شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے حاصل کی گئی کامیابیاں کسی جھوٹے بیانیے سے چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے حاصل کی گئی کامیابیاں کسی جھوٹے بیانیے سے چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 30 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چینی حکومت نے “نئے دور میں شی زانگ میں انسانی حقوق کی ترقی اور پیش رفت” کے عنوان سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس میں چند دہائیوں میں حاصل ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔بقا تمام انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لئے بنیادی شے ہے.
پرامن آزادی کے بعد ، غلامی میں رہنے والوں کو آزادی حاصل ہوئی اور وہ خود اپنے گھر کے مالک بن گئے۔ پرامن آزادی کے بعد سے اب تک شی زانگ کی آبادی تقریباً دس لاکھ سے بڑھ کر 37 لاکھ ہو گئی ہے اور متوقع اوسط عمر 35.5 سال سے بڑھ کر 72.19 سال ہو گئی ہے۔ترقی لوگوں کی خوشحالی کی کلید ہے۔ پرانے شی زانگ میں رہنے والوں کو سخت محنت کے بعد بھی پیٹ بھر کر کھانا اور کپڑا نہیں مل سکتا تھا ۔پرامن آزادی کے بعد، 2019 کے آخر تک شی زانگ میں تمام 628,000 غریب افراد کو غربت سے نکالا جا چکا تھا۔ تعلیم کے شعبے میں ناخواندگی کی شرح، جو پرامن آزادی سے پہلے 95 فیصد سے زیادہ تھی،
بنیادی طور پر آج ختم کر دی گئی ہے، اور ایک 15 سالہ عوامی مالی اعانت سے چلنے والا تعلیمی نظام قائم کیا گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شی زانگ کے وسیع و عریض اور کم آبادی والے علاقوں میں بچوں کو اسکول جانے میں دشواری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ اسکولوں نے طلبا کے لیے بورڈنگ سروسز فراہم کی ہیں۔بے شک وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بورڈنگ جائیں گے یا نہیں۔ اس طرح کی بورڈنگ تعلیم صرف شی زانگ میں ہی نہیں بلکہ چین کے دیگر صوبوں اور دنیا کے تمام ممالک میں بھی دستیاب ہے۔لیکن کچھ مغربی ممالک نے اسی معاملے کو شی زانگ میں انسانی حقوق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
“شی زانگ اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے جتنا میں تصور کر سکتا تھا، اور یہاں کے لوگ بہت جدید زندگی گزار رہے ہیں”۔ یہ بات پاکستان کے سٹی نیوز نیٹ ورک کے سینئر رپورٹر علی عباس نے شی زانگ کے دورے کے بعد کہی۔ کچھ مغربی ممالک میں چین مخالف قوتوں نے علیحدگی پسندی اور تخریب کاری کی آڑ میں شی زانگ میں انسانی حقوق کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔لیکن شی زانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال ابھی ہے یا نہیں اس حقیقت کا جواب اعداد و شمار نے دے دیا ہے۔یہ اعداد و شمار لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سب کچھ بتا رہے ہیں اور کوئی جھوٹا بیانیہ انسانی حقوق کے حوالے سے حاصل کی گئی کامیابیوں کو چھپا نہیں سکتا ۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: انسانی حقوق کے
پڑھیں:
بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں،پاکستان
پا کستان میں ریاستی ادارے بطورپالیسی اقلیتوں کے تحفظ میں فعال کردار ادا کرتے ہیں
بھارت میں اقلیتوں کیخلاف نفرت وتشدد کو منظم ہوا دینے کے واقعات دستاویزی ہیں، ترجمان
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں، کیونکہ وہ خود ان حقوق کی تسلسل سے خلاف ورزی کرتا آرہا ہے، پاکستان میں ریاستی ادارے پالیسی کے طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ترجمان نے اپنے بیان میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جیشنکر کے لوک سبھا میں دیے گئے بیان اور پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر ہونے والی بحث سے متعلق ذرائع ابلاغ کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں، کیونکہ وہ خود ان حقوق کی تسلسل سے خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں ریاستی ادارے پالیسی کے طور پر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف اکثر واقعات حکمران جماعت کے بعض عناصر کی ایما پر یا حتیٰ کہ شمولیت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔انہوںنے کہاکہ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک، 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک، 1992 میں بابری مسجد کے انہدام سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک، گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے بھارت کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔شفقت علی خان نے کہا کہ دوسروں کے ہاں اقلیتوں کے حقوق کا ڈھونگ رچانے کے بجائے، بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو دور کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی سلامتی، تحفظ اور بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، نیز ان کی عبادت گاہوں، ثقافتی ورثے اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