ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن یہ لفظ اپنے اندر کل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ہر رشتے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے مگر ماں کی محبت ناقابل ِ بیاں ہے۔ ماں کی عظمت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ بھی انسان سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے ماں ہی کو مثال بناتا ہے۔ ماں مجسم محبت اور تحفظ ہے۔
میری والدہ محترمہ29رمضان المبارک 2015) ( جمعتہ الوداع کو تہجد کے وقت اس جہاں فانی میںایک سو ایک سال چھ ماہ اور سولہ دن گزار کر ابدی زندگی کے لیے روانہ ہوئیں۔رب ذوالجلال و اکرام ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کی بلندی سے نوازے( آمین)۔ ماں سے جدائی ایک ایسا خلا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔
ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کا نعم البدل کوئی نہیں۔اولاد کی جنت ماں کے قدموں میں قرار دی گئی ہے۔ایک صاحب نظربتا رہے تھے کہ ’’حسد کی آگ کو کوئی وظیفہ نہیں کاٹ سکتا، حتیٰ کہ مرشد کی دعائیں بھی حسد کا علاج نہیں، لیکن ماں کی دعا میں یہ تاثیر ہے کہ وہ حسد کی آگ کو بھی بجھا سکتی ہے۔
محدثین نے بیان کیا ہے کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا، میری ماں چھ سال کی عمر میںرحلت فرما گئیں۔ اگروہ زندہ ہوتیں اور مجھے کسی کام سے آواز دے کر بلاتیں اور میں نماز کی ادائیگی کر رہا ہوتا تو نما زتوڑ کر ان کی بات سنتا ۔پھر آ کر دوبارہ نما زکی نیت کرتا۔نبی پاکﷺ کا یہ فرمان ماں کے درجے اور اس ہستی کے احترام کے لیے ابدی پیغا م ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے ایک بار اﷲ تعالی سے عرض کی کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ارشاد ہوا فلاں قصاب ہوگا۔ آپ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے۔ آپ نے دیکھا کہ اس قصاب نے جب اپنا کاروبار ختم کرلیا تو نرم گوشت کے ایک ٹکرے کو کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
حضرت موسی علیہ السلام نے بطور مہمان اس کے گھر چلنے کی اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایااور روٹی کے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔
قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک ایک لقمہ کر کے اسے کھانا کھلایا اور اس کا منہ صا ف کیا۔ بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آگیا۔ حضرت موسی علیہ السلام یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔
آپ نے قصاب سے پوچھا، یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں ایسا کیا کہا کہ جس پر تو مسکرادیا؟ قصاب بولا ، یہ بوڑھی عورت میری ماں ہے۔ گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں۔ یہ روز خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اﷲ تجھے جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اﷲ کہاں۔
بوعلی سینا نے کہا اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ، تب میری ماں نے کہا، مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔ ماں خود بھوکا رہ کر اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتی ہے ۔ سر د راتوں میں جب اس کا بچہ بستر گیلا کردیتا ہے، وہ ساری رات گیلی جگہ پر سوجائے گی لیکن اپنے بچے کو خشک جگہ پر سلائے گی۔ والدین جب بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو اولاد کی اصل آزمائش ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوش نصیب کہلاتے ہیں جنھیں والدین کی خدمت کا موقعہ ملے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے جو رشتے بنائے ہیں، ان میں سب سے عظیم رشتہ ماں ہی کا ہے۔ رشتے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ہمیں پیدائش سے ہی وراثت میں ملتے ہیں۔ پیدائشی رشتے خون کے رشتے ہوتے ہیں۔ دوسرے رشتے ہم خود بناتے ہیںجن میں ہمارے دوست، ہم جماعت وغیرہ۔ ضروری ہے کہ ہم ان رشتوں کا احترام کریں اور خصوصاً ماں کے رشتے کا ۔
