ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
پاکستان کا بحران غیر معمولی ہے۔اس غیرمعمولی صورتحال کا نہ صرف ہمیں گہرائی سے ادراک ہونا درکار ہے بلکہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس میں بھی طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کو بھی ہر صورت برتری حاصل ہونی چاہیے۔جو بھی بحران ہے وہ محض آج کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس بحران تک پہنچنے میں ہمیں کئی دہائیاں لگی ہیں اور اس میں تمام ہی حکومتوں سمیت دیگر فریقین بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔
موجودہ حالات پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز سے ایک ذمے دار کردار کی توقع رکھتے ہیں۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے معاملات میں درست سمت میں درستگی نہ کی تو اس سے معاملات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو سکتے۔ ہیں۔طاقت کا استعمال یقینی طور پر ایک حکمت عملی کے طور پر موجود ہوتا ہے۔لیکن یہ آخری حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور اس سے قبل سیاسی راستہ ہی اختیار کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہیے تاکہ مفاہمت کا راستہ بھی سامنے آسکے ۔سیاسی راستے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ واپسی کا راستہ دیتا ہے اور تمام مفاہمتی راستوں کے دروازوں کو بند کرنے کے بجائے کھولنے کا سبب بنتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے دو صوبے بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ واقعی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سازشوں کا شکار ہیں۔ ان صوبوں کے حالات کی درستگی اور وہاں امن کا قائم ہونا لازم ہے۔پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کئی طرح کے آپریشن کیے اور اس میں سیاسی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔یہاں تک کہ نیشنل ایکشن پلان جو 20 نکات پر مشتمل تھا وہ بھی سامنے آیا۔اس نیشنل ایکشن پلان میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دیگر فریقین کے ساتھ مل کر ایک جامع منصوبہ بندی بھی تیارکی مگر اس کے نتائج وہ نہیں نکل سکے جو بطور ریاست ہمیں درکار تھے۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کے آپریشن وقتی طور پر یقینی طور پر کچھ بہتر نتائج دیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہوتے۔مستقل حل ریاستی اور حکومتی سطح پر سیاسی بنیادوں پر تلاش کیے جاتے ہیں ۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں سرکاری ملازمین اور انتظامی افسران کو وارننگ دی ہے کہ وہ حالات کو کنٹرول کریں یا گھر چلے جائیں۔ اس سے لگتا ہے کہ سرکاری مشینری میں بھی مسائل ہیں۔
خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں جہاں داخلی مسائل ہیں وہیں ہمیں علاقائی مسائل بھی درپیش ہیں۔ پچھلے دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف نے گورننس کے معاملات سے جڑے مسائل پر کھل کر بات کی اور ان کے بقول ہمیں اپنا گورننس کا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حالات کی درستگی گورننس کے تناظر میں کیسے ہوگی اور کون کرے گا۔کیونکہ پاکستان کی مجموعی گورننس پر کئی طرح کے سنجیدہ سوالات ہیں ۔
پاکستان اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک بڑے قومی بیانیہ کی تلاش میں ہے۔وہ بیانیہ جس میں ایک بڑا قومی اتفاق رائے ہر سطح پرنظر آنا چاہیے اور اس اتفاق رائے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑی سیاسی اور مذہبی تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ہمارے موجودہ حالات میں سیاسی تقسیم کا پہلو بہت گہرا ہے اور یہ مسئلہ خود ایک بڑے اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
کیونکہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سیاسی مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور سیاسی مسائل کی موجودگی خود ایک بڑے سیاسی بحران کا سبب بن رہی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے ہمیں زیادہ بحران کا سامنا ہے اور وہاں جو بیانیہ دہشت گردی کے تناظر میں بنایا جا رہا ہے وہ ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات کی ہے کہ قومی میڈیا میں بھی بگاڑ ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے عملا ہمیں ایک مضبوط میڈیا درکار ہے جو قومی بیانیے کی تشکیل میں ایک مثبت کردار ادا کرسکے۔
اسی طرح ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنا کسی حکومت یا ادارے کے بس کی بات نہیں ،اس کا علاج تمام فریقین کی باہمی مشاورت اور باہمی عمل درآمد کے نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم حالات کی نزاکت کا احساس کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر ہم نے درست حکمت عملیاں اختیار نہ کیں تو معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارا درست سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہی پاکستان کی ریاست اور عوام کے مفاد میں ہے۔ہمیں ریاستی نظام میں لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ریاست خود لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اتفاق رائے میں سیاسی کے ساتھ اور اس ہے اور
