میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے پولیس مین نے روک لیا‘ اس کا پہلا سوال تھا ’’فارن آر لوکل‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’فارنر اینڈ ٹوریسٹ‘‘ اس نے مجھ سے پاسپورٹ مانگ لیا‘ میں نے پاسپورٹ اس کے حوالے کر دیا‘ اس نے پاسپورٹ کا معائنہ کیا‘ ویزے کا جائزہ لیا‘ موبائل سے پاسپورٹ کے پہلے صفحے کی تصویر کھینچی اور اس کے بعد پوچھا ’’کارڈ آر کیش‘‘.
میں نے حیران ہو کر سوال کیا ’’کیا مطلب‘ میں کیش یا کارڈ کیوں دوں گا؟‘‘ وہ مسکرایا‘ بیلٹ کے ساتھ لٹکی مشین اتاری اور بٹن دبایا‘ مشین سے چررچرر کی آواز آئی‘ رسید نکلی اور اس نے وہ رسید میرے ہاتھ میں پکڑا دی‘ رسید پر جلی حروف میں 45 یورو لکھا تھا‘ میں نے رسید دیکھی اور اس سے پوچھا‘ یہ رسید کس چیز کی ہے اور دوسرا پولینڈ کی کرنسی زلوٹی ہے لیکن تم نے رسید مجھے یوروز میں دی‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’تم نے سڑک غلط جگہ سے پار کی تھی‘ پولینڈ میں زیبرا کراسنگ کے علاوہ سڑک پار کرنا جرم ہے اور یہ اس کا جرمانہ ہے‘ دوسرا لوکل شہریوں کو لوکل کرنسی میں جرمانہ ہوتا ہے اور فارنرز کو یوروز میں‘‘میں نے گھبراہٹ سے کہا ’’مجھے اس رُول کا پتا نہیں تھا‘ میں صرف وزٹ کرنے کے لیے پولینڈ آیا ہوں‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا تمہارے ملک میں زیبرا کراسنگ نہیں ہیں‘‘
میں نے شرما کر جواب دیا ’’ہیں لیکن وہاں درمیان سے سڑک پار کرنے پر جرمانہ نہیں ہوتا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور پھر بولا ’’ پھر تم لوگوں کو زیبرا کراسنگ پر پیسہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ وہ رکا اور بولا ’’تمہیں بہرحال جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘
ہمارا رُول‘ رُول ہے‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’میں سیاح ہوں‘ فرض کرو میرے پاس جرمانے کی رقم نہیں ہے‘ تم پھر مجھ سے یہ رقم کیسے وصول کرو گے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’میں تمہارا پاسپورٹ لے جاؤں گا‘ تم رقم کا بندوبست کرو گے‘ جرمانہ ادا کرو گے اور پولیس اسٹیشن سے پاسپورٹ وصول کر لو گے۔
لیکن اس میں تمہارا بہت سا وقت اور انرجی ضائع ہو جائے گی لہٰذا بہتر یہی ہے تم جرمانہ یہیں ادا کر دو‘‘ میں نے مسکرا کر کہا ’’اور اگر میں اس کے باوجود جرمانہ ادا نہ کروں تو پھر‘‘ اس کا جواب تھا ’’ہم تمہیں ڈیفالٹر اور مجرم قرار دے دیں گے اور تم اس کے بعد شینجن ویزہ حاصل کر سکو گے اور نہ یورپ آسکو گے‘‘۔
وہ رکا اور اس کے بعد پوچھا ’’سر آپ کے پاس دو آپشن ہیں‘ جرمانہ ادا کریں یا پھر میں آپ کا پاسپورٹ تھانے جمع کرا دوں‘ آپ جلدی فیصلہ کریں‘‘ میں نے خاموشی سے کریڈٹ کارڈ اس کے حوالے کر دیا‘ اس نے کارڈ مشین کے ساتھ ٹچ کیا‘ اس میں سے 45 یوروز کی رسید نکلی‘ اس نے رسید اور پاسپورٹ دونوں میرے حوالے کیے‘ مجھے سلیوٹ کیا اور روانہ ہو گیا۔
