموں نے جاں بحق افراد کی لاشوں کو پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ زخمی کو مقامی ہسپتال منتقل کردیا جہاں اس کو طبی امداد دی جارہی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
عید؛ خوشیوں کا تہوار یا روایات کا بوجھ ؟
عیدالفطر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ خوشیوں، محبت اور بھائی چارے کا حسین موقع ہے، جہاں مسلمان رمضان کے بابرکت مہینے کے بعد رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف انداز میں منائی جاتی ہے، اور ہر قوم نے اپنی ثقافت، روایات اور رسم و رواج کے مطابق اس دن کو خاص بنانے کے لیے الگ الگ طریقے اپنائے ہیں۔
پہلے عید صرف ایک دن کا تہوار نہیں، بلکہ کئی دنوں پر محیط جشن ہوا کرتی تھی۔ محلے کی گلیاں بچوں کی چہچہاہٹ سے آباد رہتیں، دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے، اور بزرگ اپنی دعاؤں سے ان محفلوں کو بابرکت بناتے۔ نئے کپڑے، چوڑیاں، مہندی اور روایتی پکوان عید کی خاص پہچان تھے۔
مگر وقت کے ساتھ عید کا رنگ بدل گیا ہے۔ اب عید کی خوشیاں اسکرینز میں قید ہو گئی ہیں۔ گلے ملنے کی جگہ ایموجیز نے لے لی ہے، عید کارڈز کی جگہ واٹس ایپ کے رسمی پیغامات آ گئے ہیں، اور روایتی پکوانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ اور آن لائن ڈیلیوری نے لے لی ہے۔
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا نے عید کے جوش و خروش کو مزید محدود کر دیا ہے۔ جہاں پہلے گھروں میں مہمانوں کی آمدورفت لگی رہتی تھی، وہیں اب زیادہ تر وقت موبائل اسکرینز کے ساتھ گزرتا ہے۔ بچوں کے کھیل کود کی جگہ موبائل گیمز نے لے لی ہے اور عیدی لینے کے بجائے اب زیادہ تر بچے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔
دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں عیدی دینے کے انداز بھی مختلف ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سعودی عرب اور مصر میں نقد عیدی دینے کا رواج عام ہے۔ چھوٹے بچے بزرگوں سے عیدی لیتے ہیں، جو اکثر رسمی طور پر ایک دوسرے کو واپس چلی جاتی ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور ایران میں عیدی کے بجائے تحائف دینے کی روایت زیادہ عام ہے۔
والدین اور بزرگ بچوں کو نئے کپڑے، جوتے یا کھلونے دیتے ہیں، جو محبت اور اپنائیت کی علامت ہوتے ہیں۔ انڈونیشیا میں عید کے موقع پر لوگ اپنے والدین اور بزرگوں سے معافی مانگتے ہیں۔ یہ روایت نہایت خوبصورت اور روحانی ہے، جس میں لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور رشتوں میں مضبوطی لاتے ہیں۔
یہ سب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں عید آج بھی رشتوں کو جوڑنے اور خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے ہاں، جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے، عید کی رونقیں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے انڈونیشیا کی روایت بہت پسند آئی، جہاں عید کے دن والدین اور بزرگوں سے معافی مانگی جاتی ہے۔
کاش ہمارے معاشرے میں بھی یہ روایت آ جائے! ہمارے ہاں لوگ شب برات پر اللہ سے معافی مانگ لیتے ہیں، مگر رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں سے معافی مانگنے کے لیے بس فیس بک یا واٹس ایپ کا سہارا لیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم کم از کم اپنے گھر میں، اپنے والدین، بہن بھائیوں، یا قریبی رشتہ داروں سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کی روایت شروع کریں؟ اگر ہم باہر کے لوگوں سے معافی مانگنے میں جھجکتے ہیں، تو کم از کم اپنے گھر میں تو اس کی شروعات کر سکتے ہیں۔
عید کو محض روایتی پیسوں کے لین دین تک محدود رکھنے کے بجائے، اگر ہم اس میں محبت، تحائف، اور معافی جیسے حقیقی جذبات شامل کر لیں تو یہ دن مزید بامقصد بن سکتا ہے۔ اگر ہم خود بھی کچھ دیر کے لیے موبائل سے دور ہو جائیں، تو شاید ہمارے بچے بھی عید کی روایتی خوشیوں میں دلچسپی لینے لگیں۔
ہر نسل کو لگتا ہے کہ ان کے وقت کی خوشیاں زیادہ حقیقی تھیں۔ ہمارے والدین ہمیں سناتے تھے کہ "ہماری عیدیں زیادہ پُرمسرت ہوتی تھیں، تم لوگ بس گانے سنتے اور ٹی وی دیکھتے ہو۔" آج ہم اپنے بچوں سے یہی شکوہ کرتے ہیں کہ "وہ موبائل اور گیمز میں مگن رہتے ہیں، روایتی عید کی خوشیاں محسوس ہی نہیں کرتے!" لیکن کیا خوشی کا مطلب وقت کے ساتھ بدل نہیں جاتا؟ کیا ہر نسل اپنے دور کی سہولتوں اور رجحانات میں خوشی تلاش نہیں کرتی؟ اصل مسئلہ روایات کو چھوڑنے یا اپنانے کا نہیں، بلکہ "اپنائیت" کا ہے۔
اگر بچوں کی خوشیاں اب ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہیں، تو کیا ہم اس میں کوئی ایسا توازن لا سکتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی اور روایتی تعلقات دونوں ساتھ چل سکیں؟ ہمیں انہیں زبردستی اپنی پرانی عیدوں میں گھسیٹنے کے بجائے، ان کے انداز کو سمجھنا ہوگا اور انہیں ایسا ماحول دینا ہوگا جہاں روایت اور جدیدیت دونوں میں خوشی تلاش کی جا سکے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم انہیں یہ احساس دلائیں کہ عید صرف ایک دن کی تقریبات کا نام نہیں، بلکہ اپنوں کے ساتھ وقت گزارنے اور خوشیاں بانٹنے کا موقع ہے۔
اگر ہم خود بھی موبائل سے کچھ دیر کے لیے دور ہو جائیں، تو شاید وہ بھی روایتی انداز کی خوشیوں کو اپنانے میں دلچسپی لینے لگیں۔ اس طرح ہم ایک ایسا توازن پیدا کر سکتے ہیں جہاں نہ تو پرانی روایات ختم ہوں اور نہ ہی جدید دور کی سہولتوں کو ترک کرنا پڑے۔
عید کا اصل مطلب صرف نئے کپڑے پہننا یا دعوتیں کرنا نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنا، رشتوں کو مضبوط کرنا، اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں حقیقی معنوں میں شریک ہونا ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کے درمیان ایک ایسا پل بنا سکیں جہاں جدید سہولتوں کے ساتھ ساتھ روایتی تعلقات بھی زندہ رہیں، تو شاید ہم عید کی اصل روح کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