چین کے شی زانگ کی کئی کہانیاں
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
بیجنگ : شی زانگ کے بارے میں میرا پہلا تاثر خوبصورت برف پوش پہاڑوں اور صاف جھیلوں کا نہیں تھا، بلکہ بچپن میں نصابی کتابوں اور ریڈیو پر سنی ہوئی خوفناک کہانیوں کا تھا: پرانا شی زانگ مذہب اور ریاست کے اتحاد پر مبنی جاگیردارانہ غلامی کا نظام تھا، جہاں 95% آبادی انتہائی غربت اور ظلم میں زندگی گزارتی تھی۔ یہاں بسنے والے افراد کو انفرادی آزادی تک حاصل نہیں تھی، انہیں خریدا اور بیچا جا سکتا تھا، سزا دی جا سکتی تھی، حتیٰ کہ قتل بھی کیا جا سکتا تھا۔ غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کی آنکھیں نکالنے، پاؤں کاٹنے جیسے مظالم کرتے تھے، بلکہ ان کی کھال سے ڈرم بھی بنائے جاتے تھے۔ یہ تصاویر میرے ذہن پر ایسی چپک گئی تھیں کہ سالوں بعد، اگرچہ شی زانگ کو “زمین پر جنت” کے طور پر جانا جاتا ہے، میں اب بھی اس سے ڈرتا ہوں۔ آج بھی تبت میں ” سرفوں کی آزا…
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
آج عید نہیں ہے
عید کا روز ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان گھرانوں میں خوشیوں بھرا دن۔ ایک ایسا دن جس کی مسرتوں کا سارا برس انتظار رہتا ہے۔ لڑکیاں، بالیاں ہیں تو مہندی کے رنگ میں کھیل رہی ہیں۔ گھر گھر میں مسرتوں کی چوڑیاں کھنک رہی ہیں۔ نوجوان نیا لباس زیب تن کیے مسجد کی جانب رواں دواں ہیں۔ بزرگوں کے ہاتھ دعا کے لیے فضا میں بلند ہیں۔ خواتین پکوان بنا رہی ہیں۔ مہمان آ رہے ہیں۔ عید سلامت کا شور پڑ رہا ہے۔ جو عید منا رہے ہیں انہیں لگتا ہے آج ساری دنیا خوشی سے رقص کر رہی ہے۔ سب لوگ ہی محبت سے گلے مل رہے ہیں۔ محبتوں میں چاہتوں کا وفور شامل ہو رہا ہے کیونکہ آج عید ہے۔
تاہم سب لوگ اتنے خوش قسمت نہیں کہ عید کے موقع پر خوشیاں منائیں، قہقہے لگائیں۔ کچھ گھرانے، کچھ مناظر اس سے مختلف بھی ہیں۔ جہاں عید کی کوئی رمق نہیں ہو گی، جہاں شاید خوشیوں کے بجائے سسکیاں ہوں گی۔ مہندی کے بجائے آنسو ہوں گے۔ رقص کے بجائے ماتم ہو گا۔ جہاں لوگوں کی آنکھوں میں خوشیوں کے دیپ نہیں غم کے چراغ جل رہے ہوں گے۔ جہاں لوگ منتظر نظروں سے رہگزر کو مدت سے تک رہے ہوں گے۔ جہاں شور نہیں خامشی ہوگی۔ ساز نہیں سکوت ہو گا اور سکوت بھی گہرا اور مہیب۔
ایک لمحے کو سوچیے کہ آج عید کے دن اے پی ایس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے گھروں میں کیا سماں ہوگا۔ مائیں اپنے بچوں کی تصویروں سے لپٹ لپٹ جاتی ہوں گی۔ بہنیں، بھائیوں کے خون آلود بستوں کو چوم رہی ہوں گی۔ ان بچوں کے باپ اور بوڑھے ہو گئے ہوں گے، غم سے ان کے شانے مزید جھک گئے ہوں گے۔ وہ گھر والے جنہوں نے ان بچوں کے جوان ہونے کے خواب دیکھے تھے وہ ان بچوں کی قبروں پر پھول لے کے جا رہے ہوں گے۔ ان کی قبروں کی مٹی ماؤں کے آنسوؤں سے تر ہو رہی ہو گی۔ تو یقین مانیے ایسے بچوں کے گھر والوں کے لیے آج عید نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں دہشتگردی کے کئی ایسے واقعات ہوئے جہاں لوگ مسجد میں گئے اور کسی خود کش بمبار کے حملے میں شہید ہوگئے۔ مسجد بھی شہید ہوئی اور مسجد کے فرش پر سجدہ کرنے والے بھی شہادت کا مرتبہ پا گئے۔ شہید ہونے والوں میں بزرگوں اور بچوں کی تعداد زیادہ رہی۔ ان کے گھر والے آج بھی ان کے منتظر ہوں گے۔ جو مسجد دعا کرنے گئے ہوں گے اب ان کے لیے دعا ہو رہی ہو گی۔ جن کے روشن مستقبل کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہوں گی آج ان کی مغفرت کے لیے دعائیں ہو رہی ہوں گی۔ اعزا سوچتے ہوں گے کہ ہمارے لوگ نہ کسی سیاسی جلوس مں شریک ہوئے، نہ کسی سے اختلافی بات کی، نہ کسی کو آزار پہنچایا، نہ کسی کو دکھ دیا تو ان کا قصور صرف خانہ خدا میں جا کر سجدہ ریز ہونا ٹھیرا۔ خدا کے حضور جھکنے والوں کو بھی خون سے نہلا دیا گیا۔ وہ معصوم بچے جن کی مائیں ان کے لیے چاؤ سے عید کا لباس تیار کرتی ہوں گی وہ آج انہی بچوں کی قبروں سے لپٹ کر رو رہی ہوں گی۔ مان لیجیے کہ مسجدوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے گھر آج عید نہیں ہے۔
