واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے متنبہ کیا کہ اگر زیلنسکی نے دستبرداری اختیار کی تو انہیں بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین “نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے” لیکن یہ کبھی بھی نیٹو کا رکن نہیں بنے گا اور زیلنسکی اس بات کو سمجھتے ہیں۔یوکرین کی جانب سے فی الحال اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

اس سے قبل متعدد میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ نے یوکرین کو معدنیات کے معاہدے کا نیا مسودہ پیش کیا ہےجس میں پہلے سے سامنے آنے والے منصوبے سے کہیں زیادہ مطالبات رکھے گئے ہیں۔اس تازہ ترین مسودے میں اب بھی یوکرین کے لئے کسی قسم کی سیکیورٹی گارنٹی شامل نہیں کی گئی.

28 مارچ کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ کیف کو باضابطہ طور پر امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ نئے معدنی معاہدے کا مسودہ مل گیا ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ یوکرین ماضی میں امریکہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی اربوں ڈالر کی فوجی امداد کو بطور قرض تسلیم نہیں کرے گا۔

ادھر 31 مارچ کو ،روسی “ازویسٹیا” اخبار کے مطابق ، روسی براہ راست سرمایہ کاری فنڈ کے صدر دمتریف نے کہا کہ روس اور امریکہ نے روسی نایاب زمینی دھات کے منصوبوں پر بات چیت شروع کردی ہے۔ دمتریف نے کہا کہ امریکی کمپنیوں نے ممکنہ تعاون کے معاہدوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور توقع ہے کہ روسی اور امریکی نمائندے اپریل کے وسط میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مذاکرات کا نیا دور منعقد کریں گے۔ اطلاع کے مطابق مذاکرات کی بحالی کے بعد روس اور امریکا نہ صرف سیاسی امور پر بات چیت کریں گے بلکہ اس میں معاشی تعاون اور دیگر شعبے بھی شامل ہوں گے۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

ایران کے خلاف ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیاں

اسلام ٹائمز: پہلی بات تو یہ ہے کہ بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے یہ دھمکیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ دوسرا ہم ٹرمپ کو یہ یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ اس نے 6 کھرب ڈالر کا خرچہ کر کے اور بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی جانیں ضائع کر کے کئی سال تک افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ جاری رکھا لیکن آخرکار انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ان دونوں ممالک سے دم دبا کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا۔ امریکہ اس وقت شدید بحرانی حالات کا شکار ہے اور اس کے قرضے 41 کھرب ڈالر سے بھی اوپر چلے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ روس سے امن مذاکرات کے لیے منت سماجت کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوکرین شکست کھا چکا ہے جبکہ ٹرمپ کے آمرانہ رویے کے باعث امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اس سے دور ہو رہے ہیں۔ لہذا ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیاں ہیں اور ایران ہر گز انہیں اہمیت نہیں دے گا۔ تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کے خلاف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران اس سے جوہری معاہدہ انجام نہیں دیتا تو اسے "بہت برے نتائج" کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دھمکیاں انتہائی درجہ گستاخی اور بے شرمی کا مظہر ہیں اور آج کے تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کے صدر کا اس لہجے میں بات کرنا بہت ہی قابل مذمت اور شرمناک اقدام ہے۔ وہ بھی ایسا ملک جو سپر پاور ہونے اور آزاد دنیا کی قیادت کا دعویدار ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران بھی اور الیکشن میں کامیابی کے بعد وائٹ ہاوس آ جانے کے بعد بھی بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا اور دنیا میں امن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ لیکن گذشتہ کچھ ہفتوں اس کا پینترا بدل گیا ہے۔
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے لے کر ایران تک اور کینیڈا سے لے کر گرین لینڈ تک تمام ممالک کو جنگ اور فوجی اقدامات کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ ہم ٹرمپ سے پوچھنا چاہیں گے کہ وہ "برے نتائج" کیا ہیں جس کی ایرانی قوم اور حکومت کو دھمکی دے رہا ہے؟ گذشتہ چار عشروں سے امریکہ نے اقتصادی پابندیوں، دہشت گردانہ اقدامات اور انارکی اور ہنگامے پیدا کرنے کی کوششوں کے ذریعے ایران کو اپنے ناجائز مطالبات اور خواہشات کے سامنے جھک جانے پر مجبور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جب یہ تمام حربے ناکام ہو گئے تو اب اس نے آخری کارڈ استعمال کرتے ہوئے ایران کو جنگ اور فضائی بمباری کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ خطے میں جدید ترین بمبار طیارے بھیج کر ایران کے خلاف نفسیاتی اور میڈیا جنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
 
