Express News:
2025-04-01@05:12:50 GMT

سینئر سٹیزن کے حقوق کا خیال رکھا جائے

اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT

قارئین! جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے رمضان کا آخری روزہ ہوگا، رمضان المبارک میں سب سے زیادہ مہنگائی آپ کو ٹھیلے والوں کی جانب نظر آئے گی، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں اگر آپ ٹھیلے کے قریب گاڑی کھڑی کردیں تو یہ جھگڑا اور فساد برپا کرتے ہیں۔

دکانوں کو تو چھوڑدیں ٹھیلے والے جو روٹ پر قبضہ کیے ہوئے ہیں وہ تربوز 200 روپے کلو، خربوزہ 200 روپے کلو، سیب300 روپے کلو،کیلے عام سے 250 روپے درجن اگر آپ ان سے صرف یہ کہہ دیں کہ’’ بھائی! یہ تو بہت مہنگا ہے صحیح قیمت لگا لو ‘‘ تو جواب سن لیں ’’ جاؤ، دماغ نہیں خراب کرو‘‘ اور جن کو یہ کہہ دیا ہے۔

ان میں عام آدمی کے علاوہ Phd ڈاکٹر، ایم بی بی ایس ڈاکٹر، MBA، CA، اکاؤنٹینٹ شامل ہیں۔ یہ اس قوم کے لیے المیہ ہے کہ ان داداگیروں پر کسی کا کنٹرول نہیں، نہ جانے اس شہر میں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی پرسان حال نہیں اور معاف کیجیے گا، یہ یہاں ہو رہا ہے۔

پنجاب میں کسی حد تک کنٹرول ہے میں پھر یہی کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کہاں تک حالات کو دیکھیں گے یہ کام تو پرائس کنٹرول والوں کا ہے۔ ادھر مرغی فروشوں نے سرکاری ریٹ ماننے سے صاف انکار کردیا ہے، ان کا کہنا ہے 640 روپے ہم مرغی کا گوشت فروخت نہیں کرسکتے۔

اب یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ انتظامیہ یا دکاندار دونوں میں سے کون قصور وار ہے۔ اخبارات میں اشتہارات جو صدقہ، زکوٰۃ کے حوالے سے آج کل آ رہے ہیں۔ اس میں نیکی، سادگی اور لوگوں کی مدد کے تذکرے ہوتے ہیں، ساری خدمت رمضان میں سینہ کھول کر آ جاتی ہے، ایسے ایسے اداروں کے نام آتے ہیں کہ عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے۔ اشتہارات کی مد میں چندہ لیا جاتا ہے اور یہ صرف رمضان میں ہوتا ہے۔

آج کل کینسر کے علاج میں 55 سے 60 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت لکھی ہے جب کوئی پریشان غربت کا مارا کینسر میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا علاج کرانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

مجبوری کے تحت جب اس کے لواحقین کچھ تنظیموں سے رابطہ کرتے ہیں جو اشتہارات بھی صرف رمضان میں دیتے ہیں ان سے جب رابطہ کرو تو ان کے پاس بجٹ (پیسے) نہیں ہوتے جب کہ اشتہارات کی مد میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اگر کوئی مریض 50 سال سے زیادہ کا ہو تو بڑی آسانی سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ ان کی عمر اب زیادہ ہوگئی ہے، ہم ایسے مریض نہیں لیتے یعنی کے 50 سالہ شخص کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

کم درجہ والے کینسر کا علاج بھی 40 لاکھ سے کم نہیں ہے، اس میں اسپتال کی فیس اور سہولت شامل نہیں ہے اور مزے کی بات دیکھیں اکثر اسپتال میں تو بغیر اے سی کا روم ہوتا ہی نہیں ہے۔ بے شک وہ چھوٹے سے چھوٹا اسپتال کیوں نہ ہو جناح اور سول اسپتال کے علاوہ کینسر کے علاج کی سہولت کسی اسپتال میں نہیں۔

