Islam Times:
2025-04-02@19:15:25 GMT

یمن کا سرخ طوفان امریکہ کو لے ڈوبے گا

اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT

یمن کا سرخ طوفان امریکہ کو لے ڈوبے گا

اسلام ٹائمز: بحیرہ احمر میں امریکہ کی شکست کوئی معمولی شکست نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ طویل مدت تک امریکہ کو متاثر کرتے رہیں گے۔ امریکی کمپنی بے ای اے سسٹمز نے اعلان کیا ہے کہ امریکی بحریہ میں شامل جنگی کشتیوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا پراجیکٹ 2028ء سے پہلے مکمل نہیں ہو پائے گا جبکہ کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات بہت بھاری ہونے کے باعث اسے چند مراحل میں انجام دیا جائے گا۔ بحریہ کو مضبوط بنانے میں بھاری اخراجات اور طویل مدت کی ضرورت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی بحریہ فوری طور پر بحیرہ احمر میں خود کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے امریکہ یمن کے خلاف اپنی فوجی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یوں بحریہ کو مضبوط بنانے کا پراجیکٹ بھی بے معنی ہو جائے گا۔ تحریر: فاطمہ محمدی
 
یمن سے تاریخی اور تباہ کن شکست کے اثرات نے امریکہ کی بحریہ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے جس کے باعث اخراجات سمیت مختلف شعبوں میں امریکہ شدید دباو کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ نے یمن کے فوجی ہتھیاروں اور مہارتوں کی جانب سے خود کو درپیش عظیم چیلنجز پر قابو پانے کی امید پر اپنی بحریہ پر بہت زیادہ اخراجات کیے ہیں۔ لیکن امریکہ کو درپیش چیلنجز اور دباو کا سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کی وسعت مستقبل تک پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ مستقبل میں بھی دشمن کے مقابلے میں ممکنہ شکست سے شدید پریشان ہے۔ بحیرہ احمر میں امریکہ کی بحریہ کے ذریعے لشکرکشی نے بہت ہی کم مدت میں اس کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا تھا جس کے بعد امریکہ نے اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کی فوجی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے امریکی بحریہ سے 70 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
 
اس معاہدے کے تحت امریکہ کے جنگی بحری جہازوں کی توپوں کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ توپیں جنگی جہاز کی آخری دفاعی لائن تصور کی جاتی ہیں جو میزائل ڈیفنس سسٹم ناکام ہو جانے کے بعد آخری ہتھیار کے طور پر بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ بی اے ای سسٹمز نامی کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکی بحریہ کی توپیں ایم کے 45 کی فورتھ جنریشن تک ترقی پا جائیں گی۔ بی اے سسٹمز کے ماہر برنٹ بوچر نے واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ گذشتہ برس بحیرہ احمر میں امریکی جنگی بیڑے کی حوثی مجاہدین کے حملوں کے مقابلے میں شکست کے بعد اختیار کیا گیا ہے۔ بوچر نے کہا: "گذشتہ برس بحیرہ احمر میں جو کچھ ہوا اس سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ امریکی جنگی کشتیوں پر زیادہ طاقتور توپوں کی ضرورت ہے۔" یمن کے حوثی مجاہدین کے مقابلے میں امریکی بحریہ کی کمزوری کا یہ واضح ثبوت ہے۔
 
امریکی بحریہ یمنیوں کو شکست دینے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف امریکہ ہی اس مشکل سے روبرو نہیں ہے بلکہ اب تک دنیا کے جتنے ممالک نے بھی یمنیوں سے مقابلہ کر کے انہیں ختم کرنے کا دعوی کیا ہے وہ اس مشکل کا شکار رہے ہیں۔ جرمنی کے ادارے مرکز برائے سمندری اسٹریٹجی و سلامتی کے ماہر سیبسٹین برونز اس بارے میں کہتے ہیں: "یمنیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ اور مغرب کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور یہ ہمارے لیے بڑی سطح کا خطرہ ہے، خاص طور پر یہ کہ ہماری بحریہ مستقل مشکلات کا شکار ہے اور یہ چیز حقیقی طور پر پریشان کن ہے۔" برونز مزید کہتا ہے: "غزہ میں اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد یمنیوں نے جنگ ختم ہونے تک اسرائیل اور اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا اور وہ اس میدان میں کامیاب بھی رہے۔"
 
پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق جون 2024ء تک 65 سے زیادہ ممالک اور 29 بین الاقوامی کمپنیوں کی کشتیاں بحیرہ احمر میں یمنیوں کے حملوں سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بحیرہ احمر میں یمنیوں کے حملوں نے کینال سویز کو بھی متاثر کیا ہے جو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے۔ جرمن نیوی کے ماہر سیبسٹین برونز اس بارے میں کہتے ہیں: "اگر کوئی یہ خیال کرے کہ یمنیوں سے درپیش خطرہ کم ہو گیا ہے تو وہ سخت غلطی کا شکار ہے اور اسے جان لینا چاہیے کہ یہ خطرہ نہ صرف کم نہیں ہوا بلکہ ماضی کے مقابلے میں ہزار فیصد بڑھ گیا ہے۔" انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ متبادل راستے کشتیوں کی آمدورفت کے لیے بہت زیادہ اخراجات کے حامل ہیں، کہا: "بحیرہ احمر کے حالات کے باعث ایک انشورنس کمپنی نے اسپشل ملٹری انشورنس متعارف کروائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلامتی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔"
 
