عالمی ادارہ صحت کے بجٹ میں 20 فیصد کمی کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے امریکا کی جانب سے دستبرداری کے فیصلے کے بعد اپنے بجٹ کا پانچواں حصہ کم کرنے کی تجویز پیش کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے "اے ایف پی" کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کی جانب سے بھیجی گئی ایک اندرونی ای میل میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے عملے کو بھیجے گئے پیغام میں کہاہے کہ عالمی ادارہ صحت کو 2025 میں تقریباً60 کروڑڈالر کی کمی کا سامنا ہے اوراس کے پاس بجٹ میں کٹوتی کے علاوہ ’کوئی چارہ نہیں ہے۔
سٹی @ 10 ، 29 مارچ ،2025
جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ صدرمنتخب ہونے کے بعد دنیا بھر میں صحت کو فروغ دینے کے لیے وسیع امداد سمیت، عملی طور پر تمام غیر ملکی امداد کو منجمد کرنے کا فیصلہ کیاتھا،امریکا اب تک ڈبلیو ایچ او کا سب سے بڑا ڈونر تھا۔
ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ایچ او کا ای میل میں کہنا تھا کہ امریکا اور دیگر کی طرف سے آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنٹس (امداد) میں ڈرامائی کٹوتیاں ممالک،این جی اوز اوراقوام متحدہ کی ایجنسیوں بشمول ڈبلیو ایچ او کو بڑے پیمانے پرمتاثر کر رہی ہیں۔
پھلوں اور سبزیوں کی آج کی ریٹ لسٹ -ہفتہ 29 مارچ, 2025
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او سے دستبرداری کے ایک سالہ عمل کوشروع کرنے سے قبل ہی ادارے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے، اور اس نے 9 ماہ سے بھی زیادہ عرصہ قبل اس حوالے سے اقدامات پر کام شروع کردیا تھا۔
ٹیڈروس اذانوم گیبریئس کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک کی طرف سے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کو فنڈ دینے کے لیے امداد میں حالیہ کمی کے درمیان امریکا کے اعلان نے ہماری صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
مدینہ منورہ ؛ خاتون کےتھپڑ کے جواب میں پولیس اہلکار کا تشدد
انہوں نے کہا کہ ہم نے اخراجات میں خاطر خواہ بچت حاصل کی،موجودہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی حالات نے وسائل کو متحرک کرنا خاص طور پر مشکل بنا دیا ہے، اس کے نتیجے میں ہمیں صرف اس سال تقریباً 60 کروڑ ڈالر کی آمدنی کے فرق کا سامنا ہے۔
گزشتہ ماہ ڈبلیو ایچ او کے ایگزیکٹو بورڈ نے 27-2026 کے لیے مجوزہ بجٹ کو 5.
ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہا ہےکہ تب سے ترقیاتی امداد کا منظرنامہ نہ صرف ڈبلیو ایچ او بلکہ پورے بین الاقوامی صحت کے ماحولیاتی نظام کے لیے خراب ہو گیا ہے،اس لیے ہم نے رکن ممالک کو تجویز پیش کی ہے کہ بجٹ کو مزید کمی سے 4.2 ارب ڈالر کردیاجائے جو اصل مجوزہ بجٹ سے 21 فیصد کمی ہے۔
لطیف کپاڈیہ کومداحوں سے بچھڑے 23 برس بیت گئے
عالمی ادارہ صحت کے آخری 2 سالہ بجٹ سائیکل میں23-2022 کے لیے امریکا کی جانب سے 1.3 ارب ڈالر دیے گئے تھے جو ڈبلیو ایچ او کے اس وقت کے 7.89 ارب ڈالرکے بجٹ کا 16.3 فیصد حصہ تھا۔
ٹیڈروس اذانوم گیبریئس کا کہنا تھا کہ بہترین کوششوں کے باوجود ہم اس مقام پر ہیں، جہاں ہمارے پاس اپنے کام اور افرادی قوت میں کمی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھااوراس فیصلے کا اطلاق 22 جنوری 2026 کو ہونا ہے۔
جناح ہسپتال کو ٹھیکے پر دینے کیلئے کمیٹی قائم
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے کی جانب سے ارب ڈالر کے لیے
پڑھیں:
معاشی اشاریے بہتر، لیکن کیا عوام کو بھی کوئی فائدہ ہوگا؟
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ وقت ہوگیا ہے، حکومت کی جانب سے مختلف اوقات میں دعویٰ کیا گیا کہ ملکی معاشی حالات بہتر ہو گئے ہیں اور معاشی اشاریے مثبت ہیں، جبکہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد پر آگئی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 48 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، کراچی اسٹاک مارکیٹ نے 22 سال میں بہترین منافع کمایا اور 100 انڈیکس میں 84 فیصد کا اضافہ ہوا، شرح سود میں 900 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوئی، رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں اور ترسیلات زر 17 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب 21 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں اگلے 5 برس میں برآمدات کا ہدف 60 بلین ڈالر: وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی ٹیم کو کیا اہم ہدایات دیں؟
