Islam Times:
2025-04-01@14:44:37 GMT

امریکہ میں صیوہنی بیانیے کی مسلسل شکست

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

امریکہ میں صیوہنی بیانیے کی مسلسل شکست

اسلام ٹائمز: ڈیموکریٹس، امریکی نوجوانوں اور غیر سفید فام کمیونٹیز کے رویوں میں تبدیلی فلسطینی کاز کے لیے ایک بنیادی اور امید افزا رجحان ہے۔ یہ تبدیلیاں فلسطینی عوام کی مزاحمت، آزاد میڈیا کے انکشافات، بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کی سرگرمیوں اور خود قابض حکومت کے نہتے عوام کے خلاف جرائم کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ خصوصی رپورٹ:

حالیہ تحقیق اور معتبر رائے شماری مسئلہ فلسطین اور صیہونی حکومت کے حوالے سے امریکی رائے عامہ میں نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ غاصب صیہونی ریاست کے حامی تجزیہ کاروں کو جس چیز کی گہری تشویش ہے وہ امریکی معاشرے میں روایتی طور پر موجود حامی پاور بیسز میں کمی کا رجحان ہے۔ مچل بارڈ جیسے صیہونی تجزیہ کاروں نے گیلپ پول کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے صیہونی حکومت کے لیے امریکی عوامی حمایت میں نمایاں کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

 فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی میں اضافہ
ان جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے لیے امریکی عوام میں ہمدردی کی سطح تاریخی طور پر اوسط 49% سے 46% تک گر گئی ہے، جو 2001 کے بعد کی سب سے کم سطح ہے۔ یہ کمی 2010-2010 میں صیہونی حکومت کے لیے 62% ہمدردی کی سطح کے مقابلے میں نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسری طرف جب صیہونی حکومت کی حمایت میں کمی آئی ہے، فلسطینیوں کے لیے امریکی ہمدردی 33 فیصد کی تاریخی بلندی پر پہنچ گئی ہے۔

صہیونی تجزیہ کار اس اضافے کو سوالات پوچھے جانے کے انداز میں تبدیلی یا غیر متعلقہ عوامل سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم، خاص طور پر غزہ کے خلاف بارہا جارحیت اور محاصرے اور قبضے کے نتیجے میں تباہ کن انسانی صورت حال کے دوران، امریکی رائے عامہ میں تبدیلی کے تناظر میں براہ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ 

امریکی سیاسی جماعتوں میں تقسیم 
سب سے اہم پیش رفت امریکہ میں صیہونی حکومت کی حمایت میں دو حزبی اتفاق رائے کا خاتمہ ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف 21 فیصد ڈیموکریٹس صیہونی حکومت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، جبکہ ان میں سے 59 فیصد فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 75 فیصد ریپبلکن اب بھی صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان یہ 54% فرق امریکی معاشرے میں صیہونی حکومت کے غیر مشروط حامیوں کی نظریاتی تنہائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیموکریٹس (12 فیصد) اور آزاد رائے دہندگان (30 فیصد) میں نیتن یاہو کی انتہائی کم مقبولیت بھی اس رجحان کا ثبوت ہے۔

 امریکی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی
صہیونی لابی کے لیے ایک اور بڑا چیلنج نوجوان امریکیوں (18 سے 34 سال کی عمر کے) کے رویوں میں ڈرامائی تبدیلی ہے۔ اس سنی گروہ کی صیہونی حکومت کے لیے حمایت 2018 میں 65 فیصد سے کم ہو کر صرف 29 فیصد رہ گئی ہے، جب کہ ان میں سے 48 فیصد فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، نئی نسل کے افراد جو سرد جنگ کی داستانوں سے کم متاثر ہیں اور انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے مسائل سے زیادہ واقف ہیں، وہ غاصب صیہونی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں اور غاصبانہ قبضے کی حقیقتوں سے زیادہ واقف ہیں۔