بحیرہ احمر میں امریکہ کی شکست کوئی معمولی شکست نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ طویل مدت تک امریکہ کو متاثر کرتے رہیں گے۔ امریکی کمپنی بے ای اے سسٹمز نے اعلان کیا ہے کہ امریکی بحریہ میں شامل جنگی کشتیوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا پراجیکٹ 2028ء سے پہلے مکمل نہیں ہو پائے گا جبکہ کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات بہت بھاری ہونے کے باعث اسے چند مراحل میں انجام دیا جائے گا۔ بحریہ کو مضبوط بنانے میں بھاری اخراجات اور طویل مدت کی ضرورت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی بحریہ فوری طور پر بحیرہ احمر میں خود کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے امریکہ یمن کے خلاف اپنی فوجی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یوں بحریہ کو مضبوط بنانے کا پراجیکٹ بھی بے معنی ہو جائے گا۔
 
ملٹری ویب سائٹ The War Zone نے امریکی بحریہ کے چند افسران کے بقول لکھا: "بحیرہ احمر کا معرکہ امریکی جنگی بیڑے کے لیے بہت بڑا امتحان تھا تاکہ اس طرح چین سے جنگ کے لیے تیار ہو سکے اور اس امتحان میں ہماری جنگی کشتیوں کی کمزوریاں اور نقائص عیاں ہو گئے ہیں۔" امریکہ کے ایک جنگی بحری جہاز کا ریٹائرڈ کمانڈر یان ون ٹول اس بارے میں کہتا ہے کہ امریکہ نے انتہائی گراں قیمت زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کو یمنیوں کے سستے ڈرون تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے مزید کہا: "چین سے ممکنہ ٹکراو کی صورت میں امریکہ کو کہیں زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے حملوں کی شدت یمنیوں کے حملوں سے کئی گنا زیادہ ہو گی جس کے باعث امریکی بحریہ کے میزائلوں کے ذخیرے بہت جلدی ختم ہو جائیں گے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بحریہ کو مضبوط بنانے کے مقابلے میں میں امریکہ کا پراجیکٹ یمنیوں کے امریکہ کی امریکہ کو کیا ہے کہ کی بحریہ بنانے کا کے حملوں طویل مدت کو درپیش کا شکار نہیں ہو کے باعث جائے گا کے لیے کے بعد یمن کے گیا ہے

پڑھیں:

امریکہ نے خواہ مخواہ دوسرے ممالک پر محصولات عائد کیے ہیں، چینی وزیر خارجہ

امریکہ نے خواہ مخواہ دوسرے ممالک پر محصولات عائد کیے ہیں، چینی وزیر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 2 April, 2025 سب نیوز

بیجنگ :چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے روس کے سرکاری دورے کے دوران “رشیا ٹوڈے” انٹرنیشنل میڈیا گروپ کو خصوصی انٹرویو دیا ۔بد ھ کے روزچین امریکہ تجارتی جنگ اور چین کی جانب سے امریکی اشیاء پر مزید محصولات کے حوالے سے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وانگ ای نے کہا کہ ہر ملک کو ترقی کے عمل میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر ملک کے اپنے جائز خدشات ہوتے ہیں

لیکن مسائل کے حتمی حل کی چابی دوسروں کے پاس نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔ اپنے اندر وجوہات تلاش کرنے کے بجائے امریکہ نے اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں چرائی ہیں، اور خواہ مخواہ دوسرے ممالک پر محصولات عائد کیے ہیں، اور یہاں تک کہ ان پر بھر پور دباؤ بھی ڈالا ہے.

وانگ ای نے کہا کہ اس طرح کا اقدام نہ صرف موجودہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوگا ، بلکہ عالمی مارکیٹ کو بھی شدید طور پر متاثر کرے گا ، بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام کو کمزور کرے گا ، اور امریکہ کی اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ “امریکہ فرسٹ” امریکی طرز کی غنڈہ گردی نہیں ہونی چاہیے، اور دوسرے ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچانے کی بنیاد پر اپنے مفادات کی بنیاد نہیں رکھی جانی چاہیے۔

وانگ ای نے کہا کہ امریکہ فنٹنائل کے بہانے چین پر دو بار محصولات عائد کر چکا ہے۔ امریکہ میں فنٹنائل کا غلط استعمال ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا خود امریکہ کو کرنا ہے اور اسے حل کرنا ہے۔ چین آج دنیا میں منشیات کے خلاف سب سے سخت اور جامع پالیسی رکھنے والا ملک ہے۔ اگر امریکہ واقعی فنٹنائل کے مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو وہ غیر منصفانہ محصولات کو منسوخ کر کے چین کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کرے اور باہمی فائدہ مند تعاون حاصل کرے ۔ چین نے کبھی بھی بالادستی کو قبول نہیں کیا اور اگر امریکہ اندھا دھند دباؤ ڈالنا یا ہر قسم کی بلیک میلنگ جاری رکھے گا تو چین یقیناً اس کا مضبوط جواب دے گا۔وانگ ای نے کہا کہ باہمی احترام دنیا کے ممالک کے تبادلے کے لئے بنیادی اصول ہے اور چین امریکہ تعلقات کے لئے ایک اہم شرط ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ایران کو دھمکی، تین عرب ممالک کا امریکہ کے ساتھ تعاون سے انکار
  • امریکہ نے خواہ مخواہ دوسرے ممالک پر محصولات عائد کیے ہیں، چینی وزیر خارجہ
  • کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟
  • امریکہ جانے کے خواہشمند افراد کے لیے اچھی خبر
  • پاسداران انقلاب دہشتگرد، ایران کو نیو کلیئر پروگرام کے پھیلاو سے روکیں گے ، امریکہ کی دھمکی
  • ایران کے خلاف ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیاں
  • زیلنسکی معدنیات کے معاہدے سے دستبردارہوئے تو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،ٹرمپ
  • حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ
  • حشد الشعبی امریکی نشانے پر