یہ واقعہ وارسا میں پیش آیا تھا‘ میں نے درمیان سے سڑک پار کر لی تھی اور پولیس مین نے مجھے روک کر ٹھیک ٹھاک جرمانہ ٹھوک دیا تھا‘ اس نوعیت کادوسرا واقعہ سوئٹزر لینڈ میں بھی پیش آیا‘۔
میں نے جرمنی سے اپنے ایک دوست کی گاڑی لی اور ڈرائیو کرتا ہوا سوئٹزر لینڈ میں داخل ہو گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا‘ سڑک خالی تھی‘ درو دور تک کوئی گاڑی نہیں تھی تاہم میرے پیچھے ایک گاڑی آ رہی تھی‘ میں مزے سے ڈرائیو کر رہا تھا‘ اچانک پچھلی گاڑی تیز ہوئی‘ مجھے کراس کیا‘ آگے نکلی اور سائرن کی آوازیں آنے لگیں‘ مجھے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے گاڑی سائیڈ پر روکنے کا حکم دیا گیا‘۔
میرے پیچھے آنے والی گاڑی پولیس کی تھی اور وہ پچھلے ساٹھ ستر کلومیٹر سے میرا پیچھا کر رہی تھی‘ میں نے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کر دی‘ پولیس کار سے دو پولیس اہلکار نکلے‘ ایک پستول لے کر اپنی گاڑی کے پاس کھڑا ہو گیا جب کہ دوسرا میرے پاس آگیا‘۔
میرے دونوں ہاتھ گاڑی کی چھت کے ساتھ لگوائے گئے‘ گاڑی کی تلاشی لی گئی‘ میرا منہ سونگھا گیا اور مکمل تسلی کے بعد مجھے بتایا گیا‘ تم پچھلے 60 کلو میٹر سے مسلسل اووراسپیڈ ہو لہٰذا تمہارے پاس دو آپشن ہیں تم اور گاڑی دونوں تھانے میں بند ہوجائیں یا پھر تم جرمانہ ادا کر دو‘ میں نے ظاہر ہے جرمانے کی حامی بھر لی‘ پولیس مین میرا پاسپورٹ لے کر گاڑی میں گیا اور ہزار سوئس فرینک کی رسید لے کر واپس آ گیا‘۔
میرے ہاتھوں کے تمام طوطے اڑ گئے‘ ہزار سوئس فرینک اس زمانے میں لاکھ روپے بنتے تھے (آج یہ تین لاکھ 17 ہزارکے برابر ہیں) میں انھیں آدھا گھنٹہ اپنے پردیسی ہونے‘ غریب سیاح ہونے اور بے وقوف ہونے کی یقین دہانی کراتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے لہٰذا مجھے انھیں ہزار فرینک جرمانہ ادا کرنا پڑ گیا‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں سوئٹزرلینڈ میں پیدل چلتے ہوئے بھی احتیاط کرتا ہوں۔
آپ اگر دنیا کے کسی ملک کے لاء اینڈ آرڈر‘ انصاف اور اخلاقیات کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ صرف اس کی سڑکیں دیکھ لیں‘ آپ کو پورا معاشرہ اور اس کا نظام آئینے کی طرح صاف دکھائی دے گا‘ آپ یقین کریں ریاست سڑک سے اسٹارٹ ہوتی ہے اورسڑک پر ہی ختم ہوتی ہے‘ اگر سڑکیں صاف ہیں اگر ٹریفک قاعدے سے چل رہی ہے اور اگر لوگ سلیقے سے گاڑیاں چلا رہے ہیں تو پھر اس ملک کے عوام بھی مہذب ہیں‘ قانون بھی سخت ہے‘ عدالتوں میں بھی انصاف ہے اور وہ ریاست بھی ہارڈ ہے۔
لیکن اگر آپ کو سڑکوں پر ڈسپلن‘ سلیقہ اور ٹریفک رولز کی پابندی نظر نہیں آتی تو پھر آپ آنکھیں بند کر کے اعلان کر دیں یہ ریاست سافٹ بھی ہے اور نالائق بھی ‘ میں دو تہائی دنیا دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں ہمارا ملک اول ریاست نہیں ہے‘ یہ صرف لوگوں کا ہجوم ہے‘ دوم ہم پانی کی طرح سافٹ ہیں‘ ہمیں جس طرف نشیب نظر آتا ہے ہم اس طرف بہہ جاتے ہیں اور اس بہاؤ کے دوران ہم یہ بھول جاتے ہیں ہمارا رخ چند لمحے قبل کس طرف تھا۔