پرائیویٹ اسپتال کے اخراجات اتنے ہوتے ہیں جو غریب کے لیے ناقابل برداشت ہیں ذیابیطس (شوگر) اب ہر تیسرے گھر میں ڈیرے ڈال چکی ہے غریب تو جیتے جی مر گیا وہ علاج کیسے کرائے شوگر کے بعد چند اور بیماریاں بھی شوگر کی وجہ سے ہو جاتی ہیں، اس کا علاج بھی کرانا پڑتا ہے۔

 ادھر آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ٹیکس اصلاحات کریں۔ گزشتہ 30 سال سے ہم آئی ایم ایف کے بارے میں سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں، دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پرکبھی سیاست دانوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ ہمیں آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر چلنا ہوگا۔ مزے کی بات دیکھیں، گیس کے نئے ذخائر اکثر نمودار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے پہلے گیس کے ذخائر 1952 میں بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی کے قصبے سوئی سے دریافت ہوئے تھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے سیاسی حضرات نے گیس کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ڈاکٹر قدیر خان نے کہا تھا کہ حکومت میرا ساتھ دے تو میں بجلی تیاری میں آپ کا مکمل ساتھ دے سکتا ہوں اور فی یونٹ 4 روپے بجلی تیار کرکے دے سکتا ہوں مگرکسی بھی سیاست دان نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی اور وہ اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔

معروف سائنس دان ثمر مبارک نے حکومت کو باورکرایا کہ حکومت میرا ساتھ دے میں بہت ہی سستی بجلی تیار کرکے آپ کو کوڑیوں کے مول دے سکتا ہوں، یہ بیان انھوں نے غالباً ایک سال پہلے دیا تھا مگر اس پر ہماری کسی سیاسی شخصیت نے توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جنھیں توجہ دینی ہے انھیں تمام مراعات مفت میں مل جاتی ہیں تو اس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟

گزشتہ دنوں ایک خبر اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہوئی جس میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ایک سماجی تقریب میں سینئر سٹیزن کارڈ کے اجرا کا اعلان کیا گیا۔ سماجی بہبود کے وزیر میر طارق علی خان تالپور اپنے کام کو بہت خوبصورتی سے انجام دیتے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس مسئلے کو بھی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس ملک کو سینئر سٹیزن نے ہمیشہ خوبصورت سہارا دیا۔ کیا ہم ان عمر رسیدہ افراد کی خدمات کو نظرانداز کرسکتے ہیں جیسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی۔

بلاشبہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ سینئر سٹیزن کو حکومت سندھ کی جانب سے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں سینئر سٹیزن نے کولہو کے بیل کی طرح اس ملک کی خدمت کی ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں سینئر سٹیزن کو بہت سہولتیں دی جاتی ہیں، راقم دنیا کے بیشتر ممالک میں گیا اور ہم نے وہاں جو عمر رسیدہ لوگوں کو سہولتوں کے ذریعے خوشحال زندگی گزارتے دیکھا بلکہ یہ جملہ زیادہ بہتر ہے کہ وہاں عمر رسیدہ افراد کے چونچلے اٹھائے جاتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صوبے کی بہتری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں اب وہ سارے اداروں کی چھان بین تو کرنے سے رہے، لوگ اپنی ذمے داریوں کو خود محسوس کریں ۔ گزشتہ دنوں بذریعہ ہوائی جہاز اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ میری مودبانہ گزارش ہے حکومت سے کہ ایئرپورٹ پر سینئر سٹیزن کے کاؤنٹر ہی الگ بنائے جائیں اور ریلوے میں بھی یہی سلسلہ کیا جائے۔

25 فروری کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر موجود تھی کہ حکومت اگلے دو ماہ تک بجلی کی قیمت میں 6 سے 8 روپے فی یونٹ کمی کرے گی اچھی خبر تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ اپریل میں کچھ دن رہ گئے ہیں، پاور ڈویژن کب اس پر عمل کرتی ہے ۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سینئر سٹیزن ہوتے ہیں رہے ہیں نہیں ہے ہیں کہ