ان دھمکیوں کے ذریعے ٹرمپ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ احمق ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ اور جغرافیہ سے بھی لاعلم ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سمجھ رکھا ہے کہ شاید ایران بھی ڈنمارک کے دور دراز چھوٹے سے برفیلے جزیرے گرین لینڈ کی مانند ہے۔ ٹرمپ یہ بھول گیا ہے کہ امریکہ کو ایسی بدترین فوجی اور سیاسی شکست جس کی تکلیف ویت نام شکست سے کم نہیں ہے، افغانستان میں ہوئی ہے جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے ذلت آمیز فوجی انخلاء کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وسیع تعداد میں موجود ہیں جن سے اس شکست کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں کو بے جواب نہیں چھوڑا اور ان کے خلاف دو ٹوک ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایران کی جانب سے ان دھمکیوں کا جواب دو پہلووں پر مشتمل ہے:
 
1)۔ ایک یہ کہ ایران نے امریکہ کے برعکس انتہائی مہذب انداز میں ان دھمکیوں کا جواب دیا ہے اور عمان کے ذریعے ٹرمپ کے غیر مہذب خط کا جواب سفارتی آداب کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دے دیا ہے،
2)۔ ایران کے جواب کا دوسرا پہلو فوجی نوعیت کا ہے۔ حال ہی میں ایران کے سرکاری ٹی وی نے ایک انڈر گراونڈ میزائل سٹی کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں جدید ترین میزائل پوری طرح تیار حالت میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ میزائل سٹی اتنی گہرائی میں بنایا گیا ہے کہ امریکہ کے جدید ترین بمبار طیارے اور بم وہاں اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس میزائل سٹی میں ایسے الٹراسونک میزائل بھی موجود ہیں جو امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟
 
لیکن اس حد تک یقین ضرور ہے کہ اس میں ایسے میزائل وافر تعداد موجود ہے جو 10 منٹ سے کم وقت میں مقبوضہ فلسطین پہنچ سکتے ہیں۔ شاید اس نکتے کی یاددہانی بھی مفید ہو کہ پینٹاگون نے ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں مشرق وسطی میں موجود اپنے 50 فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ان فوجی اڈوں میں امریکہ کے ہزاروں جرنیل اور فوجی موجود ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی پینٹاگون کی اس تشویش کو بڑی سطح پر کوریج دی ہے۔ لہذا اگر امریکی حکومت ایران کے خلاف کوئی احمقانہ اقدام انجام دیتی ہے تو خطے میں موجود یہ تمام فوجی اڈے سینکڑوں بیلسٹک میزائلوں کی زد میں ہوں گے۔ ٹرمپ کے لیے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ غزہ کے بھوکے اور محاصرے کا شکار فلسطینیوں پر جہنم کے دروازے کھولنے یا ایران کو برے نتائج کی دھمکیاں دینا بند کر دے۔
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے یہ دھمکیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ دوسرا ہم ٹرمپ کو یہ یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ اس نے 6 کھرب ڈالر کا خرچہ کر کے اور بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی جانیں ضائع کر کے کئی سال تک افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ جاری رکھا لیکن آخرکار انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ان دونوں ممالک سے دم دبا کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا۔ امریکہ اس وقت شدید بحرانی حالات کا شکار ہے اور اس کے قرضے 41 کھرب ڈالر سے بھی اوپر چلے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ روس سے امن مذاکرات کے لیے منت سماجت کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوکرین شکست کھا چکا ہے جبکہ ٹرمپ کے آمرانہ رویے کے باعث امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اس سے دور ہو رہے ہیں۔ لہذا ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیاں ہیں اور ایران ہر گز انہیں اہمیت نہیں دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کیا امریکہ ایران پر حملہ کرے گا؟
  • ٹرمپ نے زیلنسکی کو ایک بار پھر دھمکی دے دی
  • ایران کے خلاف ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیاں
  • روس کی جانب سے یوکرین کے خصوصی فوجی دستوں پر حملے کا دعویٰ
  • ایران پر بمباری کی گئی تو امریکا کو سخت ضرب کا سامنا کرنا پڑے گا، آیت اللہ علی خامنہ ای
  • حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ
  • ٹرمپ کا پیوٹن پر شدید غصہ، روسی تیل پر 50 فیصد تک اضافی ٹیرف لگانے کی دھمکی
  • ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر پر برہم، روسی تیل پر بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکی دیدی
  • ایران نے جوہری معاہدہ نہیں کیا تو بمباری ہوگی، ٹرمپ کی دھمکی