مفسرین کا کہناہے کہ اگر والدین اس عمر کو پہنچ جائیں کہ جب وہ چلنے اور بولنے کی سکت کھو دیں تو یہ ایام اولاد کے لیے انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ان ایام میں ان کی خدمت اور خیال دین اور دنیا ،دونوں جہانوں میں اولاد کے لیے انعام و اکرام کو بڑھا دیتا ہے۔ ان ایام میں ماں،باپ کے حضور حاضری بھی آپ کے مسائل اور مشکلات کو کم کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کے لائق رکھے۔(آمین)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حضرت موسی علیہ السلام اور اس کے لیے
پڑھیں:
نفرت انگیزی کا مرض اور ولی دکنی کا مزار
ہندوستان میں انتہاپسند مطالبہ کررہے ہیں کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی قبر مسمار کردی جائے، پہلے بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ ریلیز ہونے کے بعد ان میں شدت آگئی ہے۔ اس فلم میں مغل بادشاہ اورنگزیب کو ایک سفاک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں اورنگزیب کے کردار پر بحث نئی نہیں لیکن فلم ‘چھاوا’ کی ریلیز کے بعد اس بحث کو سیاسی اور مذہبی رنگ دیا جارہا ہے۔ اسے بنیاد بنا کر نفرت انگیزی کا بازار گرم ہے اور کہیں کہیں تو نوبت پُرتشدد مظاہروں تک جا پہنچی ہے۔ ناگپور میں مشتعل افراد کے جلاؤ گھیراؤ کے بعد گزشتہ دنوں کرفیو لگانا پڑا اور مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے فرمایا: ‘اورنگزیب کی تعریف کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’
مودی سرکار فلم ‘چھاوا’ کی پشت پناہی کررہی ہے جس کے بعد نفرت کی یہ تازہ لہر اٹھی ہے۔ قرائن اور بی جے پی کے ماضی کو ذہن میں رکھا جائے تو اب کی بار بھی وہ اس کشیدگی سے سیاسی فائدہ کشید کرے گی۔
اورنگزیب کے مقبرے کے ڈھانے سے متعلق خبریں پڑھ کر مجھے 2002 میں نریندر مودی کے زیرِ نگیں گجرات میں منظم مسلم کش فسادات کا خیال آیا جس میں ہندو بنیاد پرستوں نے احمد آباد میں اردو غزل کے بنیاد گزار شاعر ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے دم لیا تھا۔ ولی کی یہ یادگار شہر کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا مظہر تھی۔ فروری 2002 میں پیش آنے والا یہ قابلِ مذمت اور افسوس ناک واقعہ فکشن اور نان فکشن کا موضوع بنا جس کے بہت سے حوالے میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔
ان فسادات پر نندتا داس کی فلم ‘فراق’ بھی کبھی نہیں بھولتی جس میں ولی کےمزار کے انہدام کے مسئلے کو ایک ارادت مند کی جذباتی وابستگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔
فکشن کی جہاں تک بات ہے تو سب سے پہلے ارندھتی رائے کے ناول ‘بے پناہ شادمانی کی مملکت’ کی طرف دھیان جاتا ہے جسے معروف مترجم ارجمند آرا نے نہایت کامیابی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی مرتبہ 2018 میں ادبی جریدے ‘آج’ کے خصوصی شمارے(103) میں شائع ہوا تھا۔
