سڈنی( نیوز ڈیسک )آسٹریلیا کا ایک دور دراز قصبے میں ڈاکٹر کی پوسٹ کے لیے منہ مانگی تنخواہ دی جا رہی ہے لیکن وہاں کوئی نہیں جانا چاہ رہا۔ ڈاکٹر کی اس پوسٹ کے لیے 6,80,000 آسٹریلوی ڈالر ($4,28,000) تک کی تنخواہ، مفت رہائش اور ایک کار کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

اس قصبے کا واحد ڈاکٹر جلد ہی وہاں سے جا رہا ہے اور اتنی پرکشش تنخواہ و مراعات کے باوجود وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں جانا چاہتا۔ ریاست کوئنزلینڈ کے دور افتادہ قصبے جولیا کریک، جس کی آبادی 500 نفوس پر مشتمل ہے

ایک فیملی فزیشن کی تنخواہ ریاستی دارالحکومت برسبین کے مقابلے میں تقریباً دُگنی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ برسبین یہاں سے 17 گھنٹے کی مسافت پر ہے، جب کہ قریبی بڑا شہر ٹاؤنزویل بھی 7 گھنٹے کی مسافت (ڈرائیو) پر واقع ہے۔

متوقع امیدواروں کو شدید گرمی اور حشرات الارض کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔ لیکن قصبے کے سبکدوش ہونے والے ڈاکٹر، ایڈم لاؤس، کا کہنا ہے کہ ان کے جانشین کو یہاں ایک پُرسکون طرزِ زندگی کے ساتھ ایسی مہارتیں سیکھنے کا موقع بھی ملے گا جو انہوں نے پہلے کبھی استعمال نہیں کی ہوں گی۔ لاؤس کو 2022 میں برسبین سے جولیا کریک لایا گیا تھا، جب اس قصبے نے AU$500,000 کی تنخواہ کی پیشکش کر کے ملکی سطح پر شہ سرخیاں حاصل کی تھیں۔
واشک میں فرائض سے غفلت اور نااہلی دکھانے پر 13 لیویز اہلکار برطرف

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

الیکٹرک وہیکلز: پاکستان میں ماحولیاتی انقلاب یا صرف ایک خواب؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مارچ 2025ء) اگرچہ عالمی سطح پر ای وی کو صاف توانائی اور فضائی آلودگی میں کمی کا ذریعہ مانا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس کے نفاذ اور افادیت کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جامع پالیسی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی اسے مطلوبہ نتائج سے دور رکھ رہے ہیں۔
الیکٹرک وہیکلز اور ماحولیاتی فوائد
پاکستان میں نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا آغاز سن 2019 میں ٹرانسپورٹ سے خارج ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور صاف توانائی کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا تھا۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر اعجاز احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا، ’’روایتی گاڑیاں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کے اخراج کا بڑا ذریعہ ہیں۔

(جاری ہے)

ای وی اسے روک سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں ’اربن یونٹ‘ کی تحقیق کے مطابق 80 فیصد سموگ گاڑیوں کی وجہ سے ہے، جو ای وی کے استعمال کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

سوئس ایئر ٹیکنالوجی کمپنی کی سن 2024 کی رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک قرار دیا گیا، جو اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔
عملی نفاذ میں رکاوٹیں
تاہم سن 2019 میں متعارف کرائی گئی پالیسی کے تین مراحل، عوامی آگاہی، مراعات اور مینوفیکچررز کی حوصلہ افزائی، ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے۔ اسلام آباد کی رہائشی آمنہ، جو پیشہ وارانہ ضروریات کے تحت شہر سے باہر سفر کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ای وی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر ہے لیکن خواتین کے لیے اس کا انفراسٹرکچر مناسب نہیں۔