پڑھیں:
دہشت گردی اور صوبے
دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو نشانہ بنا رکھا ہے ۔ اس حوالے سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو موقف اور کردار سب پر واضع ہے ۔ سیکیورٹی فورسز بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کے ساتھ لڑ رہی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہیں۔ گزشتہ روز وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی و صوبائی قیادت اورعسکری حکام کی بڑی بیٹھک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیے کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اس اہم اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ جعفر ایکسپریس کے حملہ آوروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے میں کو ئی کسر نہ چھوڑی جائے ۔ شرپسند عناصر کے خلاف کیس ایسے ہوں جن میں وہ ضمانت نہ کراسکیں۔قومی بیانیے اور ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی قسم کے مواد کا سد باب کیا جائے گا۔
اجلاس کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی صدارت وزیراعظم نے کی جب کہ وزیرقانون اعظم ،وزیرداخلہ ، عسکری و سول قیادت، چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی نمایندے شریک ہوئے ۔
اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ روایتی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ملک دشمن مہم کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قومی بیانیے کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیاگیا اور قومی بیانیہ کمیٹی کو دہشت گردوں اور شر پسندوں کے سد باب کے لیے مؤثر اور سرگرم بیانیہ بنانے کی ہدایات کی گئی ہے۔
اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ قومی بیانیے اور ملک کی سلامتی کے خلاف کسی بھی قسم کے مواد کا سد باب کیا جائے گا۔دہشت گردوں اورشرپسندوں کے سدباب کے لیے مضبوط بیانیہ ہوناچاہیے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ جعفر ایکسپریس پر بی ایل اے کے حملے کی بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے کوئی مذمت نہیں کی گئی۔
تمام صوبوں کا تعاون اور آپسی روابط بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔وزارت داخلہ ،انتظامیہ او رمیڈیا کے ذریعے ایسا لائحہ عمل بنایاجائے جس سے شرپسند عناصر کے بیانیے کا موثر مقابلہ کیاجاسکے۔ چاروں صوبے نے تعاون پر اتفاق کیا کہ قومی بیانیے کو نوجوانوں تک پہنچانے کے لیے فلم اور ڈراموں میں ایسے قومی موضوعات اپنائے جائیں گے جس سے شر پسندوں کے بیانیے کا مؤثر مقابلہ ہوسکے گا۔
دہشت گردی کے منفی معاشرتی اثرات کو اجاگر کیا جائے۔سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا سد باب کیا جائے۔ڈیپ فیک اور دیگر ذرایع سے بنائی گئی جھوٹی معلومات اور مواد کا مستند معلومات سے بھرپور جواب دیا جائے۔قومی نصاب میں دہشت گردی کے حوالے سے آگاہی شامل کی جائے۔
دہشت گردی پاکستان کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے اور اس کے کتنے ہمہ گیر نقصانات ہیں، اس کے بارے میں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر خاص وعام حالات وواقعات کی سنگینی سے آگاہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وجوہات اور اسے کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے، اس کے بارے میں بھی پالیسی ساز اچھی طرح جانتے ہیں۔
پاکستان کا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ اور ایک مخصوص گروہ دہشت گردوں کی سہولت کاری کے حوالے سے خاصی حد تک بے نقاب ہو چکا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ اور گروہ پاکستان کے سسٹم پر خاصی گرفت رکھتا ہے اور پالیسیز پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
اسی طرح کاروباری طبقے اور پروفیشنل انجمنوں میں بھی اس قسم کا مائنڈ سیٹ موجود ہے۔ یہی وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے ریاست پوری دلجمعی سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ جیت نہیں پا رہی۔ بہرحال وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق سے پاکستان کے معاشی و معاشرتی چیلنجز اور دہشت گردی کے مسائل پر قابو پائیں گے، ہماری کامیابی کا راز اتحاد، اتفاق، انتھک محنت اور جذبہ حب الوطنی میں مضمر ہے، انھوں نے پاکستان کے علما کرام سے بھی اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
