Daily Ausaf:
2025-04-01@09:19:29 GMT

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
٭خاص طور پر جب سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں۔ چین جیسے اتحادی بھی ہم پر اعتماد کھو رہے ہیں جس سے ریاست بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہارڈ اسٹیٹ پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب ریاست ہارڈ اسٹیٹ پالیسی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں طاقت کے ذریعے ختم کیا جائے۔ تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عسکریت پسندی کے مسئلے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صرف طاقت کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم، بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ پہلے سافٹ انٹروینشن یعنی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
بلوچستان میں زیادہ تر لوگ ریاست کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ گروہ بداعتمادی کی وجہ سے ریاست مخالف جذبات رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر ہے اور مضبوط شواہد سے ثابت ہے کہ ان مٹھی بھر شر پسندوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا (ٹرائیکا)کی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ٹرائیکا ہر صورت میں سی پیک کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بلوچستان جیسے علاقوں میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے، روزگار کے مواقع، اور مذاکراتی عمل کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔
بلوچستان میں امن کے قیام اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں نظر انداز کیے جانے والے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن پالیسی ترتیب دینا ہوگی، جس میں سیاسی مذاکرات، ترقیاتی منصوبے، اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی شامل ہو۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک کمیشن بنانا چاہیے تاکہ جو بھی مسائل ہیں، ان کا حل نکالا جا سکے اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ریاست کو ان عناصر سے مذاکرات کرنے چاہئیں جو قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، جبکہ ریاست مخالف گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔۔ سیاسی قیادت کو اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری پاکستان سے اس توقع کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ چین جیسے قریبی اتحادی بھی پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی پر تحفظات رکھتے ہیں، جس کے باعث معاشی اور سفارتی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے فوری طور پر نہ صرف موثر پالیسیوں پر عملدرآمد کرنابلکہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ان شرپسندوں کی مکمل سرکوبی کیلئے پوری طاقت کے ساتھ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
مستقبل کی راہ اور تجاویز کے ساتھ ایک یقینی حل کی طرف پیش قدمی کیلئے ملکی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئی مطالبات سامنے آئے ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان ٹو کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 2014ء میں جب سانحہ اے پی ایس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا، تو آج جب دہشت گردی کے خطرات مزید بڑھ چکے ہیں، تو وزیراعظم شہباز شریف کو بھی نیشنل ایکشن پلان ٹو ترتیب دے کر ایسے ہی اقدام کرنا چاہیے۔ ان کے مطابق پاکستان اس وقت ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک دور سے گزر رہا ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے اور ایک نئی حکمت عملی وضع کرے۔ اگر اس وقت قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا تھا، تو اب بھی ایسا ممکن ہے، اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے
٭بلوچستان کے لیے ایک حقائق کی تلاش کمیشن کے قیام کی تجویز پر بھی غور کیا گیا جہاں تمام فریق اپنے شکایات پیش کر سکیں۔
٭ماہرین کے مطابق فوجی آپریشن سے پہلے سافٹ انٹروینشن، سافٹ اقدامات (تعلیم، روزگار، انصاف) ضروری ہیں جس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
٭بین الاقوامی تعاون کو مزید متحرک کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ سرحدی تعاون اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے فورمزپاکستان کی سفارت کاری کو فعال بنانے پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دہشت گردی کے اس خطرناک بحران پر قابو پاسکےگا؟یقینا پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے خلاف مستقل حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں، جن کے تدارک کے لیے سخت اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عمل درآمد، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات اور ایک نئی جامع حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔
حکومت، فوج، انٹیلی جنس اداروں اور عوام کو مل کر ایک متحدہ بیانیہ اپنانا ہوگا تاکہ ملک میں پائیدار امن قائم کیاجاسکے۔ فوجی آپریشنز عارضی حل ہیں، جبکہ سیاسی وحدت، معاشی انصاف ، اور عوامی اعتماد ہی اصل کلید ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ پاکستان کو دوبارہ پرامن ملک بنایا جا سکے۔ آخر میں یہ کہنا انتہائی ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی بحالی اور اجلاس میں طے کردہ فیصلوں کا بھرپور نفاذ اس سلسلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے ، بشرطیکہ حکومت اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد پر توجہ دیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے بحال کرنے کے پاکستان میں کے خلاف سخت کرنے کے لیے کی ضرورت ضرورت ہے کے ساتھ کیا جا

پڑھیں:

دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم سب متحد ہیں، یوسف رضا گیلانی

چیئرمین سینیٹ کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں بہت سے معاملات زیر بحث آئے، افواج، سکیورٹی ادارے آپ کے کل کیلئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم سب متحد ہیں۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں بہت سے معاملات زیر بحث آئے، افواج، سکیورٹی ادارے آپ کے کل کیلئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں، تمام سیاسی پارٹیوں کو ملک کی ترقی، استحکام، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے یکجا ہونا پڑے گا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مظلوم کشمیری فلسطینی عوام کے لئے دعاگو ہیں، نہروں کے مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور اس کا حقیقی حل
  • دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہم سب متحد ہیں، یوسف رضا گیلانی
  • دہشت گردوں کے حمایتیوں سے رعایت نہیں ہو گی، رانا ثنا
  • ریاستی بحران اور سیاسی حکمت عملیاں
  • بلاول بھٹو کی ثالثی
  • امریکا کو واضح کر دیا دہشتگردی ہرگز برداشت نہیں کریں گے: طارق فاطمی
  • دہشت گردی اور صوبے
  • قلات میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 6 دہشتگرد جہنم واصل
  • پاکستان کا افغان حکومت کے سامنے دہشتگردی کا مسئلہ اٹھانے کا فیصلہ
  • امریکی محکمہ خارجہ کا داعش، ٹی ٹی پی اور پاکستان مخالف گروہوں پر بات کرنے سے گریز