’’دیکھو اگر تم کو جلدی قومی ٹیم میں آنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘
’’دیکھو اگر تم کو کم بیک کرنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘
جب کسی نوجوان کرکٹر کو کوئی ایسا سابق کپتان ایسی پیشکش کرے جو اچھی ساکھ کا مالک بھی ہو تو وہ کیسے انکار کر سکتا ہے، پھر اس کے سامنے کئی دیگر پلیئرز کی مثالیں بھی موجود ہوں تب تو ناں کہنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں رہتی۔
یہ کسی ایک کمپنی کے ساتھ نہیں ہے ماضی میں دوسرے بھی یہی کرتے رہے، چند برس قبل پاکستان کرکٹ میں ایجنٹس کا کوئی تصور نہ تھا لیکن جب کرکٹ میں پیسہ آیا تو دیگر ممالک کے کرکٹرز کو دیکھ کر پاکستانیوں میں بھی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقم کمانے کی چاہت پیدا ہوئی، اس پر انھیں لیگز، تشہیری معاہدوں اور دیگر پْرکشش آفرز کر کے ایجنٹس اپنی جانب راغب کرتے رہے۔
بعض نے آغاز قیمتی موبائل فون تحفے میں پیش کر کے کیا، پاکستانی کوچز کی اتنی گہری نظر نہیں جتنی بعض ایجنٹس کی ہے،یہ بعض نوجوان کرکٹرز کا ٹیلنٹ جانچ کر انھیں کم عمری میں ہی قابو کر لیتے ہیں، پھر وہ کھلاڑی جب اسٹار بن جائے تب بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
موجودہ دور کے کئی کرکٹرز اس کی روشن مثال ہیں، آپ اگر مجھ سے پوچھیں کہ بابر اعظم کا زوال کیوں آیا تو میں اس کی ایک وجہ سینٹرل کنٹریکٹ تنازع کو بھی قرار دوں گا جب بابر سمیت چند سینئرز نے بورڈ کو بہت ٹف ٹائم دیا، ون ڈے ورلڈکپ سے قبل نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر آئی سی سی کی آمدنی سے حصہ نہ ملا تو ٹیم بھارت میں آفیشل تشہیری سرگرمیوں کا بھی بائیکاٹ کر دے گی۔
ان کھلاڑیوں کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا یہ سب جانتے ہیں، آپ اس تنازع کے بعد بابر کا کیریئر دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کارکردگی میں کتنا زوال آیا، پی سی بی نے کھلاڑیوں کے دباؤ پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔
لیکن آپ اس کے بعد سے ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا فرق آیا، کئی ہیرو زیرو بن گئے، پیسہ کمانا سب کا حق ہے لیکن اگر آپ اپنے اصل کام کو بھول کر صرف معاوضوں کے چیکس پر نظر رکھیں تو مسائل ہوتے ہیں۔
احسان مانی، ذکا اشرف، نجم سیٹھی، مرحوم شہریار خان سمیت کئی بورڈ سربراہان بخوبی جانتے تھے کہ ایجنٹس کا بڑھتا اثرورسوخ پاکستان کرکٹ کو کھوکھلا کر رہا ہے، انھوں نے اپنے طور پر اقدامات بھی کیے لیکن ایک کو پیچھے کرنے کے بعد دوسرے کو اس سے بھی بڑا بنا دیا گیا۔
سلمان بٹ، عامر اور آصف کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پاکستان کرکٹ کے چہرے پر بدنما داغ ہے،اس کا آغاز بھی ایک ایجنٹ مظہر مجید سے ہی ہوا، جیکٹ سے شروع ہونے والا معاملہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچنے پر ختم ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا نام ڈبونے والے یہ افراد اب بھی کرکٹ میں فعال ہیں، ماضی میں سایا کارپوریشن کا کنٹرول تھا، بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی سمیت بیشتر کرکٹرز اسی کا حصہ رہے، پھر جب میں نے اسٹوری بریک کی کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق،ان کے بھائی، سایا کارپوریشن کے روح رواں طلحہ رحمانی اور رضوان ایک برطانوی کمپنی ’’یازو انٹرنیشنل‘‘ کے ڈائریکٹرز ہیں تو سابق کپتان پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگا، انھیں مستعفی ہونا پڑا۔
اب ایک نیا تنازع سامنے آیا جب انگلش کرکٹ بورڈ نے کئی پاکستانی کرکٹرز اور آفیشلز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم آئی سی اے کے سربراہ مغیز احمد شیخ کو اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر معطل کر دیا، اس حوالے سے میں نے جو خبر دی اگر آپ اسے پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ بیشتر کرکٹرز اسی کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں۔
ہیڈ کوچ و سلیکٹر عاقب جاوید کی نمائندگی بھی یہی کرتی ہے، حال ہی میں جو نئے کھلاڑی سامنے آئے یقینی طور پر انھیں ٹیلنٹ کی بنیاد پر ہی مواقع ملے ہوں گے، ان کی نمائندگی آئی سی اے کا کرنا محض اتفاق ہی ہوگا۔
