ہزاروں شہریوں کو عید پر گھر پہنچانے والے ڈرائیوروں کی عید کیسی ہوتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
عید کے موقع پر ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عید آبائی علاقے میں اپنوں کے درمیان عید منائے، کراچی میں روزگار کے لیے آئے پورے پاکستان سے شہری بھی کوشش کرتے ہیں کہ عید اپنے اپنے آبائی علاقوں میں منائیں۔
صاحب حیثیت جہاز کے ذریعہ یہ سفر کرتے ہیں، عام شہری بذریعہ ٹرین یا روڈ اپنی منزل کی طرف جاتے ہیں، اور ان کو پہنچانے والے ڈرائیور ہوتے ہیں جو دن رات ایک کرکے لوگوں کو ان کے اپنوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرائیور ثناء اللہ خان ہیں جو کراچی سے پنجاب تک بس چلاتے ہیں اور گزشتہ 25 برس سے ڈرائیونگ سے جڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ عید کہاں آجائے، لیکن کوشش ہوتی ہے کہ شہریوں کو ان کے علاقوں تک پہنچائیں تا کہ وہ اپنوں میں عید مناسکیں۔
ڈرائیور ثناء اللہ خان کے مطابق وہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور اکثر عید اپنوں سے دور منانی پڑتی ہے جس کے لیے ان کے پاس کپڑے موجود رہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لمبے روٹ کے لیے ہم عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کے گانے سنتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
خواتین پر جنسی مظالم میں اضافی اور عدلیہ کا کردار؟
ڈاکٹر سلیم خان
کمبھ کرن کی نیند سونے والے سپریم کورٹ کو ایک گیارہ سالہ بچی کی چیخ نے جگا دیا ۔ جسٹس بھوشن رام کرشن گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے کہا کہ وہ عام طور پرہائی کورٹ کے کسی جج پر تبصرہ نہیں کرتے ، لیکن اس معاملے میں انہیں بڑی تکلیف سے کہنا پڑتا ہے کہ الہ باد ہائی کورٹ کے جج رام منوہر نارائن مشرا کا رویہ نہایت غیرحساس تھا۔ یوگی کے رام راج برہمن جج نے چہرے سے شرافت کی نقاب ہٹا کر پھینکی تو کالا منہ سامنے آگیا اور سالیسٹرجنرل تشارمہتاکو کہنا پڑا کہ کچھ فیصلوں پرروک لگانا ضروری ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ کے مطابق اس فیصلے کے پیراگراف 24، 21 اور26 میں لکھی گئی باتوں سے بہت غلط پیغام گیا ہے اس لیے مشرا جی کو مستقبل میں حساس مقدمات سے روک دیا گیا حالانکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ انہیں قانون دھجیاں اڑانے کے عوض جیل بھیج دیاجاتا ۔عدالتِ عظمی کے مطابق قانون کے نظریے سے غلط اورغیرانسانی فیصلہ اچانک نہیں آیا بلکہ 4 ماہ محفوظ رکھنے کے بعد اسے سنایا گیا ۔ اس فیصلے پرروک لگا نے کے بعد مودی اور یوگی سرکاروں کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے ۔ اس مقدمہ کی تفصیل دیکھنے کے بعد عوام کاآئی سی یو میں داخل عدلیہ کی نبض ٹٹولنا واجبی امر ہوجاتا ہے ۔
یوگی بابا کے صوبے کی سب سے بڑی عدالت کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ملزمان پون اور آکاش کے خلاف لگائے گئے الزاماتمیں کیس کے حقائق عصمت دری کی کوشش کے جرم کو ثابت نہیں کرتے ۔ عدالت کے مطابق عصمت دری کی کوشش کا الزام ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ملزم کی کارروائی تیاری کے مرحلے سے آگے بڑھ چکی تھی، جو کہ اس کیس میں واضح نہیں ہوتی ۔ اس لیے یہ حرکت ‘بڑھتی ہوئی جنسی زیادتی’ کے ابتدائی جرائم کے تحت آتی ہیں۔ ایک غریب کی بیٹی کے بجائے یہ زیادتی اگر مشراجی کے خاندان بلکہ برادری کی کسی لڑکی کے ساتھ ہوتی تو وہ اتنے بے حس نہیں ہوتے ۔ ججوں کے گھر پر بوریوں بھرے روپیوں کا راز اس فیصلے میں چھپا ہے ۔ ملک کے اندر خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم کا سبب یہ فیصلہ بیان کرتا ہے ۔
الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کے مطابق کسی بچی کی شرم گاہ کو چھونا، اس کے ازاربند کو توڑنا اور اسے پُل کے نیچے کھینچنے کی کوشش کرنا عصمت دری یا عصمت دری کی کوشش کے زمرے میں نہیں آتا۔ان کے مطابق ملزم پون اور آکاش پر لگائے گئے الزامات اور معاملے کے حقائق سے عصمت دری کی کوشش کا کیس ہی نہیں بنتا ۔ عدالت نے کہا کہ عصمت دری کی کوشش کا الزام لگانے کے لیے استغاثہ کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ یہ تیاری کے مرحلے سے آگے نکل گیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیاری اور جرم کرنے کی کوشش کے بیچ فرق کیسے کیا جائے ؟ تو مشرا جی کے مطابق بنیادی طور پر نیت اور ارادے کی پختگی کا فرق ہے ۔ جسٹس مشرا نے کس آلہ سے ملزمین کے دل کے اندر جاکر ان کی نیت اور ارادے کا پتہ لگایا یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ بقول مولانا حسرت موہانی
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
پون اور آکاش جیسے درندوں کے مظالم کا شکار بچی راہگیروں کی مداخلت کی وجہ سے بچ گئی۔ اس نے اپنی ماں کے ساتھ شور مچایا تو وہ خونخوار وحشی متاثرہ کو چھوڑ کر فرار ہو گئے ۔ٹرائل کورٹ نے اسے عصمت دری کی کوشش یا پوکسو ایکٹ کے تحت جنسی حملے کی کوشش بتا کر دفعہ 376 آئی پی سی اور دفعہ 18 پوکسو ایکٹ کے تحت احکامات جاری کیے ۔ ملزمان نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کے مطابق بھی دفعہ 376 کے تحت جرم ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ کیس دفعہ 354 یا 354-B آئی پی سی اور پوکسو ایکٹ کی متعلقہ دفعات تک محدود ہے ۔ عدالت عالیہ نے الزامات اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ ریکارڈ میں متاثرہ پر عصمت دری کے ارادے کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر برا ارادہ نہیں تھا تو کیاان بدمعاشوں نے ہ ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے لیے ایسی غلیظ حرکت کی تھی ؟
عدالت نے کہا کہ شکایت یا گواہوں کے بیانات میں چونکہ ملزم آکاش کے پاجامے کی ڈوری توڑنے کے بعد خود کویا متاثرہ کو مکمل طور پر برہنہ کرنے کی کوشش کی بات نہیں ہے اس لیے ان کا جرم کم ہوجاتا ہے ۔کیا عدالت نہیں جانتی کہ پاجامے کی ڈوری کیوں توڑی جاتی ہے ؟ اور اگر شور شرابے پر راہگیر مداخلت نہ کرتے تو بعید نہیں کہ اس لڑکی کی عزت لوٹ کر اسے قتل کردیا جاتا۔ اس کے بعد عدالت کو فیصلہ کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑتی۔ سوال یہ کہ کیا ارادۂ قتل اور وارداتِ قتل میں کوئی فرق نہیں ہے ؟اپنی آنکھوں پر دولت یا عصبیت کی پٹی باندھنے والی عدالت کوملزم آکاش کے جنسی حملے کی کوشش کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔ اس لیے عصمت دری کی کوشش کا مقدمہ نہیں بنا۔عدالت نے ملزمان کے خلاف دفعہ 354-B آئی پی سی (عورت کو برہنہ کرنے کے ارادے سے حملہ) اور پوکسو ایکٹ کی دفعہ 9 ایم جو 12 سال سے کم عمر بچے پر جنسی حملے کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دے کر پہلے ہی مرحلے میں مقدمہ اس قدر کمزور کردیا ہے کہ آگے چل کر بری ہونے کی راہ ہموار ہو چکی ہے ۔