ہمارے ملک میں بدقسمتی سے شخصی نظام ہے‘ ایک شخص بدلتا ہے تو پورے ملک کا مزاج بدل جاتا ہے‘ ہمارا آئین اور ہمارے ملی نغمے اور نعرے تک بدل جاتے ہیں‘ ہم مجاہدین کو خارجیوں اور خارجیوں کو مجاہدین میں تبدیل کرتے دس منٹ نہیں لگاتے‘ انڈیا کبھی ہمارا دشمن ہو جاتا ہے اور کبھی دوست‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری کبھی سیکیورٹی رسک بن جاتے ہیں اور کبھی ملک کے محافظ اور محب وطن اورہم کبھی عمران خان کو سرٹیفائیڈ صادق اور امین بنا دیتے ہیں اور کبھی اشتہاری۔
آپ ذرا ریاست کی سافٹ نس ملاحظہ کیجیے‘ ہم کبھی اسے ریاست مدینہ بنا دیتے ہیں اور کبھی اسے جنرل مشرف کی ان لائیٹینڈ ماڈریشن میں تبدیل کر دیتے ہیں‘ میں بہرحال ناقابل یقین حد تک پرامید شخص ہوں چناں چہ پچھلے نعروں کی طرح اس بار بھی ریاست کے بیانیے پر یقین کر رہا ہوں۔
موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ریاست کو ہارڈ اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں‘ میں ان پر بھی اسی طرح یقین کر رہا ہوں جس طرح میں نے جنرل باجوہ‘ جنرل مشرف اور جنرل ضیاء الحق پر کیا تھا‘ میں دل سے یہ بھی سمجھتا ہوں ریاست کو کسی بھی حال میں خالہ جی کا ویڑہ (صحن) نہیں ہونا چاہیے کہ جس وقت جس کا دل چاہے وہ منہ اٹھا کر جدھر چاہے گھس جائے اور جس طرف سے چاہے نکل جائے۔
ہم سے جو ملک جو مجرم یا قیدی مانگے ہم اسے اس کے حوالے کر دیں اور وہ بعدازاں وزیراعظم بن کر واپس آجائے اور باہر بھجوانے والے اسے لائین میں لگ کر سیلوٹ کریں‘ ہمیں ہارڈ اسٹیٹ ہونا چاہیے لیکن جنرل صاحب یہ یاد رکھیں ریاست سڑک سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور سڑک پر ختم ہوتی ہے اور جس دن کوئی قوم ریاست کو سڑک پر ہارڈ کرلیتی ہے اس دن اس کی سرحدیں بھی ہارڈ ہو جاتی ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی کوئی سڑک ہارڈ نہیں ہے لہٰذا ہم سر تاپا سافٹ ہیں چناں چہ ہم زیادہ نہ کریں ہم بس 20 کلومیٹر اور 20 لاکھ لوگوں کے شہر اسلام آباد کو ہارڈ اسٹیٹ کا پائلٹ پروجیکٹ بنالیں‘ ہم صرف وفاقی دارالحکومت کی ٹریفک کنٹرول کر لیں‘ ہم یہ فیصلہ کر لیں‘ اسلام آباد میں کوئی شخص لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ نہیں کر سکے گا‘۔
ڈرائیونگ لائسنس شناختی کارڈ سے منسلک ہوگا اور یہ پوائنٹ بیس ہو گا‘ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی سے پوائنٹس ڈاؤن ہوتے چلے جائیں گے اور یوں آخر میں شناختی کارڈز‘ پاسپورٹ اور بینک اکاؤنٹس بلاک ہو جائیں گے اور مجرم پراپرٹی خرید سکے گا اور نہ نوکری کر سکے گا‘۔
اسلام آباد میں کوئی موٹر سائیکل سوار اور اس کے پیچھے بیٹھا ساتھی ہیلمٹ کے بغیر نہیں ہوگا‘ کسی موٹر سائیکل پر تیسری سواری نظر نہیں آئے گی اور اگر آئے گی تو تینوں چھ ماہ جیل میں گزاریں گے اور ان سے جیل میں رہائش کا کرایہ بھی وصول کیا جائے گا۔
تمام سڑکوں پر ٹریفک کیمرے لگے ہوں گے‘ اوور اسپیڈنگ کا جرمانہ 20 ہزار روپے سے اسٹارٹ ہو گا‘ شہر میں 20 سال پرانی گاڑی نہیں چل سکے گی‘ گاڑیوں کا مینٹیننس سر ٹیفکیٹ اور انشورنس لازم ہو گی‘ اس میں کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔
دھواں پھینکنے والی گاڑی تیسری وارننگ کے بعد ہمیشہ کے لیے ضبط کر لی جائے اور زیبرا کراسنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے سڑک کراس کرنے والوں کو کم از کم پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا جائے اور تیسری مرتبہ جرم دہرانے پر قید یا سال بھر کے لیے شناختی کارڈ ضبط کر لیا جائے۔
آپ یقین کریں سال دو سال میں اسلام آباد ہارڈ سٹی بن جائے گا اور جس دن یہ شہر ہارڈ سٹی بن گیا اس دن پوری ریاست ہارڈ اسٹیٹ بننا شروع ہو جائے گی لیکن اگر ہم اپنی رٹ 20 کلومیٹر کے اس شہر پر نافذ نہ کر سکے تو پھر ہم قیامت تک سات لاکھ مربع کلومیٹر کی ریاست کو ہارڈ اسٹیٹ نہیں بنا سکیں گے چناںچہ جنرل صاحب پلیز اسلام آباد کی سڑکوں سے اسٹارٹ لیں‘ ہم اگریہاں کام یاب ہو گئے تو پورے ملک میں ہو جائیں گے ورنہ پھر بھول جائیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر جواب دیا ہارڈ اسٹیٹ اسلام آباد سے اسٹارٹ ریاست کو جائے اور جاتے ہیں اور کبھی ہیں اور ہوتی ہے گے اور اور اس کے بعد ہے اور تو پھر
پڑھیں:
آپس میں بھائی چارے کو فروغ دینا ہے تاکہ ملک خوشحال ریاست کے طور پر ابھرے:صدر مملکت کا قوم کو عید کی مبارکباد کا پیغام
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے عید الفطر 1446 ھ بمطابق 2025 کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ میں پوری قوم اور عالم اسلام کو عید الفطر پر دلی مبارک باد دیتا ہوں، خوشی کا یہ دن ہمیں رمضان المبارک کی برکتوں، عبادات اور تقویٰ کے سفر کے بعد نصیب ہوتا ہے۔عیدالفطر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے جو اللہ نے ہمیں روزے کی مشقت پر عطا کیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ عیدالفطر کے موقع پر ہمیں اپنے ان بہن بھائیوں کو یاد رکھنا چاہیے جو معاشی مشکلات کا شکار ہیں، اصل خوشی دوسروں کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنے میں ہے اور ہمیں چاہیے کہ زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ بڑھ چڑھ کر ادا کریں تاکہ کوئی بھی ضرورت مند عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔ یہ دن ہمیں اتحاد اور یک جہتی کا بھی درس دیتا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور پاکستان کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں آپس میں بھائی چارے کو فروغ دینا ہے تاکہ ہمارا ملک ایک مضبوط اور خوش حال ریاست کے طور پر ابھرے۔
ملک بھر میں عید الفطر مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے،نماز ِعید کے روح پرور اجتماعات ، امت مسلمہ کی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ اس موقع پر میں اہل مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد آزادی کے ساتھ عید نصیب فرمائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزے اور عبادات قبول فرمائے اور پاکستان کو امن اور خوش حالی کی راہ پر ڈال دے۔ آمین!
مزید :