ناول میں دلی کے مشہور ہیجڑے انجم کی حضرت نظام الدین اولیا سے عقیدت کا تذکرہ ہے جو اپنے والد کے دوست ذاکر میاں کے ساتھ اجمیر شریف اور پھر وہاں سے احمد آباد میں ولی دکنی کے مزار کی زیارت کا پروگرام ترتیب دیتی ہے۔
انجم کے والد، ملاقات علی ولی دکنی کے بڑے مداح تھے۔
انہیں ولی کا یہ شعر بہت پسند تھا :
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
ناول میں صرف ایک شعر ہے یہاں اس غزل کے مزید شعر دیکھیے:
نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
ہر اک وقت مجھ عاشق پاک کوں
پیاری تری بات پیاری لگے
ولی کوں کہے تو اگر یک بچن
رقیباں کے دل میں کٹاری لگے
انجم اور ذاکر میاں اجمیر سے احمد آباد روانہ ہوئے تو گجرات میں دنگے شروع ہوگئے تھے جن کے بیان میں ولی کے مزار کی توہین کاواقعہ بھی ناول میں آجاتا ہے:
‘ولی دکنی کا مزار منہدم کرکے برابر کردیا گیا ہے اور اس کے اوپر تارکول کی سڑک بنا دی گئی ہے، ایسی ہر نشانی مٹا دی گئی ہے جس سے یہ پتا چل سکے کہ اس کا کوئی وجود بھی تھا۔ پولیس، جنونی ہجوم اور وزیراعلیٰ اس کا کیا کرتے کہ لوگ اب بھی آ آ کر تارکول کی سڑک کے بیچوں بیچ، جہاں مزار ہوا کرتا تھا، پھول چڑھا جاتے تھے۔ جب تیز دوڑتی کاروں کے نیچے کچل کر پھول پس جاتے تو پھر سے نئے پھول نمودار ہو جاتے۔ پائمال پھولوں اور شاعری کے بیچ جو تعلق ہے، اس کا کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟’
یہ تو تھی فکشن کی بات، اب ارندھتی رائے کے نان فکشن سے رجوع کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی ہمیں ‘آج’ کے 23 سال پرانے پرچے کے اوراق پلٹنا ہوں گے جس میں گجرات کے فسادات پر ان کے مضمون کا اجمل کمال کے قلم سے ہونے والا ترجمہ شامل ہے۔ اس تحریر میں ولی کے مزار کے ساتھ ساتھ استاد فیاض علی خاں کے مقبرے کی بے حرمتی کا تذکرہ بھی ہے:
‘احمد آباد میں اردو غزل کے بانی ولی گجراتی کے مزار کو مسمار کر کے رات بھر میں اس کے اوپر ایک سڑک تعمیر کردی گئی۔ موسیقار استاد فیاض علی خاں کے مزار کی بے حرمتی کی گئی اور اس کو جلتے ہوئے ٹائروں سے ڈھک دیا گیا۔ آگ لگانے والوں نے دکانوں، مکانوں، ہوٹلوں، ٹیکسٹائل ملوں، بسوں اور پرائیوٹ کاروں کو آگ لگائی اور انہیں لوٹا، لاکھوں افراد اپنے روز گار سے محروم ہو گئے۔’
اجمل کمال کے ‘آج’ سے اب ہم آصف فرخی کے ‘دنیا زاد’ کی طرف چلتے ہیں۔
اس کے شمارہ نمبر سات (2002) میں گجرات کے فسادات سے متعلق خوشونت سنگھ کے کالم کا ترجمہ آصف فرخی نے ‘ولی کی جلاوطنی’ کے عنوان سے کیا تھا، اس میں سے ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:
’28 فروری 2002 کو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ایک ہجوم نے ولی گجراتی کی درگاہ کو جلا کر راکھ کر دیا۔ شہری بلدیہ نے اس کے اوپر تارکول کی پختہ سڑک بچھا دی کہ اس کا نام و نشان تک مٹ جائے لیکن آج بھی ٹیکسی اور بس کے ڈرائیور اس کے اوپر سے گزر جانے کے بجائے گھوم کر جاتے ہیں کہ ان صوفی بزرگ اور شاعر کی قبر کے اوپر سے نہ جانا پڑے جس کا احترام ان کے آباؤ اجداد بھی کیا کرتے تھے اور اس مزار کی بے ادبی سے ان پر بربادی نہ آجائے۔’
خوشونت سنگھ نے سیدہ حمید کی سربراہی میں 6 خواتین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کا آغاز ولی گجراتی کے مقبرے کی تاراجی سے ہوتا ہے اور اختتام ڈبلیو بی ییٹس کی نظم ‘دی سیکنڈ کمنگ’ کی ان سطروں پر:
Things fall apart; the centre cannot hold;
Mere anarchy is loosed upon the world,
The blood-dimmed tide is loosed, and everywhere۔
The ceremony of innocence is drowned;
The best lack all conviction, while the worst
Are full of passionate intensity.