وی نیوز نے معاشی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر معاشی اشاریے مثبت ہوگئے ہیں تو اس کا عوام کو کیا فائدہ ہوگا، یا عوام کو اس کا ریلیف کب تک ملے گا؟
جن معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، شہباز راناماہر معیشت شہباز رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جن معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، میرے خیال میں معاشی اشاریوں میں بہتری تو ابھی نہیں آئی لیکن کچھ ٹھہراؤ ضرور آیا ہے، اس وقت بھی گروتھ ریٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ جو مہنگائی میں کمی کی بات کی جا رہی ہے وہ دراصل مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہونے کی بات ہے، مہنگائی تو بڑھ رہی ہے صرف اس کے بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے لیے ایک سال میں اشیا کی قیمتوں میں مزید 6 سے ساڑھے 6 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ بے روزگاری بھی اپنی جگہ موجود ہے اور غربت میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
شہباز رانا نے کہاکہ گزشتہ چند سالوں سے معیشت میں ایک ڈاؤن فال تھا، اس وقت معاشی اشاریے بہتر تو ہیں لیکن آئیڈیل نہیں ہیں، اس وقت ملک میں معاشی استحکام آیا ہے اگر یہ استحکام مزید ایک سے ڈیڑھ سال رہتا ہے تو اس کے بعد ہی عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا۔
معاشی اشارے بہتر ہونے سے عوام کو کچھ ریلیف ضرور ملا، شعیب نظامیمعاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی کھانے پینے کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی اور من مانی قیمت وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔
انہوں نے کہاکہ معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں جس کا عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے، پاکستان میں اس سال پیاز کی بلند ترین قیمت 120 روپے تک گئی جو کہ گزشتہ سال 300 روپے تک تھی، آلو کی بلند ترین قیمت 110 روپے تک گئی جو گزشتہ سال 180 روپے تک پہنچی تھی، خوردنی تیل کی قیمت 595 روپے لیٹر تک گئی جو گزشتہ سال 630 روپے تک تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف سبزیوں کے ریٹ اتنے کم ہوئے ہیں کہ کاشتکار کی لاگت بھی پوری نہیں ہورہی، لیکن اس سب کی وجہ حکومتی کارکردگی نہیں بلکہ طلب اور رسد سمیت دیگر عوامل کا شامل ہونا ہے۔
شعیب نظامی نے کہاکہ گزشتہ چند ماہ سے شرح سود میں مسلسل کمی کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر چلنے والی صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوئی ہے، اسی لیے روزمرہ استعمال کی کچھ بنیادی اشیا جن میں جوتے، کپڑے، موزے سمیت دیگر کی قیمتوں میں اضافہ نظر نہیں آیا۔
آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا، شکیل احمدماہر معیشت شکیل احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے حکومت کو ایک ڈسپلن فالو کرنا ہوتا ہے، جس طرح کی عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط ہیں عوام کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا، حکومت کا دعویٰ ہے کہ افراطِ زر 1.52 فیصد پر آ چکا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ میں افراط زر ایک فیصد سے بھی کم ہو جائےگا۔
شکیل احمد نے کہاکہ فی الحال تو مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیا سبزی، فروٹ سستا ہے لیکن دیگر اشیا مہنگی ہیں، ایک سال قبل انفلیشن ریٹ 28 فیصد تھا تو اشیا کی قیمتوں میں اس طرح کمی نہیں آئی جس طرح آنی چاہیے تھی۔
یہ بھی پڑھیں پاکستانی معیشت میں مثبت اشارے، شر پسند عناصر کا منفی بیانیہ دم توڑنے لگا
شکیل احمد نے کہاکہ حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جا سکتی تھی تاہم حکومت نے لیوی بڑھا دی ہے اور اب 60 سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر لیوی وصول کی جا رہی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے ریلیف دیا جائے گا لیکن دراصل اضافی پیٹرولیم لیوی کی مد میں جو ٹیکس وصول کیا جائے گا اسی سے ریلیف دیا جائے گا، یعنی عوام کی جیبوں سے پیسے نکال کے ہی عوام کو ریلیف دینے کی بات ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افراط زر پاکستان حکومت پاکستان معاشی اشارے مہنگائی کی شرح وی نیوز