پڑھیں:

حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ

جہان دیگر
۔۔۔۔۔
زریں اختر

کہانی پرانی ہے ، کردار نئے ہیںشاید ہر کہانی ایسی ہوتی ہے۔ کسی نے کہا تاریخ خود کو دہراتی ہے تو کسی کے نزدیک یہ بجاے خود تاریخی مغالطہ ہے ، کوئی کہتاہے کہ زندگی کا سفر دائرے میں ہوتاہے تو کوئی اسے سیدھی لکیر کا سفر گردانتاہے۔
ایسے فرمودات جو وقت کے پنوں پر ایسے رقم ہوئے کہ انہوں نے سیدھی لکیر کے سفر کو راست رستے پر ڈال دیا ، لیکن ٹرمپ نے اس سے انحراف کیا۔ تاریخ میں بہترین و بد ترین دونوں مثالیں قائم رہتی ہیں ،جو قومیت ملت رنگ نسل سب پر حاوی ہوتی ہیں، اعلیٰ مثال پر حرف نہیں آتااور اسفل کو بھی کوئی نہیں مٹا سکتا۔ یو ٹرن ابھی بہت آگے ہے ، زوال بھی آتے آتے آتا ہے، جس طرح مسلمان قیامت کی نشانیاں دیکھتے ہیں ،میرے نزدیک یہ امریکہ کے زوال کی پہلی اینٹ ہے جو امریکہ نواز ملکوں کے غریبوں کے لیے بھی اتنی ہی منحوس ہے۔خدا کی پکار فرشتوں سے جو اقبال کی زبانی پہنچی ‘اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو’ ۔ خود امریکہ میں اس پر کتنی آواز ہے ، مجھے نہیںمعلوم ،نہ مجھے وہاں کے امراء کا پتا نہ غرباء کا ۔
امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم آزادیٔ اظہار کا سنگ ِ میل بنی ۔ممکن ہے ہم یہاں بیٹھ کر اس کو زیادہ مثالی سمجھ رہے ہوں لیکن جو ترمیم شہری، صحافی اور مصنف کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے اور آواز کا مضبوط جواز بنتی ہے ( اس سے انکار نہیں کہ مستثنیات بھی ہیں )لیکن یہ امریکہ کو دنیا سے منفرد بنانے والی ترمیم تھی ،اسے امریکہ کا طرئہ امتیاز قرار دیا جاتاہے ۔ ١٥ ِ دسمبر ١٧٩١ ء امریکی ایوان میں اس کی تو ثیق ہوتی ہے ، جس ترمیم کو سوا دو صدیوں سے زائد عرصہ بیت گیا، کسی نے اس ترمیم کو اختصار کے ساتھ انتہائی عمدگی سے یوں بیان کیا کہ ” امریکی کانگریس کوئی ایسا قانون منظور نہیں کرے گی جو آزادی ء اظہار کے منافی ہو۔”قانون تو ایسا منظور نہیں ہوا لیکن وار کاری ہوا۔
شعلہ بیاں و شعلہ صفت ٹرمپ آتے ہیں اور خبر آتی ہے کہ :
١٦ ِ مارچ ٢٠٢٥ء بی بی سی اردو کے مطابق ”وائس آف امریکہ کے غیر مستقل ملازمین کی نوکریاں ختم ہونے کا عمل شروع ، مستقل عملہ بدستور انتظامی چھٹی پر”۔ تفصیل کے مطابق ”ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری امداد سے چلنے والے خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ پر ٹرمپ مخالف اور بنیاد پرست ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی فنڈنگ ختم کرنے کے صدارتی حکم نامے پر دست خط کر دیے ہیں۔۔۔۔وائس آف امریکہ جواب بھی بنیادی طور پر ایک ریڈیو سروس ہے ،دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔ اس کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین ہیںاور یہ لگ بھگ ٥٠ زبانوں میں سروسز فراہم کرتا تھا۔”خبر کے مطابق تیرہ سو صحافیوں ، پروڈیوسروں اور اسسٹنٹوں کو(جبری) انتظامی رخصت دے دی گئی ہے ۔وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر مائیک ابرا مووٹر کا کہنا ہے کہ ”مجھے بہت افسوس ہے کہ ٨٣ سال میں پہلی مرتبہ تاریخی وائس آف امریکہ کو خاموش کروایا جارہا ہے۔”