دنیا زاد کے اسی شمارے میں ہریش میندر کا فسادات کے بارے میں درد مندی سے معمور مضمون ‘اے وطن عزیز گریہ کر’ قاری کو رنج میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ولی دکنی کے مزار کی مسماری پر ‘گجراتی لیکھک منڈل’ نے بھی سخت احتجاج کیا اور اپنے ایک مشترکہ بیان میں مزار کی از سر نو تعمیر کا مطالبہ کیا۔ اس بیان میں ولی کے مزار کو ہندوستان کی تہذیبی روایت اور ادب کی قابلِ فخر علامت قرار دیا گیا تھا۔ انجمن ترقی اردو (ہند) کے رسالے اردو ادب (2002) نے یہ بیان سرورق پر شائع کیا تھا۔
ادبی حوالوں سے گزر کر اب ہم نندتا داس کی فلم ‘فراق’ پر آجاتے ہیں جس نے گجرات کے فسادات کی ہولناکی کو مجسم کردیا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں مچی ہلچل، خوف اور بداعتمادی کی عمدہ تصویر کشی کی۔
‘فراق’ میں نصیر الدین شاہ ایک مسلمان گائیک کے روپ میں سامنے آتے ہیں جنہیں ولی دکنی سے محبت ہے۔ وہ ان کے مزار کے ڈھے جانے سے بے خبر ہیں۔ ایک دن وہ رکشے میں اپنے ملازم کے ساتھ اس سڑک سے گزرتے ہیں تو مزار کو سڑک پر نہ پاکر وہ رکشے والے سے رکشہ روکنے کو کہتے ہیں اور نیچے اتر کر کہنے لگتے ہیں:
‘ مزار کہاں گیا’
‘ارے ولی کا مزار یہیں تھا’
‘ولی کا مزار۔۔۔ یہیں تھا ‘
‘نہیں نہیں۔۔۔ میں بھول ضرور جاتا ہوں لیکن وہ مزار یہیں تھا۔۔۔ ایسے کیسے غائب ہوگیا۔’
رکشے والا اصل بات بتاتا ہے تو خان صاحب کا ملازم اسے چپ کروا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ولی کا مزار دوسری سڑک پر ہے۔ وہ خان صاحب کو صدمے سے بچانے کی خاطر غلط بیانی سے کام لیتا ہے۔ خان صاحب عجب بے یقینی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہوتے ہیں۔
فلم میں ایک ہندو ڈاکٹر خان صاحب کا قدردان ہے، اسے وہ ایک دن ولی کے مزار پر اکتوبر 1960 میں پہلی دفعہ جانے کا قصہ سناتے ہیں۔ اس دن جم کر بارش ہوئی تھی اور پنڈت جی اور خان صاحب نے ریڈیو اسٹیشن پر راگ ملہار گایا تھا۔ پنڈت جی بضد ہوئے کہ وہ خان صاحب کو گھر پہنچا دیں گے۔ راستے میں انہوں نے ولی کے مزار پر اچانک سکوٹر روک لیا اور لگے ولی کو گانے۔
کوچۂ یار عین کاسی ہے
جوگئی دل وہاں کا باسی ہے
اور وہ ولی کی شاعری میں کھو گئے جس کا مزار برسات سے دھلا اور چاندنی سے نہایا ہوا تھا۔
وہ اپنے ارادت مند ڈاکٹر کو بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ مزار کے پاس سے گزرتے تو فاتحہ ضرور پڑھتے تھے، باتوں باتوں میں ڈاکٹر کہتا ہے کہ ولی کے مزار کو جب توڑا گیا تو اس نے پیپر میں ان کے بارے میں پڑھا، اب ان پر وہ حقیقت آشکار ہوتی ہے جس کو ان کے ملازم نے ان سے چھپایا تھا اور خان صاحب یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں: ‘مجھے معلوم تھا، مجھے معلوم تھا، صحیح جگہ پہ تھے۔’
مذکورہ بالا مثالوں سے ہم انتہا پسندوں کے مائنڈ سیٹ کو سمجھ سکتے ہیں جن کی غارت گری سے نہ جیتے جاگتے انسان محفوظ ہیں اور نہ ہی قبریں۔
اورنگزیب عالمگیر کے طرزِ حکمرانی کی بنیاد پر ان کی قبر کی بنیادیں ہلانے کے خواہشمند ہندوتوا کے پروانے صرف مغل حکمرانوں اور ان سے منسوب علامتوں کے درپے نہیں بلکہ فن شعر و موسیقی کی اقلیم کے وہ بے تاج بادشاہ بھی ان کے حملوں کی زد میں آئے جنہوں نے عوام کے دل و دماغ پر حکمرانی کی تھی۔ اس لیے انہوں نے ماضی میں ولی کے مزار پر دھاوا بولا اور استاد فیاض علی خاں کی قبر پر نفرت اور آگ کے شعلے بھڑکائے۔
گجرات کے سانحہ پر اہل دانش کے ردعمل سے ہم پاکستانی ظلم کے ضابطوں کے خلاف اپنی آواز کو پوری شدت اور مؤثر انداز میں اٹھانے کا چلن سیکھ سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈال کر فسادیوں کی مذمت ان لوگوں نے کی جو مسلمان نہیں تھے، تعصبات سے بالاتر ہو کر مظلوموں کی ہم نوائی کرنا شرف انسانی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے ناانصافی پر عموماً خاموشی میں عافیت سمجھی جاتی ہے، البتہ دوسرے ملکوں کی اختلافی آوازیں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔
