امریکی صدر ٹرمپ کی متنازع پالیسیاں، امریکی سائنسدان ملک چھوڑنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ انتظامیہ کی سائنسی تحقیقاتی بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے سروے میں 3 چوتھائی سائنسدانوں نے امریکا چھوڑ کر یورپ یا کینیڈا میں منتقل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سروے کا جواب دینے والے سائنسدانوں میں سے 75.3 فیصد ملک چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں، جبکہ 24.
مزید پڑھیں: ایران نے معاہدہ نہ کیا تو ایسی بمباری ہوگی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی، ٹرمپ کی کھلی دھمکی
پول میں 690 پوسٹ گریجویٹ محققین بھی شامل تھے جس میں 548 ڈاکٹریٹ کے 340 طلباء امریکا چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان میں سے 255 نے کہا کہ وہ مزید سائنس دوست ممالک کے لیے ملک چھوڑنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سائنس دانوں سمیت دسیوں ہزار وفاقی ملازمین کو برطرف کرنے اور پھر عدالتی حکم کے ذریعے دوبارہ ملازمت پر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جس سے افراتفری پیدا ہو رہی ہے جسکی وجہ سے تحقیقی کام میں خلل پڑ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹرمپ ،سائنسدانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چھوڑنے پر رہے ہیں کر رہے
پڑھیں:
امریکا کی 23 ریاستوں کا ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ
واشنگٹن:تقریباً دو درجن امریکی ریاستوں نے صحت کے شعبے میں فنڈز کی کٹوتی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف رہوڈ آئی لینڈ کی فیڈرل کورٹ میں درخواست دائر کی، ان ریاستوں میں نیویارک، کولوراڈو، پنسلوانیا اور کولمبیا شامل ہیں۔
مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے 11 ارب ڈالرز کی کٹوتی غیرقانونی طور پر کی، جس سے عوامی صحت کو شدید نقصان پہنچے گا اور مستقبل میں وباؤں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
مزید پڑھیں: وائس آف امریکا سے عملے کی جبری برطرفی، جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو روک دیا
عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ کٹوتی کو فوری طور پر روکا جائے، کیونکہ یہ فنڈز کووڈ 19 کی ٹیسٹنگ، ویکسینیشن اور ذہنی صحت کے پروگرامز کے لیے مختص تھے۔
یو ایس ہیلتھ اینڈ ہیومین سروسز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کٹوتی پر کسی بیان سے گریز کیا گیا ہے، تاہم یہ کہا گیا کہ فنڈز اب وبا کے خاتمے کے بعد ضائع نہیں کیے جائیں گے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ملازمتیں خطرے میں ہیں اور بیماریوں کی روک تھام کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