اور اس خاموشی کا سہرابندھتاہے ٹرمپ کے سر ۔
اپنے ملک کی ١٩ ِ مارچ ٢٠٢٥ء بی بی سی اردو خبر دیتا ہے کہ پاکستانی صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو ان کے گھر سے اٹھالیا گیا۔
احمد نورانی تفتیشی صحافی ہیں پاکستان چھوڑ گئے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں جہاں وائس آف امریکہ کاگلا گھونٹ دیا گیاہے وہاں یہ ‘فیکٹ فوکس’نامی ویب سائٹ چلارہے ہیںیہاں ان کے گھر نامعلوم اداے سے تعلق رکھنے والے نامعلوم افراد گھس آتے ہیںاور ان کے بھائیوںکو جو انجینئر ہیں اور نوارنی کے کرتوتوں سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ، اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ خبروں میں الفاظ کا استعمال اگر پس منظر سے واقفیت نہ ہوتو حقیقت کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے۔ ڈان اُردو کی ٢٧ ِ مارچ کی خبر ہے کہ ” آئی جی اسلام آباد نے صحافی احمد نورانی کے لاپتا بھائیوں کی بازیابی کیلئے دو ہفتے کی مہلت مانگ لی۔” ُ
”لاپتا” ! ؟، بی بی سی لکھ رہا ہے کہ اٹھالیا گیا اور ڈان لکھتا ہے لاپتا؛احمد نورانی کے بھائی لا پتا ہوئے ہیں؟ گھر سے گئے واپس نہیں آئے تو لاپتا ، دفتر سے نکلے گھر نہیں پہنچے تو لاپتا، گھر سے اٹھایا گیا تو لاپتا کیسے ؟ شہری نامعلوم افراد کے ہاتھوں فائرنگ سے مرتے رہے ہیں اب نامعلوم افراد یا اداروں کے ذریعے اٹھالیے جاتے ہیں۔ اغوا بھی رستے میں سے کیا جائے تو اغوا ہے ، غائب ہوگیا ،یہاں تو گھر آکر اٹھایا گیاہے ، تو اٹھایا گیا لکھیں۔ گرفتاربھی کیسے لکھیں؟ گرفتاری کس جرم میںیا شک میں؟اس کے لیے وارنٹ چاہیے اور چوبیس گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنا پڑے گا۔ حالات لفظ لاتے ہیں ، جیسے ماضی میں الفاظ آئے”ماورائے عدالت قتل ”،اور اب ”جبری گم شدگی” ، الفاظ ہی ہیں جو حقیقت بیان کرتے ہیں اس سے پردہ اٹھاتے ہیں؛احمد نورانی کے بھائی گم شدہ نہیں ہوئے ، کھوئے نہیں ، لاپتا نہیں ہیں ؛ انہیں اٹھایا گیاہے ، جبری طور پر اٹھایا گیا ہے اور یہی الفاظ حقائق کی درست تصویر پیش کرتے ہیں۔ اخبار لاپتا نہیں لکھے، اٹھایا گیالکھے۔ آخری اطلاعات تک احمد نورانی کے بھائیوں کے ”جبری لاپتا ”مقدمے کی سماعت عید کے بعد تک کے لیے ملتوی کردی گئی ۔
