پاکستان شوبز کی اداکارہ و ماڈل عزیقہ ڈینیل نے انکشاف کیا ہے کہ شوبز انڈسٹری میں انہیں مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں عزیقہ ایک نجی ٹی وی شو میں بطور مہمان شریک ہوئیں جہاں انہوں نے شوبز میں کچھ انتہائی اہم رسوم و رواج اور عیسائی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے بارے میں بات کی۔

عزیقہ ڈینیل نے بتایا کہ شوبز کو عام طور پر ایک لبرل فیلڈ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت میں درست نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں 50 لوگوں کے عملے کے سامنے بڑے ناموں سے اپنے مذہب کے خلاف امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور کسی نے بھی اس صورتحال کو چیلنج کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھایا۔

View this post on Instagram

A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

اداکارہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی مذہب کی وجہ سے ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز نہیں اٹھائی کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ سائیڈ لائن کر دی جائیں گی۔

عزیقہ ڈینیل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انڈسٹری میں آج کل اداکار دوسرے ساتھی اداکاروں کے کردار کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایسے اداکار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ٹھکرا دیتے ہیں جس کے انسٹاگرام پر فالوورز کم ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں کی توجہ اداکاری کے علاوہ ہر چیز پر ہے۔ عزیقہ نے کہا کہ وہ شکر گزار ہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امتیازی سلوک عزیقہ ڈینیل انہوں نے کے ساتھ

پڑھیں:

مودی حکومت نے تعلیمی نظام کو کمزور کر دیا ہے، سونیا گاندھی

کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر نے لکھا ہے کہ مودی حکومت کا تیسرا زور کمیونلائزیشن پر ہے، جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے طویل مدت سے چلے آ رہے نظریاتی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی صدر اور رکن پارلیمنٹ سونیا گاندھی نے مودی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ملک کے تعلیمی ڈھانچے کو کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت ملک کو نقصاندہ نتائج کی طرف لے جانے والے ایجنڈے پر چل رہی ہے۔ اپنا یہ نظریہ سونیا گاندھی نے انگریزی اخبار "دی ہندو" میں تحریر کردہ ایک مضمون میں ظاہر کیا ہے۔ اس مضمون میں سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ آج ہندوستانی تعلیم کو "3 سی" کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سینٹر لائزیشن، کمرشیلائزیشن اور کمیونلزم۔ سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ حکومت مجموعی تعلیمی مہم کے تحت ملنے والے گرانٹ کو روک کر ریاستی حکومتوں کو ماڈل اسکولوں کے پی ایم شری منصوبہ کو نافذ کرنے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020ء کی تنقید کرتے ہوئے سونیا گاندھی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ہائی پروفائل قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020ء کی شروعات نے ایک ایسی حکومت کی حقیقت کو چھپا دیا ہے جو ہندوستان کے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے تئیں بے حد لاپروا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں مرکزی حکومت کے ٹریک ریکارڈ نے واضح طور سے ظاہر کیا ہے کہ تعلیم میں یہ صرف تین اہم ایجنڈا کے کامیاب نفاذ سے فکرمند ہے۔ مودی حکومت کے ساتھ اقتدار کا سینٹر لائزیشن، پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم میں سرمایہ کاری کا کمرشیلائزیشن اور آؤٹ سورسنگ، نصابی کتابوں، نصاب اور اداروں کا کمیونلائزیشن۔

سونیا گاندھی کے مطابق سنٹرلائزیشن کے سب سے مضر نتائج تعلیم کے شعبہ میں مرتب ہوئے ہیں۔ مرکزی تعلیمی مشاورتی بورڈ کی میٹنگ، جس میں مرکز اور ریاست دونوں حکومتوں کے وزیر تعلیم شامل ہیں، ستمبر 2019ء سے نہیں بلائی گئی ہے۔ انہوں نے حکومت پر ریاستوں سے مشورہ نہ کرنے اور ان کے نظریات پر غور نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ای پی 2020ء کے ذریعہ سے تعلیم میں بڑی تبدیلی کو اختیار کرنے اور نافذ کرنے کے دوران بھی مودی حکومت نے ان پالیسیوں کے عمل درآمد پر ایک بار بھی ریاستی حکمومتوں سے مشورہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مودی حکومت کی ضد کا ثبوت ہے، کہ وہ اپنے علاوہ کسی دیگر کی آواز نہیں سنتی، یہاں تک کہ ایسے موضوع پر بھی جو ہندوستانی آئین کی کنکرنٹ لسٹ میں ہے۔

سونیا گاندھی نے کہا کہ ڈائیلاگ کی کمی کے ساتھ ساتھ "دھمکانے کی روش" بھی بڑھی ہے اور انہوں نے اس کے لئے پی ایم-شری (یا پی ایم اسکولس فار رائزنگ انڈیا) منصوبہ کی مثال دی۔ سونیا گاندھی نے مرکز پر تعلیمی نظام کے کمرشیلائزیشن کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری طرح سے این ای پی کے نفاذ میں کھلے عام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء سے ہم نے ملک بھر میں 89441 سرکاری اسکولوں کو بند اور ضم ہوتے دیکھا ہے، اور 42944 اضافی پرائیویٹ اسکولوں کا قیام عمل میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے غریبوں کو سرکاری تعلیم سے باہر کر دیا گیا ہے اور انہیں بے حد مہنگی اور کم ریگولیٹ پرائیویٹ اسکول نظام کے ہاتھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔


سونیا گاندھی نے مرکز پر تعلیم میں کمیونل ایجنڈے کو شامل کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مودی حکومت کا تیسرا زور کمیونلائزیشن پر ہے، جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے طویل مدت سے چلے آ رہے نظریاتی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس طرح تعلیمی نظام کے ذریعہ نفرت پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی تعلیمی ریسرچ و تربیت کونسل (این سی ای آر ٹی) کی کتابوں میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ ہندوستانی تاریخ کو الگ انداز میں پیش کیا جا سکے۔ مثال پیش کرتے ہوئے سونیا بتاتی ہیں کہ مہاتما گاندھی کے قتل اور مغل دور کے ہندوستان پر موجود حصوں کو نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی آئین کی تمہید کو نصابی کتابوں سے ہٹا دیا گیا تھا، جب تک کہ عوام کی مخالفت کے سبب حکومت کو ایک بار پھر لازمی طور سے شامل کرنے کے لئے مجبور نہیں ہونا پڑا۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر سندھ کی ملیر میں ٹینکر ٹکر سے جاں بحق جوڑے کے لواحقین سے ملاقات اور اظہار تعزیت
  • گورنر سندھ کی ملیر میں ٹینکر ٹکر سے جان بحق جوڑے کے لواحقین سے ملاقات اور اظہار تعزیت
  • ایس آئی ایف سی کا مثبت کردار: برآمدات میں اضافے کے باعث معاشی ترقی کی راہیں ہموار
  • کینسر اور الزائمر کے علاج میں آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) کا استعمال؟
  • عزیقہ ڈینیل کا شوبز انڈسٹری میں مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کا انکشاف
  • مودی حکومت نے تعلیمی نظام کو کمزور کر دیا ہے، سونیا گاندھی
  • زیلنسکی معدنیات کے معاہدے سے دستبردارہوئے تو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،ٹرمپ
  • عید الفطر پر پاکستانی فلم انڈسٹری کی رونقیں دوبارہ بحال، متعدد فلمیں ریلیز
  • بلوچستان ترقی کا دروازہ ہے، بند کرنے والے ملک دشمن ہیں، شیخ رشید