یہ باتیں انھوں نے گزشتہ روز ’’رب ذوالجلال کا احسان پاکستان‘‘ کے عنوان سے رکھی گئی ایک تقریب کے دوران کی ہیں۔ وزیراعظم نے دہشت گردی، معاشی مسائل اور ملک کے اندر موجود تفریق کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ذاتی خواہشات کے لیے قومی مفاد قربان کرنے کی سوچ پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے بے وفائی ہے۔پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور دہشت گردی کے مسائل حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا فرض ہے،دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مرتبہ پھر افواج پاکستان قربانیاں دے رہی ہیں۔
وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے لیے ہم نے قربانیاں دی تھیں لیکن آج یہاں ترقی اور خوش حالی کے بجائے تفریق پیدا کرکے ملکی استحکام، عزت اور وقار کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔آج فیصلہ کریں کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنی تمام ذاتی خواہشات اور انا کو پاکستان کے تابع کریں گے۔
وزیراعظم پاکستان نے جو باتیں کی ہیں، ماضی میں بھی اربابِ اختیار ایسی باتیں کرتے رہے ہیں لیکن اب ان باتوں کا فائدہ اسی وقت ہے جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے جہاں قانون سازی کی ضرورت ہے وہیں ملک کے تعلیمی نصاب کے اندر جوہری تبدیلیاں بھی ناگزیر ہو چکی ہیں۔ پاکستان کو ایک پروقار ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے جرأت اور بہادری سے اقدامات کرنے پڑیں گے اور اس کے لیے پہلی شرط ملک کے اندر سے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ریاست کے سسٹم سے باہر نکالنا ہو گا۔
جب تک یہ کام نہیں ہو گا، سہولت کاری ختم نہیں ہو گی۔ اسی طرح نجی اور سرکاری درسگاہوں میں یکساں نصاب تعلیم ضروری ہے اور یہ نصاب تعلیم پرامن بقائے باہمی کے اصول کے مطابق وضع ہونا چاہیے جس میں فرقہ واریت، پرتشدد نظریات اور بند گلی میں لے جانے والی سوچ کے خاتمے کو اولین ترجیح بنایا جائے۔ ادھروفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ رواں سال شرح سود میں مزید کمی متوقع ہے بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان جلد متوقع ہے، بجٹ میں ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے پر توجہ دی جائے گی۔
وزیر خزانہ نے چین کے باؤ فورم کے دوران بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نئے بجٹ میں ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر توجہ دی جائے گی، ریئل اسٹیٹ، ریٹیل اور زراعت جیسے شعبوں کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے گا، اس سال کے دوران شرح سود میں مزید کمی متوقع ہے، شرح سود میں کمی سے اقتصادی ترقی کے لیے حالات مزید بہتر ہوں گے ،حکومت کی توجہ معیشت کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے، حکومت ملکی برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی 1.71 روپے یونٹ سستی کرنے کے لیے نیپرا میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ بجلی قیمتوں میں یہ کمی اگلے تین ماہ اپریل، مئی اور جون 2025 کے لیے تمام تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور کے الیکٹرک کے تمام صارفین کے لیے ہو گی۔
معاشی ترقی کے حوالے سے بھی حکومت کی ترجیحات ماضی کے مقابلے میں خاصی بہتر ہیں۔ ملکی معیشت میں قدرے استحکام نظر آ رہا ہے جب کہ ماضی کا سیاسی بحران بھی ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسائل درپیش ہیں۔ گزشتہ روز ڈی آئی خان کی ایک چیک پوسٹ پر بھی دہشت گردوں نے حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن پنجاب پولیس نے انھیں ناکام بنا دیا۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کے سپرد ہو چکے ہیں۔ ماضی کی صوبائی حکومتوں کے اختیارات آج کی صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتے تھے۔ اس لیے صوبائی حکومتیں بھی اپنی ذمے داریوں سے یہ کہہ کر عہدہ برآ نہیں ہو سکتیں کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا وہ سارا ملبہ وفاق پر گرانے کی بھی کوشش نہیں کر سکتیں۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کا یہ جواز کسی حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان صوبوں کو وفاق کی جانب سے جتنے محاصل مل رہے ہیں، اس حوالے سے بھی انھیں اپنے معاملات کو ازسرنو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔
صوبائی حکومتوں کو اپنے وسائل خود پیدا کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ صوبائی ٹیکسز کی وصولی کے حوالے سے بھی صوبوں کو اپنی سرکاری مشینری کو متحرک کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں انویسٹمنٹ فرینڈلی ماحول پیدا کریں۔
اب تو مالیات کے حوالے سے بھی صوبوں کے پاس خاصے اختیارات ہیں۔ صوبائی ارکان پارلیمنٹ، صوبائی وزیراعلیٰ اور وزراء حضرات اور صوبے کی سرکاری مشینری کو قومی خزانے سے تنخواہیں ملتی ہیں، اس میں صوبائی محاصل بھی شامل ہوتے ہیں لیکن اتنی مراعات اور تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود کارکردگی کے حوالے سے ان کی کارکردگی قابل رشک نہیں ہے۔