Daily Ausaf:
2025-04-01@09:00:56 GMT

انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مذہبی حقوق کے حوالے سے ہم کہیں فرق کرتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ ملک میں رہنے والی کچھ آبادی کے مذہبی حقوق کو اپنے حقوق سے مختلف شمار کرتے ہیں جس سے مذہبی مساوات نہیں رہتی۔ اسی طرح غیرمسلم اقلیتوں پر کسی حوالے سے پابندی لگاتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ اس سے مذہبی آزادی مجروح ہو رہی ہے اور مذہبی حقوق پامال ہو رہے ہیں ۔
مذہب کے حوالے سے آج کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مذہب کا کوئی معاشرتی کردار ہے یا نہیں؟ اجتماعی معاملات میں مذہب کی ہدایات لی جائیں گی یا نہیں؟ مغرب نے انقلابِ فرانس یعنی ۱۷۹۰ء کے بعد طے کر لیا تھا کہ مذہب کا تعلق عقیدے، اخلاقیات، عبادات اور چرچ کے ساتھ ہے، اجتماعی معاشرت کے ساتھ نہیں ہے۔ یعنی معاشرے کے جو قومی شعبے ہیں تجارت، معیشت، قانون سازی، عدالت وغیرہ ان سے مذہب کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد مغرب نے جو نئی بنیادیں نظامِ زندگی کے لیے طے کی تھیں ان میں یہ تھا کہ ہم مذہب سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، مذہبی احکام کی پابندی ضروری نہیں ہے، بلکہ اجتماعیات میں ہم مذہب کی دخل اندازی قبول نہیں کریں گے کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے، عدالت ایسی ہونی چاہیے، معیشت ایسی ہونی چاہیے، اور یہ کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے دائرے مذہب کی رو سے طے ہونے چاہئیں، وغیر ذالک۔ اور جس طرح مغرب نے خود کو مذہب کے معاشرتی کردار سے الگ کر لیا، ہم سے تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے لاتعلق ہو جائیں۔ یہ کشمکش دو سو سال سے چل رہی ہے جس میں ہمارے حکمران طبقے تو گول مول چلے آ رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی اور عام مسلمان مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
مثال کے طور پرمغربی دنیا میں خاندانی قوانین سول لاء کے تحت ہیں اور ان پر مذہبی احکامات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان کا انسانی حقوق کا فلسفہ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں بائبل کے احکام قبول نہیں کرتا۔ عقلِ عامہ جسے کامن سینس کہتے ہیں، اس کی رو سے پارلیمنٹ یا سول سوسائٹی جو طے کردے اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ مغرب کے ہاں مذہب انفرادی اور اختیاری چیز ہے کہ کوئی اختیار کرناچاہے یا نہ کرناچاہے لیکن مسلم معاشروں میں ابھی تک الحمدللہ عام آدمی نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ میں مذہب ہی سے رہنمائی حاصل کرتا ہے، کوئی مسلمان اگر امریکہ میں بھی رہتا ہے تو خاندانی معاملات میں وہ علماء سے ہی فتویٰ کے لیے رجوع کرتا ہے۔
مذہب کے معاشرتی کردار میں تجارت اور معیشت بھی ہیں کہ اس میں مذہبی احکام کا کیا دخل ہے۔ اور اس میں سیاست بھی ہے کہ حکومت مذہبی اصولوں کے مطابق قائم ہو، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے، یا حکومت مذہبی احکام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا کرے۔ یہ سب باتیں مغرب کے ہاں ناقابل قبول ہے۔ خاندانی نظام میں، معیشت اور تجارت میں، عدلیہ اور قانون میں ، سیاست اور حکومت میں ، ان چاروں بڑے دائروں میں کہیں بھی مذہب، مذہبی احکام اور مذہبی روایات کی بالادستی کو مغرب تسلیم نہیں کرتا۔
آج کے مسلم معاشروں میں حکومت و سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات میں مذہب کا کردارکسی جگہ ہے اور کسی جگہ نہیں ہے، لیکن دو دائروں میں مسلمان ابھی تک مذہب سے وابستہ ہیں اور اس سے دستبرداری کے لیے تیار نہیں ہیں: ایک حلال و حرام کا دائرہ اور دوسرا خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے معاملات۔ اگرچہ حکومتی سطح پر مذہبی احکام کو گول مول کرنے کے لیے مختلف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایوب خان مرحوم کے زمانے میں ۱۹۶۲ء میں عورت کو طلاق کا حق دلوانے کے نام پر نکاح فارم میں تفویض ِطلاق کا خانہ رکھا گیا تاکہ مغرب کو مطمئن کر سکیں کہ ہمارے ہاں عورت کو بھی طلاق دینے کا حق حاصل ہے لیکن اس کا کچھ خاص نتیجہ نہیں نکلا کہ اب بھی نکاح ہوتے وقت کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ یہ دفعہ کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ عام معاشرے نےاسے قبول نہیں کیا۔ عام مسلمان نکاح، طلاق، وراثت اور حلال و حرام کے مسائل میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں اور اس کے لیے مسجد اور مدرسہ میں ہی جاتے ہیں۔