ایک لمحے کو سوچیے اس مزدور کے خاندان کے بارے میں جو بلوچستان حق حلال کمانے گیا۔ جس نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر یہ سفر قبول کیا۔ اس کو کسی ظالم نے بس سے اتار کر، اس کا شناختی کارڈ دیکھ کر، اس کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس کے گھر میں آج ماتم ہو گا۔ اس کے گھر والے اپنے ناکردہ جرم کو سوچ رہے ہوں گے۔
وہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سماج میں رزق حلال کمانا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کے نتیجے میں جسم سے سانس کا رشتہ ہی ختم کر دیا جائے۔ اس مزدور کے بچے تو آج بھی اس کی راہ تک رہے ہوں گے۔ اس کے گھر والے اپنا سب کچھ لٹ جانے پر اس عید کو کیسے بسر کرر ہے ہوں گے۔ یہ خوشیاں، یہ رونقیں، یہ مسکراہٹیں ان کو کھل رہی ہوں گے۔ وہ محروم سی نظروں میں سوال لیے دہلیز کو تک رہے ہوں گے۔ ان کی آنکھیں سوکھ چکی ہوں گی مگر آج عید کے دن دل پھٹ رہا ہوگا۔ تو سن لیجیے، ایسے مزدوروں کے گھر والوں کے لیے آج عید نہیں ہے۔
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا۔ 27 معصوم لوگ جان سے گزر گئے۔ اگرچہ تمام دہشتگرد جہنم واصل ہوئے مگر 27 گھروں کے چراغ بجھ گئے۔ ان 27 لوگوں میں سیکیورٹی اہلکار بھی تھے۔ کوئی فرض کی ادائیگی کی وجہ سے ٹرین میں عازم سفر ہوا ہو گا۔ کسی کو چھٹی ملی ہو گی اور وہ گھر جانے کی خوشی میں ٹرین میں بیٹھا ہوگا۔ ظالموں نے ان جوانوں کے سینے چھلنی کیے جن کے سینے پر ابھی دلیری کے تمغے سجنے تھے۔ جن کی پیشانیوں پر ابھی شجاعت کا نور اترنا تھا۔ جنہوں نے فتح مبین کے بعد نعرہ تکبیر بلند کرنا تھا۔ ان سب کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ ان کے گھر والے اس عید پر کیسا ماتم کر رہے ہوں گے۔ ان کے سینے کیسے کٹ رہے ہوں گے ، ان کی ماؤں کے آنسو کیسے دوپٹوں کو تر کر رہے ہوں گے۔ تو جان لیجیے کہ ان جوانوں، ان بچوں کے گھروں میں آج عید نہیں ہے۔
ایک لمحے کو سوچیے ان بلوچ بچیوں کے بارے میں جنہیں گمراہ کر کے یا بلیک میل کر کے خودکش بمبار بننے پر مجبور کیا جاتا ہے ان کے گھروں میں آ ج کیا منظر ہوگا۔ کتنے وحشی ہو ں گے وہ لوگ جنہوں نے ان بچیوں کو خود کش بمبار بنایا ہو گا۔ کس مجبوری کے تحت انہوں نے اپنے جسموں سے بم باندھ کر ریمورٹ دبایا ہوگا۔ ان مسخ شدہ جسموں کو سنبھالتے ہوئے والدین آج کیا کر رہے ہوں گے؟ وہ جانتے ہوں گے کہ ان کے بچوں نے اس ملک سے بھی غداری کی، خاندان کو بھی ڈبو دیا۔ ان بچیوں کے والدین آج نہ عید منا سکتے ہوں گے نہ کسی کو منہ دکھا سکتے ہوں گے۔ نہ کھل کر رو سکتے ہوں گے نہ آنسو چھپا سکتے ہوں گے۔ ان کے چہروں پر ندامت بھی ہو گی خجالت بھی ۔ ان کے دلوں میں ان بچوں کو بیرونی ایجنڈے کے تحت اس عمل پر مجبور کرنے والوں کے خلاف نفرت کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ ان کی زبانوں پر ایک پوری نسل کو گمراہ کرنے والوں کے لیے صرف بدعائیں ہی ہوں گی۔ ایسی بچیوں کے گھر والے آج سارے زمانے سے چھپ کر اشکبار ہوں گے۔ یقین مانیے کہ ان کے گھروں میں بھی آج عید نہیں ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
اردو کالم عمار مسعود