ہر عہد کا شاعر...... ناصر کاظمی
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
قیامِ پاکستان کے بعد اُردو غزل کے میدان میں کئی ایک نئی آوازیں ابھریں۔ مگر جو آواز اپنی انفرادیت تسلیم کروانے میں کامیاب ٹھہری وہ ناصرکی آواز تھی۔ ناصر رضا نام، ناصر تخلص اورکاظمی نسبت ہے جو 8 دسمبر 1925 کو مشرقی پنجاب کے شہر انبالہ میں محمد سلطان کے ہاں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم انبالہ اور ثانوی تعلیم شملہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور 1940میں اسلامیہ کالج لاہور میں ایف اے میں داخلہ لیا، اسی دوران پاکستان معرض وجود میں آیا اور شاعری کا باقاعدہ آغاز اسی دور میں ہُوا۔
تعلیم سے کنارہ کش ہوکر تلاش معاش میں سرگرداں ہو گئے اورکچھ مدت کے لیے ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں ملازم رہے لیکن مزاج کی ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب علیحدہ ہوگئے اور صحافتی زندگی کو اپنا لیا۔
معروف ادبی جریدوں ’’ اوراقِ نو‘‘ اور ’’ہمایوں‘‘ کے مدیر رہے۔ 1957میں خود بھی ایک ادبی جریدہ ’’خیال‘‘ شایع کیا۔ مختلف حکومتی اداروں کے ادبی جریدوں کے مدیر بھی رہے۔ بالآخر اگست 1964 کو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوگئے اور تادمِ آخر وہیں رہے۔
ناصرکاظمی نے بہت کم عمر پائی لیکن اس عمری جتنی شہرت ناصرکو نصیب ہوئی کسی اور شاعر پیش کرنا مشکل ہے، اگر یہ سچ ہے کہ شاعر پیدا ہوتے ہیں بنائے نہیں جاتے تو عہد حاضر میں قدرت نے اس فن کی بیاضوں کے ساتھ جن لوگوں کو شاعر ہونے کا شرف عطا کیا۔
ان میں ناصرکاظمی سرفہرست ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے خواص و عوام میں مقبول شاعر بن گیا اس پر سونے پر سہاگہ کا کام ان معروف مغنیوں نے کیا جنھوں نے اس کی غزلوں کو ساز و آواز سے سنوارا۔ ناصرکاظمی جدید اُردو غزل کا نمایندہ شاعر ہے۔
ان کے ہاں نظمیں بھی ملتی ہیں لیکن غزل میں ان کا منفرد مقام ہے۔ ان کے کلام میں میر تقی میر کا سوز وگداز، محرومی، اداسی اور تنہائی نظر آتی ہے اور اس مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ ناصرکا زمانہ بھی ویسا ہی پُر آشوب، جبر و استبداد اور اضطراب و بے یقینی کا زمانہ تھا جیسا کہ میر تقی میرکا زمانہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ناصرکے کلام میں اداسی، محرومی اور تنہائی کا احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ ناصر کے شعری اثاثے میں برگِ نے (غزلیں)، دیوان(غزلیں)،پہلی بارش (غزلیں)، نشاطِ خواب (نظمیں)، ’’ سُر کی چھایا (منظوم ڈرامہ) اور ’’کلیات‘‘ جب کہ نثری کتب میں ’’ خشک چشمے کے کنارے‘‘ اور ’’ ڈائری چند پریشاں کاغذ‘‘ شامل ہیں۔
ان کا شعری مجموعہ ’’برگِ نے‘‘ 1952 میں دو بار چھپا جس کے ’’اعتبارِ نغمہ‘‘ میں بہت سی محرومیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر اس کتاب کے ’’حرفِ مکرر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ محفلِ مشاعرہ میں جب شاعر سے شعر پڑھنے کی دوبارہ فرمائش کی جاتی ہے تو وہ اسے مکرر سنا دیتا ہے۔
مگر جب پوری کتاب کے بارے میں پڑھنے والوں کا تقاضا مکرر ہو تو صورت کچھ مختلف ہو جاتی ہے۔ اس خیال سے نئے ایڈیشن میں چند تازہ غزلیں اور اشعار شامل کردیے ہیں کہ کتاب کا مجموعی تاثر تازہ تر ہو جائے۔ ’’ برگِ نے‘‘ جب پہلی مرتبہ شایع ہوئی تو یہ میرا ’’ شوقِ فضول‘‘ تھا۔ اب میرے پڑھنے والوں کی محبت ہے ۔‘‘
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت ناصر 22 سال کے باشعور نوجوان تھے۔ انھوں نے جدوجہد آزادی اور تقسیم ہند سے پیدا ہونے والے اثرات، ہندوؤں اور سکھوں کی شقاوت خصوصاََ مشرقی پنجاب میں جو آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اس کو ناصر نے اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھا بلکہ اسے اپنے اشعار میں بھی بیان کیا۔
محرومِ خواب دیدئہ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی
غمِ حالات کی رنجشوں ، ہجرکی محرومیوں میں ترکِ محبت کا دوستوں سے یوں گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ:
