کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جہاں تک ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کی تیاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دو امکانات ہیں۔ جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ضرورت ہے اور یہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ نیتن یاہو کی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ اسرائیل میں اندرونی خلفشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ خانہ جنگی کے امکانات اب اسرائیلی میڈیا بھی تواتر کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ یہ ملک سیاسی طور پر بری طرح تقسیم ہوگیا ہے۔ تحریر: رعایت اللہ فاروقی
مشرق وسطیٰ میں کچھ دن سے ماحول کچھ اس طرح کا چل رہا ہے جیسے امریکہ ایران سے کسی جنگ کی تیاری کر رہا ہو۔ اس ضمن میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیان بازی بھی زوروں پر ہے اور یمن میں کچھ غیر ضروری فضائی حملے بھی کئے جاچکے۔ ان حملوں کو غیر ضروری ہم اس معنی میں کہہ رہے ہیں کہ جب سے غزہ میں سیز فائر کی صورتحال ہے، حوثیوں نے بھی بحیرہ احمر میں کسی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا۔ سو امریکہ کے پاس یمن والے فضائی حملوں کا کوئی جواز نہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی وجہ نہ تھی تو پھر یہ فضائی حملے کئے کیوں گئے؟ اس ضمن میں یہ نکتہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جنگ امریکی نفسیات کا حصہ بن چکی ہے۔ وہ اس کے بغیر چین سے رہ ہی نہیں پاتے۔ چنانچہ ان کے جنگ گریز صدور بھی کسی ہلکی پھلکی ٹھس ٹھوس کے بغیر نہیں رہ پاتے۔
طاقت ایک نشہ ہے اور یہ نشہ امریکی ایوانوں میں ہمیشہ ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس ضمن میں امریکی صحافیوں تک کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ جب کسی بڑے ملک مثلاً چین سے بھی سیاسی تنازع چل رہا ہو تو یہ امریکی صدر سے یہ سوال نہیں کرتے کہ آپ اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ ان کا سوال کچھ یوں ہوتا ہے: ’’آپ اس معاملے پر چین کو سزا کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔ انہیں لگتا ہے کہ چین امریکہ کی کسی گلی کا غنڈہ ہے جسے سزا دینا امریکی صدر کی ذمہ داری ہے۔ سو دنیا کی کسی بڑی سپر طاقت کے لئے ان کی جانب سے ’’سزا‘‘ لفظ کا استعمال ہی یہ واضح کردیتا ہے کہ اس قوم کے سویلینز کا تکبر بھی کس لیول کا ہے۔ جہاں تک ایران کے خلاف کسی ممکنہ جنگ کی تیاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں دو امکانات ہیں۔
جنگ ڈونلڈ ٹرمپ کی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ضرورت ہے اور یہ اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدت کے ساتھ نیتن یاہو کی ضرورت بن گئی ہے کیونکہ اسرائیل میں اندرونی خلفشار اتنا بڑھ گیا ہے کہ خانہ جنگی کے امکانات اب اسرائیلی میڈیا بھی تواتر کے ساتھ ظاہر کر رہا ہے۔ یہ ملک سیاسی طور پر بری طرح تقسیم ہوگیا ہے۔ ایک جانب ملک کا لبرل طبقہ ہے جو جنگ مخالف ہے اور ہر قیمت پر جنگ بندی بھی چاہتا ہے، قیدیوں کی رہائی بھی اور نیتن یاہو سے خلاصی بھی جبکہ دوسری جانب قدامت پسند بلکہ انتہاء پسند ہیں جو گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ لبرل اسرائیلی وہ ہیں جو یورپ سے آکر فلسطین پر قابض ہوئے تھے، جبکہ قدامت پسندوں میں عرب و افریقی یہودی شامل ہیں۔