کاش ٹرمپ یا اس کا کوئی بھائی بندہ ان دوامریکیوںاسٹینلے جے باران اور ڈینس کے ڈیوس کی کتاب ”تھیوریز آف ماس کمیونیکیشن ”پڑھا ہوتا۔ جس کا ترجمہ ”نظریات ِ ابلاغ” کے نام سے پروفیسر متین الرحمن مرتضٰی نے مرتب کیا اور جامعہ کراچی شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ سے نومبر ١٩٩٨ء میں چھپا، میری کم علمی کہ بلاغیات کے نظریات پر اس سے اعلیٰ کتاب میری نظر سے نہیں گزری ،اس میں ابلاغ عامہ کے نظریات کو عالمی سیاسی و سماجی تبدیلیوں اور تناظر میں پیش کیاگیا ہے۔ اس میں باب بعنوان ”پروپیگنڈہ کے دور میں ابلاغی نظریے کا عروج” مترجم سعدیہ تبسم قریشی ،صفحہ ٤٩ سے ایک پارہ نقل ہے :
”ذرائع ابلاغ کے ابتدائی نظریہ سازوں کی توجہ پروپیگنڈے کی جانب مبذول ہوئی کیونکہ پروپیگنڈہ ہرجگہ جمہوری حکومتوں اور امریکی سیاسی نظام کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنتا جارہا تھا۔ ١٩٣٠ء کے عشرے کے اواخر تک امریکی رہنمائوں میں اکثر نہیں تو بہرحال کئی اس بات کے قائل نظر آتے تھے کہ اگر انتہا پسندوں کے پروپیگنڈہ مواد کی آزادانہ تقسیم کی اجازت بحال رہی تو جمہوریت برقرار نہیں رہ سکے گی ۔لیکن پروپیگنڈے پر سنسر عائد کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ مغربی جمہوریت اور آزادی ابلاغ کے اہم اصول پر پابندیاں عائد کی جائیں ۔ یہ صورت حال بڑا وحشت ناک مخمصہ تھی ۔ اگر سخت سنسر شپ عائد کیا جاتا تو اس سے جمہوریت کی قوت کمزور ہوتی ۔ پروپیگنڈے کے نظریہ سازوں نے طے کیا کہ وہ اس مخمصے پر توجہ دے کر اس کا کوئی حل نکالیں گے۔ ” صفحہ نمبر ٥٠پر ہے : ” اگرچہ پروپیگنڈے کا خطرہ بہت بڑا تھا مگر اس کالی گھٹا کا کوئی کنارہ تنویر تو آنا ہی تھا۔ اگر اچھے اور منصفانہ تصورات کے فروغ کے لیے پروپیگنڈے کی قوت پرعبور پایا جاسکے تو پھر نہ صرف بجائے خود اس پروپیگنڈے کے خطرے سے نمٹا جاسکتاہے بلکہ اس سے ایک بہتر سماجی نظام کی تعمیر میں مدد بھی لی جاسکتی ہے ۔یہ وہ امید تھی جسے ‘سفید پروپیگنڈے ‘ کا نام دیا گیا۔”
اکبر الہٰ آبادی کی اس ترنگ کا اگر یہاں کوئی جوڑ نہیں بنتا تو وہ یاد کیوں آئے
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

متعلقہ مضامین

  • غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی واپسی کی ڈیڈ لائن ختم
  • افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے باشندوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن ختم
  • حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ
  • کرکٹ ایجنٹس کرکٹ پر حاوی
  • شی زانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے   حاصل کی گئی کامیابیاں کسی  جھوٹے بیانیے سے  چھپ نہیں سکتیں، چینی میڈیا
  • بھارت منشیات فروشی میں ملوث، امریکی ایجنسی: اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنیوالا چیمپئن نہیں بن سکتا، پاکستان
  • بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں،پاکستان
  • بھارت اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار بننے کے قابل نہیں، پاکستان کا بھارتی وزیر کے بیان پر ردعمل
  • آپریشن: صوبوں کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، محسن نقوی