عدلیہ اگر سفاک درندوں کو قرار واقعی سزا دینے کے بجائے تحفظ کرنے پر تُل جائے تو اس کے نتیجے میں وہی ہوتا ہے جو اس ماہ اترپردیش کے پریاگ راج (سابقہ الٰہ آباد) میں ہوا۔ وہاں دو دن سے لاپتہ 21 سالہ طالبہ کے لاش ایک گاؤں میں درخت سے لٹکی ہوئی ملی مگر اس کی دونوں آنکھیں نکال لی گئی تھیں۔ مقتولہ بی اے فرسٹ ایئر میں پڑھتی تھی۔ وہ 16 مارچ کی صبح سے غائب تھی۔ تلاش بسیار کے بعد اس کے گھر والوں نے 17 مارچ کو مقامی پولیس تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ 18 مارچ کو اس کی لاش اسی کے دوپٹے سے ایک درخت سے لٹکی ہوئی پائی گئی ۔ لاش برآمد ہونے کے بعد گھر والوں نے گاؤں کے ایک نوجوان پر عصمت دری اور قتل کا الزام لگادیا ۔ پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد مزید کارروائی کرنے کی بات کر رہی ہے لیکن عدالت اگر جج صاحب کے گھر میں پڑی بوریوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سارے شواہد سے آنکھیں موند کرملزمین کو رہا کردے تو کوئی کیا کرسکتا ہے ؟
یوگی ادیتیہ ناتھ سینہ ٹھونک کر اترپردیش کو جرائم سے پاک کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن خود ان کی مرکزی سرکار جب این سی آر بی کی رپورٹ جاری کرتی ہے تو ان کے بڑبولے پن کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ خواتین پر مظالم کا معاملہ ساری ڈبل انجن سرکاروں کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے ۔ منی پور میں حالات خراب ہوئے تو خواتین اس کا سب سے زیادہ شکار ہوئیں۔مرکزی و ریاستی سرکاروں نے اس کے تئیں بدترین بے حسی کا مظاہرہ کیا تو بحالتِ مجبوری سپریم کورٹ کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنی پانچ ججوں کی ٹیم روانہ کرنی پڑی ہے ۔ فی الحال چونکہ وہاں صدر راج نافذ ہے اس لیے یہ فیصلہ مرکزی حکومت کے گال پر زوردار طمانچہ ہے ۔ مہاراشٹر کے اندر دن دہاڑے پونے جیسے ریاست کی ثقافتی راجدھانی میں بس کے اندر ایک کنڈکٹر عصمت دری کا ارتکاب کرتا ہے ۔ سابق ریاستی وزیر ایکناتھ کھڑکی بہو اور مرکزی وزیر رکشا کھڑسے کو اپنی بیٹی کے ساتھ چھیڑخوانی کی شکایت کرنے کے لیے پولیس تھانے میں شکایت درج کروانا پڑتا ہے ۔ سوچنے والی بات ہے کہ اگر نہایت طاقتور سیاسی خاندان کی خواتین غیر محفوظ ہیں تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
ناگپور میں چار سال قبل بامبے ہائی کورٹ کی بنچ نے ایک بچی کوجنسی ہراساں کیے جانے کے لیے پاکسو اور آئی پی سی کے تحت قصوروار ٹھہرائے گئے ملزم کو پاکسو سے بری کرتے ہوئے کہا کہ اسکن ٹو اسکن کانٹیکٹ کے بنا کسی واردات کو جنسی حملہ نہیں مانا جائے گا۔ بامبے ہائی کورٹ کی ایک خاتون جج جسٹس پشپا وی گنیڈیوالا نے ملزم ستیش بندھو رگڑے کے خلاف نچلی عدالت کی سزا کو منسوخ کرکے بری کردیا تھا ۔موصوفہ نے کہا تھا کہ ‘یہاں کوئی براہ راست جسمانی رابطہ یعنی کسی جنسی ارادے سے کوئی اسکن ٹوا سکن کانٹیکٹ نہیں ہوا ہے ۔ان کے مطابق چونکہ استغاثہ متاثرہ کا اوپری کپڑا ہٹاکر چھاتی کو دبانے یا کپڑوں کے اندرہاتھ ڈال کر چھاتی دبانے ثبوت نہیں پیش کرسکا اس لیے اسے ‘جنسی ہراسانی’ نہیں کہا جا سکتا۔ وہاں بھی عدالت نے بچی کے ذریعہ سلوار نکالنے کی کوشش کے الزام کو نظر انداز کردیا تھا۔ عصمت دری جیسے سنگین جرائم میں اس طرح نرمی برتی جائے گی تو خواتین پر ہونے والے مظالم میں کیسے کمی آئے گی ؟ ویسے سپریم کو رٹ حالیہ مداخلت قابلِ تعریف ہے اور امید ہے کہ اس سے عدالتِ عالیہ آگے احتیاط برتتے ہوئے حساسیت و ہمدردی کا ثبوت دیں گی۔