غیر سفیدفام، صیہونی حکومت کے چیلنجز
صیہونی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیلی حکومت کو ہمیشہ غیر سفید فام امریکیوں کی حمایت حاصل کرنے میں چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں بڑی اور بڑھتی ہوئی لاطینی کمیونٹی، جسے سیاسی تجزیہ میں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں نوآبادیاتی اور نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے آپس میں جڑے ہوئے مباحثے نے فلسطینی کاز کے ساتھ ان کی زیادہ یکجہتی کا باعث بنا ہے، صیہونیت کے حامی تجزیہ کاروں کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار بذات خود اس بات کا ثبوت ہیں۔

سب سے اہم یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت کے سرکاری بیانیے کی ناکامی بھی ہے۔ ڈیموکریٹس، امریکی نوجوانوں اور غیر سفید فام کمیونٹیز کے رویوں میں تبدیلی فلسطینی کاز کے لیے ایک بنیادی اور امید افزا رجحان ہے۔ یہ تبدیلیاں فلسطینی عوام کی مزاحمت، آزاد میڈیا کے انکشافات، بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کی سرگرمیوں اور خود قابض حکومت کے نہتے عوام کے خلاف جرائم کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ جہاں صہیونی لابی پیسے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں عالمی رائے عامہ کی عدالت بتدریج فلسطینیوں کے حامی کیمپ میں شامل ہو رہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کی کے رویوں میں میں تبدیلی امریکہ میں کی حمایت کرتے ہیں کے خلاف گئی ہے

پڑھیں:

نیوزی لینڈ سے پہلے ون ڈے میں شکست کا ذمہ دار کون؟ محمد یوسف برس پڑے

پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ محمد یوسف نے کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں شکست کی ذمہ داری بولرز پر عائد ہوتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 40ویں اوور میں اوپر نیچے دو وکٹیں گرنے سے پریشر بڑھ گیا، حالانکہ اوپنرز نے اچھا آغاز کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا میچ کیوں ہارے؟ کپتان محمد رضوان نے وجہ بتادی

محمد یوسف نے کہاکہ صبح کے وقت ٹریک بولنگ کے لیے سازگار تھا، نیوزی لینڈ کی جانب سے مارک چیپ مین اور ڈیرل مچل نے بہترین اننگز کھیلی۔

انہوں نے کہاکہ پہلے ون ڈے میچ میں دونوں پارٹ ٹائم بولرز مہنگے ثابت ہوئے، آج کے میچ میں 43 رنز بولرز کی جانب سے اضافی دیے گئے، اس سلسلے کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

محمد یوسف نے کہاکہ پانچویں بولر کی ضرورت ہے یا نہیں، اس کا دوسرے ون ڈے سے قبل جائزہ لیں گے، ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے اگلے میچ سے قبل بغور جائزہ لیا جائےگا۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ نے ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان کو 73 رنز سے شکست دی ہے، 345 رنز کے ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم 45ویں اوور میں 271 رنز بنا کر آل آؤٹ ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں پہلا ون ڈے: نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 73 رنز سے شکست دیدی

یہ بھی واضح رہے کہ اس قبل نیوزی لینڈ نے ٹی20 سیریز بھی پاکستان سے جیت لی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بابر اعظم بولرز پاکستان ٹی20 شکست کی ذمہ داری محمد رضوان محمد یوسف نیوزی لینڈ ون ڈے وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاسداران انقلاب دہشتگرد، ایران کو نیو کلیئر پروگرام کے پھیلاو سے روکیں گے ، امریکہ کی دھمکی
  • صیہونی رژیم عید الفطر کے روز بھی فلسطینیوں کے قتل عام سے باز نہ آئی، حماس
  • حشد الشعبی امریکی نشانے پر
  • امریکی حکومت اور عوام کی جانب سے تمام مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارک باد، نیٹلی اے بیکر
  • تقریباً 75 فیصد امریکی محققین امریکہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں، نیچر 
  • ڈنمارک کے عوام کا  امریکی سفارت خانے کے سامنے  ’’اوے امریکہ ‘‘ کے سلوگن کے ساتھ احتجاج
  • شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیاں کسی  جھوٹے بیانیے سے  چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا
  • تقریباً 75 فیصد امریکی محققین امریکہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں، سروے
  • نیوزی لینڈ سے پہلے ون ڈے میں شکست کا ذمہ دار کون؟ محمد یوسف برس پڑے