چنانچہ یہ یورپین نژاد اسرائیلی آج کل کھلے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ قدامت پسندوں نے انہیں یرغمال بنا لیا ہے اور یہی وہ اسرائیلی ہیں جن میں سے بہت سے اب اسرائیل کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہوکر ہجرت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی بڑی جنگ ہی ایسا واحد آپشن ہے جو اسرائیل کو داخلی طور پر وحدت فراہم کرسکتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم ایسے مواقع پر داخلی اختلافات بھلا کر ایک ہوجایا کرتی ہے۔ نیتن یاہو کی مشکل یہ ہے کہ یہ جنگ وہ اپنے بل بوتے پر نہیں لڑ سکتا۔ سو اس کی خواہش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی یہ خدمت انجام دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ امریکی صدر ہیں جنہوں نے اقتدار سنبھالنے سے چند ہفتے قبل امریکی پروفیسر جیفری سیکس کا وہ ویڈیو کلپ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیا تھا، جس میں پروفیسر سیکس نیتن یاہو کے لئے گالی استعمال کرکے کہتے ہیں ’’پچھلے تیس سالوں کے دوران لڑی جانے والی تمام امریکی جنگوں کے پیچھے نتین یاہو ہے۔‘‘
یہ کلپ اگر آپ نے نہیں دیکھا تو ضرور دیکھئے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کلپ ممکنہ طور ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا میسج دینے کے لئے شیئر کیا تھا۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا یہی ماننا ہے کہ یہ میسج نیتن یاہو کے لئے ہی تھا۔ اب آجایئے دوسرے امکان کی جانب۔ اگر آپ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹریک ریکارڈ دیکھئے تو وہ جنگ گریز صدر ہیں۔ وہ خود کو امن پسند صدر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر اس کے لئے وہ ایک فارمولا بھی پیش کرتے ہیں۔ جسے وہ ’’امن بزور طاقت‘‘ کا عنوان دیتے ہیں اور باور یہ کراتے ہیں جیسے یہ فارمولا کوئی نئی چیز ہو، اور وہی اسے تخلیق کرنے والے آئن سٹائن ہوں۔ جبکہ تاریخی طور پر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے آج تک جتنی بھی جنگیں مسلط کی ہیں وہ سب اسی دعوے کے ساتھ لڑی گئیں کہ یہ تو امن کے لئے لڑی جا رہی ہیں۔ کوئی ایک بھی امریکی صدر ایسا نہیں جس نے اپنی مسلط کردہ جنگ کا مقصد امن کا حصول نہ بتایا ہو۔
سو جب لڑی جنگ جارہی ہو اور مقصد اس کا امن کا حصول بتایا جارہا ہو تو یہ جنگ بزور طاقت والا قدیمی فارمولا ہی ہوگیا، اس میں نئی کیا چیز ہے؟ ممکنہ طور پر اس میں ایک چیز نئی ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مراد طاقت کا استعمال نہیں بلکہ طاقت کا ڈراوا ہو۔ چنانچہ جب ہم اس اینگل سے دیکھتے ہیں تو پہلی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ یہ معاہدہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا۔ ایران یہ بات واضح کرچکا ہے کہ اس کے رہبر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف فتویٰ دے چکے، لہٰذا وہ ان ہتھیاروں کے چکر میں ہی نہیں لیکن پرابلم یہ ہے کہ خود ایران کے ہی کچھ اہم ترین افراد مسلسل یہ بھی کہتے آرہے ہیں کہ ہمارے مسلک میں فتوے سے ’’رجوع‘‘ کا آپشن بھی موجود ہے۔ سو ڈونلڈ ٹرمپ کو معاہدے کے لئے گویا خود ایرانیوں نے ہی مجبور کیا ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو تو کچھ روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے مابین ڈھائی گھنٹے کی جو ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی، اس کے اعلامیے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ صدر پیوٹن امریکہ اور ایران کے مابین معاملات طے کروانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو براہ راست دباؤ میں لینے کی بجائے یہ دانشمندانہ راہ اختیار کر رہے ہیں کہ ایران کے سرپرست اعلی صدر پیوٹن کو ہی بیچ میں ڈال دیا ہے۔ تاکہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پاسکے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وزراء دھمکیوں کی زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ ہمارے نزدیک اس کے ممکنہ طور پر دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔
ایک یہودی لابی کو خوش کرنا اور دوسرا یہ کہ جب صدر پیوٹن تصفیہ کرا دیں تو ڈونلڈ ٹرمپ ہیرو بن کر اپنی قوم سے کہہ سکیں، دیکھا پھر؟ یہ ہوتا ہے امن بزور طاقت۔ یہ معاہدہ ہم نے ڈنڈے کے زور پر ایران سے کروایا ہے حالانکہ فی الحقیقت معاہدہ کرانے میں کسی زور آزمائی کا نہیں بلکہ صدر پیوٹن کا ہاتھ ہوگا۔ پھر نوٹ کرنے والی ایک نہایت اہم چیز یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امن کا نوبیل پرائز حاصل کرنے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ یوکرین اور مشرق وسطی دونوں جگہ جنگ ختم کرانے میں سنجیدہ ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یوکرین میں وہ روس کی لگ بھگ ہر بات مان رہے ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں ان کی اب بھی پوری کوشش یہ ہے کہ وہاں امن تو ہوجائے مگر فلسطینی ریاست نہ بنے۔
ان حالات میں مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ سو مشرق وسطیٰ میں اگر انہوں نے عارضی طور پر بھی امن برقرار رکھ لیا تو ان کا امن کا نوبیل پرائز پکا ہی سمجھئے۔ وہ ایران کے ساتھ کوئی بڑی جنگ چھیڑ کر یہ انعام حاصل نہیں کرسکتے۔ ہم نے آپ کے سامنے امکانات دونوں رکھ دیئے ہیں وہ بھی زمینی حقائق کے مطابق۔ ان پر غور کرکے آپ کوئی بھی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ مگر امید بہرحال امن کی ہی رکھنی چاہیئے اور حمایت بھی اسی کی کرنی چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیتن یاہو کی ضرورت کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر رہے ہیں کہ نہیں بلکہ صدر پیوٹن ہے اور یہ کہ ایران ایران کے یہ ہے کہ کے ساتھ کے لئے امن کا
پڑھیں:
زیلنسکی معدنیات کے معاہدے سے دستبردارہوئے تو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،ٹرمپ
واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے متنبہ کیا کہ اگر زیلنسکی نے دستبرداری اختیار کی تو انہیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین “نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے” لیکن یہ کبھی بھی نیٹو کا رکن نہیں بنے گا اور زیلنسکی اس بات کو سمجھتے ہیں۔یوکرین کی جانب سے فی الحال اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اس سے قبل متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نے یوکرین کو معدنیات کے معاہدے کا نیا مسودہ پیش کیا ہےجس میں پہلے سے سامنے آنے والے منصوبے سے کہیں زیادہ مطالبات رکھے گئے ہیں۔اس تازہ ترین مسودے میں اب بھی یوکرین کے لئے کسی قسم کی سیکیورٹی گارنٹی شامل نہیں کی گئی. 28 مارچ کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ کیف کو باضابطہ طور پر امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ نئے معدنی معاہدے کا مسودہ مل گیا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ یوکرین ماضی میں امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی اربوں ڈالر کی فوجی امداد کو بطور قرض تسلیم نہیں کرے گا۔
ادھر 31 مارچ کو ،روسی “ازویسٹیا” اخبار کے مطابق ، روسی براہ راست سرمایہ کاری فنڈ کے صدر دمتریف نے کہا کہ روس اور امریکہ نے روسی نایاب زمینی دھات کے منصوبوں پر بات چیت شروع کردی ہے۔ دمتریف نے کہا کہ امریکی کمپنیوں نے ممکنہ تعاون کے معاہدوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور توقع ہے کہ روسی اور امریکی نمائندے اپریل کے وسط میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مذاکرات کا نیا دور منعقد کریں گے۔ اطلاع کے مطابق مذاکرات کی بحالی کے بعد روس اور امریکا نہ صرف سیاسی امور پر بات چیت کریں گے بلکہ اس میں معاشی تعاون اور دیگر شعبے بھی شامل ہوں گے۔
Post Views: 4