لیکن سوال تو اٹھ رہے ہیں، پی سی بی کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیئں کہ کہیں اس کے بعض آفیشلز پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام تو نہیں لگ سکتا، اگر کوئی زد میں آتا دکھائی دے تو کیا یہ درست نہ ہو گا کہ اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ ایجنٹس والے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، کل سایا تو آج آئی سی اے کا راج ہے، پھر کوئی اور کمپنی آ جائے گی،البتہ سایا کا نام کبھی آئی سی اے کی طرح کسی کرپشن کیس میں سامنے نہیں آیا بلکہ اس نے تو ملک میں سروگیٹ ایڈورٹائزنگ کیخلاف آواز اٹھائی تھی۔
ذکا اشرف نے اپنے دور میں ایک حد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ ہر کمپنی کو اتنی تعداد میں اسٹارز اور اتنے دیگر کھلاڑیوں سے معاہدوں کی اجازت ہوگی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا،اس وجہ سے مسائل برقرار رہے۔
اب پی سی بی کو کوئی پالیسی بنانی ہوگی، محسن نقوی پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنے کیلیے انتھک محنت کر رہے ہیں، انھیں اس جانب بھی دیکھنا چاہیے، اسی طرح جو سابق کھلاڑی کسی ایسی کمپنی سے منسلک ہو اسے بورڈ میں نہیں آنے دیں، ورنہ جس طرح ایک سابق کپتان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے متعدد کھلاڑیوں کو آئی سی اے کے ساتھ منسلک کرایا کل کو کوئی اور کسی اور کمپنی سے معاہدے کراتا نظر آئے گا۔
بورڈ ایک پالیسی بنائے اس کے بعد ایجنٹس کی کمپنیز کو سخت چھان بین کے بعد اپنے ساتھ منسلک کرے، ان پر نظر بھی رکھے تاکہ بعد میں کسی وجہ سے کوئی کھلاڑی مشکل میں نہ پڑے، جب کوئی تنازع ہو تو ملک کی ہی بدنامی ہوتی ہے، ایک کے پاس ہی سب کے جانے سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
نوجوان کھلاڑی بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کمپنی اچھی ہے یہاں چلے گئے تو جلدی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جائے گا، موجودہ دور کے ایک ’’سپراسٹار‘‘ پر بھی یہی الزام لگتا رہا کہ وہ مخصوص کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرتے تھے، آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلیے کوششیں کرنی چاہیئں، محسن نقوی نے کئی بڑے کام کیے ہیں، وہ اس حوالے سے بھی بہتری لا سکتے ہیں،اس کا فائدہ پاکستان کرکٹ کو ہی ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ا ئی سی اے کے بعد لیکن ا
پڑھیں:
فوج اور ریاست ملک میں قیام امن میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، گورنر خیبرپختونخوا
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، فوج اور ریاست اس ملک اور صوبے میں امن و امان قائم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑے گی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کا ڈیرہ اسماعیل خان کا وزٹ اچھا اقدام ہے۔
انہوں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے،امن و امان کے حوالے سے پھر ہماری آنکھیں فوج کے جوانوں کی طرف ہوتی ہیں، فوج اور ریاست اس ملک اور صوبے میں امن و امان قائم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑے گی۔
گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور خاص کر جنوبی اضلاع میں روزمرہ کی بنیاد پر انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہو رہے ہیں، ان میں پاک فوج کے جوان بھی شہید ہو رہے ہیں اور پولیس کے جوان بھی شہید ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں لوگوں کا براحال ہے،عام شہری جس طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں سب کے سامنے ہے۔سندھ اور وفاق کے درمیان دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ اس ایشو کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو فیڈریشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مسئلے کو حل کریں، مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) وہ فورم ہے جہاں پر مسئلے ڈسکس ہوتے ہیں اور خوش اسلوبی سے حل کیے جاتے ہیں۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ن لیگ اگر میڈیا کے ذریعے مسئلے حل کرے گی تو پھر مسئلے حل نہیں ہوں گے ، اس کا متعلقہ فورم سی سی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا وزیراعلیٰ یا عوامی نمائندے، اگر عوام کو مسئلہ ہوگا تو وہ کھڑے ہوں گے۔گورنر خیبرپختونخوا نے مسلم لیگ ( ن ) کو باور کراتے ہوئے کہا کہ آج حکومت کھڑی ہے تو پیپلز پارٹی کے زور پر کھڑی ہے، کل بھی اگر کوئی جمہوری طریقے سے حکومت بنائے گا تو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہوگی۔گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ انشاءاللہ جون میں چشمہ لفٹ کنال کا باقاعدہ افتتاح ہو جائے گا۔