مغرب کا کہنا ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور حکومت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہونی چاہیے۔ آج کے مجتہدین اور دانشور بھی یہ بحث چھیڑتے ہیں کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا ایک پہلو عرض کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ تو میں ان سے مختصراً یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر تو ریاست و حکومت میں ہمارے آئیڈیل حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ ہیں تو اس کی تو بنیاد ہی مذہب پر ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کا آغاز، جسے خلافت کہتے ہیں، حضرت صدیق اکبرؓ سے ہوتا ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی تھی تو اس کا دائرہ جزیرۃ العرب تھا، حکومت سنبھالتے ہی آپؓ نے پہلی بات یہ کی تھی کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ‘‘ میں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلاؤں گا۔ اگر میں کتاب اللہ اور سنت کے مطابق نہ چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ یہی بات حضرت عمرؓ نے کہی تھی جب آپؓ خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست و حکومت اور رعایا کے تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے جبکہ مغرب اس بات کو تسلیم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد سول سوسائٹی کی خواہشات پر ہے۔
ہمارے ہاں سیاسی نظام کاعنوان خلافت ہےجو تقریباً تیرہ سو سال تک قائم رہی ہے۔ خلافت دراصل نیابت ہے یعنی خلیفہ خود مستقل حکمران نہیں ہے بلکہ اصل حاکم کا نائب ہے۔ یہاں ایک مغالطہ دور کرنا چاہتا ہوں کہ خلیفہ نائب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا، یہ بات درست نہیں۔ الاحکام السلطانیہ میں قاضی ابویعلیٰ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ سے ایک آدمی نے کہا تھا ’’ یا خلیفۃ اللہ!‘‘ آپؓ نے ٹوک دیا اور فرمایا ’’لست بخلیفۃ اللہ انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں، رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ یہ بہت بنیادی بات ہے۔ چنانچہ اصول یہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت نیابتِ رسول کا نام ہے اور حکومت کی بنیاد قرآن و سنت ہے، جبکہ مغرب اور آج کا عالمی نظام یہ کہتا ہے کہ مذہب کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
اس حوالے سے ایک عنوان مذہبی مساوات کا ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں متعدد معاملات میں غیر مسلم رعیت کو وہ آزادی نہیں ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہے۔ ویسے تو ان کو جائز حقوق حاصل ہیں لیکن کچھ معاملات میں مسلمانوں کا امتیاز ہے۔ مثلاً‌ غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں کے سامنے کھلم کھلا اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ مسیحی یا کوئی اور اقلیت اپنے دائرے میں تعلیم و تبلیغ تو کر سکتے ہیں لیکن مسلم اکثریت کو دعوت نہیں دے سکتے۔ یہ مذہبی مساوات کے خلاف قرار پاتا ہے کہ جو حقوق ایک مسلم ریاست میں مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ تمام حقوق غیرمسلموں کو حاصل نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان کے قانون میں یہ ہے کہ ملک کا سربراہ کوئی غیر مسلم نہیں بن سکتا۔ اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کلیدی آسامیوں پر یعنی ایسے مناصب جو پالیسی ساز حیثیت رکھتے ہوں، ان پر غیرمسلموں کی تقرری نہ کی جائے، تو اسے مذہبی مساوات کے خلاف سمجھا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے تو غیر مسلم کیوں نہیں ہو سکتا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذہب کے معاشرتی کردار کہ مذہب کا ریاست کوئی تعلق نہیں مذہبی مساوات ہے کہ مذہب کا مذہبی احکام معاملات میں ہونی چاہیے ہمارے ہاں حوالے سے کی بنیاد یہ ہے کہ نہیں ہو ہوتا ہے نہیں ہے مذہب کی کے ساتھ ہے اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیاں کسی  جھوٹے بیانیے سے  چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا

شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیاں کسی  جھوٹے بیانیے سے  چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 30 March, 2025 سب نیوز


بیجنگ :چینی حکومت نے “نئے دور میں شی زانگ  میں انسانی حقوق کی ترقی اور پیش رفت” کے عنوان سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس میں  چند دہائیوں میں حاصل ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔بقا تمام انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لئے بنیادی  شے ہے. 1951 میں شی زانگ کی پرامن آزادی سے پہلے ، غلامی میں رہنے والوں  کو زندگی کی ضمانت بھی نہیں مل پاتی تھی ، ان کے لیے رہنے ، جائیداد  لینے یا سوچ کی  آزادی  بھی نہیں تھی۔

 پرامن آزادی کے بعد ، غلامی میں رہنے والوں کو  آزادی حاصل ہوئی اور  وہ خود اپنے گھر کے مالک بن گئے۔ پرامن آزادی کے بعد سے اب تک شی زانگ کی آبادی تقریباً دس لاکھ سے بڑھ کر 37 لاکھ ہو گئی ہے اور متوقع اوسط عمر 35.5 سال سے بڑھ کر 72.19 سال ہو گئی ہے۔ترقی لوگوں کی خوشحالی کی کلید ہے۔ پرانے شی زانگ میں  رہنے والوں کو  سخت محنت کے بعد بھی  پیٹ بھر  کر کھانا اور کپڑا  نہیں مل سکتا تھا  ۔پرامن آزادی کے بعد، 2019 کے آخر تک شی زانگ میں تمام 628,000 غریب  افراد کو  غربت سے نکالا جا چکا تھا۔ تعلیم کے شعبے میں ناخواندگی کی شرح، جو پرامن آزادی سے پہلے 95 فیصد سے زیادہ تھی،

بنیادی طور پر آج ختم کر دی گئی ہے، اور ایک 15 سالہ عوامی مالی اعانت سے چلنے والا تعلیمی نظام  قائم کیا گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ شی زانگ کے وسیع و عریض اور کم آبادی والے علاقوں میں بچوں  کو اسکول جانے میں دشواری کے مسئلے کو  حل کرنے کے لیے کچھ  اسکولوں نے طلبا کے لیے بورڈنگ سروسز فراہم کی ہیں۔بے شک وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بورڈنگ جائیں گے یا نہیں۔ اس طرح کی بورڈنگ تعلیم صرف شی زانگ میں ہی نہیں بلکہ چین کے دیگر صوبوں اور دنیا کے تمام ممالک میں بھی دستیاب ہے۔لیکن کچھ مغربی ممالک نے اسی معاملے کو شی زانگ میں انسانی حقوق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

“شی زانگ اس سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے جتنا میں تصور کر سکتا تھا، اور یہاں کے لوگ بہت جدید زندگی گزار رہے ہیں”۔ یہ بات پاکستان کے سٹی نیوز نیٹ ورک کے سینئر رپورٹر علی عباس نے شی زانگ کے دورے کے بعد کہی۔ کچھ مغربی ممالک میں چین مخالف قوتوں نے علیحدگی پسندی اور تخریب کاری کی آڑ میں شی زانگ میں انسانی حقوق کے مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔لیکن  شی زانگ میں انسانی حقوق  کی صورتحال ابھی ہے یا نہیں اس حقیقت کا  جواب  اعداد و شمار نے  دے دیا ہے۔یہ اعداد و شمار لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سب کچھ بتا رہے ہیں اور کوئی جھوٹا بیانیہ  انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیوں کو  چھپا نہیں سکتا ۔

متعلقہ مضامین

  • عزیقہ ڈینیل کا شوبز انڈسٹری میں مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کا انکشاف
  • چینی حکومت کا میانمار کو ہنگامی انسانی امداد کی مد میں 100 ملین یوآن فراہم کرنے کا فیصلہ
  • بھارتی حکومت نے ایک بار پھر جامع مسجد اور عیدگاہ سرینگر میں نماز عید ادا کرنے کی اجازت نہیں دی
  • آپس میں بھائی چارے کو فروغ دینا ہے تاکہ ملک خوشحال ریاست کے طور پر ابھرے:صدر مملکت کا قوم کو عید کی مبارکباد کا پیغام
  • شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیاں کسی  جھوٹے بیانیے سے  چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا
  • سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی  لاوارث شہر: حافظ نعیم 
  • دہشتگردی کیخلاف قومی اتفاق رائے کی ہر کوشش کا خیر مقدم کریں گے، رانا ثنا اللہ
  • سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث شہر بنا دیا گیا ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کراچی لاوارث شہر بنا دیا گیا ہے، حافظ نعیم