اس مصلحت کوشی میں ہم یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ فرقہ پرست اور اقلیت دشمن گروہ کسی کے سگے نہیں ہوتے، وہ جہاں بھی ہوں، بظاہر کوئی ایک طبقہ ان کی زد میں ہوتا ہے لیکن وہ نفرت کا ایسا الاؤ بھڑکاتے ہیں کہ پورا معاشرہ جہنم بن جاتا ہے، انسانیت کے ان مجرموں کی حرکتوں کا اثر دور رس ہوتا ہے، ان کی دست برد پر ایک وقت میں خاموش رہنے والے کسی دوسرے وقت ان کا شکار بن جاتے ہیں۔
اس کی کئی مثالیں پاکستان سے بھی پیش کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح جتھوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ساتھ دینے والے ادارے اور افراد خود ان انتہا پسندوں کا نشانہ بنے جن کی کبھی انہوں نے سرپرستی کی تھی۔ انتہا پسندوں کی کارروائیاں ہوں یا ریاست کی چیرہ دستیاں ان کے بارے میں چپ سادھ لینے والے گھاٹے میں رہتے ہیں کیوں کہ جلد یا بدیر ایسے عناصر کی بھڑکائی ہوئی آگ کسی نہ کسی صورت ان تک ضرور پہنچتی ہے، اس صورت حال کو احمد مشتاق نے ایک شعر میں بیان کیا ہے:
اب جو اوروں پہ چمکتا ہے تو چپ رہتے ہو
اسی خنجر کو قریبِ رگِ جاں دیکھو گے
ہندوستان کے گجرات کا ذکر ہو تو مجھے اپنے پسندیدہ نقاد وارث علوی کی یاد ضرور آتی ہے جنہوں نے احمد آباد میں رہ کر اردو تنقید کو باثروت بنایا۔ وہ فرقہ وارانہ اور فسادات کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔ بستیوں، مقبروں اور انسانی جانوں کو سیاست و اقتدار کی بھینٹ چڑھانے والوں کی ذہنیت کو وارث علوی نے برسوں پہلے اپنے ایک مضمون ‘فسادات اور فن کار’ میں بیان کیا تھا جو آج بھی حسب حال ہے:
‘یہ آج کے دور کا میکیاولی جو ہر قسم کے تخیلی، تخلیقی، روحانی اور جمالیاتی احساس سے محروم ہے، نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنے فاشی تصورات کی بلی پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قربان کروا سکتا ہے۔ اور اپنے اقدامات کے جواز میں یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ ان کی موت، ان کے غلط تصورات اور غلط سیاسی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس آدمی کو ذرا غور سے دیکھو یہ جلی ہوئی بستیوں میں جاکر اشک باری نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا کہ دو ہزار آدمی بے دردی سے مار دیے گئے۔ تین ہزار مکانات جلا دیے گئے۔ نہیں وہ ٹاﺅن ہال میں جاکر تقریر کرتا ہے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کا سبب فارسی رسم الخط، اردو زبان، چار شادیاں، تغلق اور غوری سلاطین، سرسید احمد خان، خلافت تحریک اور برقع کی رسم میں تلاش کرتا ہے۔ اس آدمی کو غور سے دیکھو کیوں کہ یہ آج کل بہت سی کتابیں اور مضامین لکھ رہا ہے جن میں پوری ایک قوم کی تاریخ مسخ کرکے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ اسے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہ نتیجہ ہے اس کے پرکھوں کی حماقتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا۔ یہ آدمی جو آج کروڑوں انسانوں میں خوف، ناپائیداری اور بے چینی پیدا کررہا ہے، دوسرے انسانوں کے دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسے اقتدار پسندی اور سیاسی تصورات نے پاگل کردیا ہے۔ ‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews اقلیتوں پر ظلم انتہاپسندی اورنگزیب عالمگیر بھارت پاکستان فلم چھاوا مغل بادشاہ مقبرہ مودی سرکار ولی دکنی کا مزار وی نیوز