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کو اگرچہ زمانے نے بہت دکھ دیے جس کا اظہار اس نے جا بجا کیا ہے تا عمر غم زمانہ اور غم زندگی اس کے ساتھ ساتھ رہے پھر بھی ناصر غزل کا شاعر ہے جس میں حسن رنگینیاں، عشق کی کسک، ہجر و فراق کی لذتیں ہوتی ہیں۔ ناصرکی غزل گوئی کے حوالے سے سراج الاسلام لکھتے ہیں کہ ’’ ناصر کا لب و لہجہ جدید ہے لیکن اس جدیدیت کے باوجود اس کے یہاں شعریت پوری آب و تاب نظر آتی ہے۔
ناصر نے زندگی کی بے چینیوں اور محرومیوں کو شاعرانہ سلیقہ سے بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے عہد کا سارا درد اپنی غزلوں میں سمونا چاہتا ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ اسی شعریت سے اس کی غزلوں میں جاذبیت پیدا ہوئی ہے۔‘‘
ناصر کاظمی ذہنی کرب اور روحانی بے کیفی کو خارجی ماحول کے حوالے سے بیان کرنے میں خاص ملکہ رکھتے۔ اپنی اُداسی اور تنہائی کا اظہار کچھ یوں کرتے۔
دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
زبان و بیان کے لحاظ سے بھی ناصرکی غزلوں میں بڑی دلکشی ہے۔ غزلوں کو یہ دلکشی اس نے اپنی مترنم سادہ اور رواں زبان کے ذریعے بخشی ہے۔ ان کے اشعار میں بے ساختگی اور پکا پھلکا انداز بیان، شیریں لب ولہجہ، سب مل کر ایک عجیب سا سماں پیدا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والے پرگہرا اثر مرتب ہوتا ہے جب کہ ان کے کلام میں کہیں کہیں تو ایسی روانی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے کہ قاری کہہ اٹھے کہ یہی تو میری آواز ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے چند اشعار دیکھے۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑگیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اُٹھاؤں کس کے لیے
اس غزل میں ناصر کی سادگی کا کیا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق اور واردات قلبی کی کیفیات اپنے عہد کے حالات اور ترقی پسند خیالات کا حسین مجموعہ ہے۔ اس نے اپنے دور کے مایوس کر دینے والے حالات کو بڑی خوبی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمیٹا ہے۔
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا، کدھرگیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کرگیا وہ
ناصرکاظمی اپنے دوستوں کے ہمراہ لاہور کے ’’ پاک ٹی ہاؤس‘‘ میں وقت گزارتے اور تا دیر شعر و سخن کی محفلیں جما کرتی۔ ناصر کاظمی ایک عہد کا نہیں بلکہ ہر عہد کا شاعر ہے۔ جن کا طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد 2 مارچ1972کو انتقال ہُوا۔ ان کی لحد کے کتبہ پر آج بھی یہ شعرکچھ اس طرح سے درج ہے جس کا حرف حرف صدا دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نے ہونگے کوئی ہم سا ہو گا
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے کلام میں ناصر کا کے لیے عہد کا ہیں کہ نہ تھا
پڑھیں:
علامہ راجہ ناصر عباس کی مرکزی رہنماء اسلامی تحریک علامہ ناظر تقوی کی والدہ کی رحلت پر تعزیت
چئیرمین ایم ڈبلیو ایم نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری علامہ سید ناظر عباس تقوی کی والدہ محترمہ کے انتقال پر دلی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحق محمد و آل محمد علیھم السلام مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ اسلامی تحریک پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل جنرل سیکریٹری علامہ سید ناظر عباس تقوی کی والدہ محترمہ کے انتقال پر دلی تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بحق محمد و آل محمد علیھم السلام مرحومہ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ اللہ رب العزت علامہ ناظر تقوی اور انکے اہل خانہ کو اس صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت اور صبر عطا فرمائے۔ میری دعائیں اور ہمدردیاں علامہ صاحب کے ساتھ ہیں۔ اللہ سبحاںہ و تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
واضح رہے کہ علامہ سید ناظر عباس تقوی کی والدہ محترمہ کی رحلت پر ایم ڈبلیو ایم کے وائس چیئرمین علامہ سید احمد اقبال رضوی، مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی، صوبائی صدر سندھ علامہ سید باقر عباس زیدی، ڈویژنل صدر کراچی علامہ صادق جعفری سمیت دیگر مرکزی، صوبائی اور ضلعی قائدین نے دلی افسوس اور رنج کا اظہار کیا ہے اور مرحومہ کی مغفرت کی دعا کی ہے۔