علی امین گنڈاپور کا وزیراعظم کو پن بجلی منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کیلئے خط
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
مشترکہ مفادات کونسل نے 1991 میں قاضی کمیٹی میتھاڈالوجی (کے سی ایم) کی منظوری دی تھی، جس کے تحت 1992 میں اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخوا) کو چھ ارب روپے کی پہلی ادائیگی ہوئی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے وزیر اعظم شہباز شریف کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے صوبے کے پن بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 161(2) میں پن بجلی کے خالص منافع کا معاملہ واضح کیا گیا ہے۔ آئین کے مطابق پن بجلی گھروں سے حاصل ہونے والے منافع کی رقم متعلقہ صوبوں کو ملنا ہے، جبکہ اس کی شرح کا تعین مشترکہ مفادات کونسل نے کرنا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے 1991 میں قاضی کمیٹی میتھاڈالوجی (کے سی ایم) کی منظوری دی تھی، جس کے تحت 1992 میں اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخوا) کو چھ ارب روپے کی پہلی ادائیگی ہوئی تھی۔ 1997 میں نیشنل فنانس کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کے سی ایم فارمولے کی توثیق کی۔
2016ء میں وفاقی حکومت نے اس معاملے سے متعلق ایک عبوری طریقہ کار متعارف کروایا، جسے مشترکہ مفادات کونسل نے بھی منظور کیا۔ اس کے تحت پن بجلی کے خالص منافع کی شرح 1.
بعد ازاں، صوبوں کو پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگیوں کے معاملے کا "آؤٹ آف دی باکس" حل تجویز کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تمام شراکت داروں سے تجاویز طلب کیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی تجاویز پلاننگ کمیشن کو ارسال کر دی ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ خیبر پختونخوا کو درپیش مالی بحران کے پیش نظر آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلانے کے لیے پلاننگ کمیشن کو احکامات جاری کیے جائیں، تاکہ آئین کے تقاضوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے مطابق اس دیرینہ مسئلے کا منصفانہ حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم خیبر پختونخوا کے عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دلانے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مشترکہ مفادات کونسل نے پن بجلی کے خالص منافع خیبر پختونخوا کے سی ایم منافع کی ارب روپے کے لیے کے تحت
پڑھیں:
کے پی سے سینیٹ کی 11 نشستیں سال گزرنے کے بعد بھی خالی
صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہونے سے ایوان بالا میں بھی 2024ء سے ریٹائرڈ ارکان کی جگہ خیبر پختونخوا سے نئے ارکان ایوان بالا نہ پہنچ سکے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی خالی 11 نشستوں پر ایک سال گزرنے کے بعد بھی الیکشن نہ ہو سکا۔ صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہونے سے ایوان بالا میں بھی 2024ء سے ریٹائرڈ ارکان کی جگہ خیبر پختونخوا سے نئے ارکان ایوان بالا نہ پہنچ سکے۔ سیاسی کھینچا تانی کے باعث سینیٹ میں خیبر پختونخوا کو 2024 سے نمائندگی نہ مل سکی، 2018 کے سینیٹرز 2024 میں ریٹائرڈ ہوئے تو ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب نہ ہو سکا۔
خیبر پختونخوا میں 2 اپریل کو 7 جنرل اور دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر الیکشن ہونا تھا، لیکن صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے سینیٹ الیکشن بھی التواء کا شکار ہوگئے۔ صوبائی اسمبلی میں 7 جنرل نشستوں پر 16، خواتین کی دو نشتوں پر چار اور دو ٹیکنوکریٹ نشستوں پر چار امیدوار تھے۔