فلیٹ میں رہنے کی وجہ سے گھر پر چارجنگ ممکن نہیں اور پہاڑی علاقوں میں چارجنگ اسٹیشنز کا پتا نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسی وجہ سے ای وی استعمال سے گریز کرتی ہیں۔
اسی طرح، کاروباری شخصیت ظہیر بابر، جو ای وی استعمال کرتے ہیں، کہتے ہیں، ’’یہ بڑے شہروں جیسے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے لیے موزوں ہے، لیکن چھوٹے شہروں اور لمبے سفر کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کی کمی بڑا مسئلہ ہے۔

‘‘
ان کے مطابق بڑے شہروں میں بھی اسٹیشنز کم اور دور دور ہیں، ’’ گھر پر چارجنگ میں سات سے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں، جبکہ اسٹیشنز پر 45 منٹ درکار ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سولر چارجنگ اسٹیشنز کہیں نظر نہیں آتے، حالانکہ حکومت نے ان کے وعدے کیے تھے۔
حکومتی موقف اور مستقبل کے منصوبے
ادارہ برائے تحفظ ماحولیات پاکستان کے ڈائریکٹر ضیغم عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’موجودہ چارجنگ اسٹیشنز سولر پر نہیں لیکن مستقبل میں انہیں سولر انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ ای وی سے دھوئیں، کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئی ہے اور حکومت اسے ترجیح دے رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ بات چیت جاری ہے کہ ای وی سے ملنے والے کاربن کریڈٹس کو فروخت کر کے کلائمیٹ فنانسنگ بہتر بنائی جائے۔‘‘
نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت حکومت پاکستان نے سن 2030 تک 30 فیصد گاڑیوں کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کا ہدف طے کر رکھا ہے، جن میں ایک لاکھ کاریں اور پانچ لاکھ موٹر سائیکلیں اور رکشے شامل ہیں۔


جامع پالیسی کی ضرورت
’کلائمیٹ واریئر‘ کی بانی ڈاکٹر سعدیہ خالد کہتی ہیں، ’’ای وی تب مفید ہو گی، جب اس کی مینوفیکچرنگ پاکستان میں ہو۔ حکومت کو صارفین کے لیے سبسڈی اور سولر پینل ویسٹ مینجمنٹ پر توجہ دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے تعلیمی نصاب میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی اہمیت کو شامل کرنے کی کوششوں کو سراہا، جو عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم ہیں۔


دیگر اقدامات اور عوامی کردار
سن 2022 کے سیلاب کے بعد کلین گرین پاکستان، شجرکاری مہم اور صاف ستھرا پنجاب جیسے اقدامات کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی بھی متحرک ہوئی۔ سبز ٹیکنالوجی کو بین الاقوامی معاہدوں میں بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق الیکٹرک وہیکلز فضائی آلودگی سے نمٹنے میں معاون ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی افادیت بڑھانے کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر، مقامی مینوفیکچرنگ اور جامع پالیسی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، پاکستان میں ای وی کا کردار اور افادیت دونوں محدود ہی رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں کچھ عناصر ذاتی و سیاسی فائدے کیلئے پراپیگنڈا کر رہے ہیں، رانا ثنا اللہ
  • یو ٹیوبر رجب بٹ نے پاکستان چھوڑ دیا، وجہ بھی بتادی
  • جان سے مارنے کی دھمکیاں؛ رجب بٹ نے پاکستان چھوڑ دیا
  • الیکٹرک وہیکلز: پاکستان میں ماحولیاتی انقلاب یا صرف ایک خواب؟
  • آسٹریلیا کا ایک قصبہ جہاں منہ مانگی تنخواہ پر بھی کوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں، وجہ کیا ہے؟
  • پیپلزپارٹی کہیں نہیں جارہی ،پیپلزپارٹی قیادت کو اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا، حنیف عباسی کا دعویٰ
  • معاشی اشاریے بہتر، لیکن کیا عوام کو بھی کوئی فائدہ ہوگا؟
  • سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث شہر بنا دیا گیا ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث شہر بنا دیا گیا ہے، حافظ نعیم