ماحولیاتی نفسیات: انسان اور فطرت کا باہمی تعلق
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
ماحولیاتی نفسیات (Environmental Psychology) ایک بین الضابطہ (interdisciplinary) شعبہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ماحول انسان کی نفسیات اور طرز عمل کو کیسے متاثر کرتا ہے اور انسان کس طرح اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کرتا ہے۔
یہ علم ہمیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہمارے ارد گرد کی فطری اور مصنوعی دنیا ہمارے جذبات، رویے، صحت، اور سماجی تعلقات پر کیا اثر ڈالتی ہے۔
ماحولیاتی نفسیات (Environmental Psychology) کے بانیوں میں کئی ماہرین نفسیات اور محققین شامل ہیں جنھوں نے اس شعبے کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، چند نمایاں نام درج ذیل ہیں:
کرت لیوین کے مطابق انسانی رویہ فرد اور ماحول کے تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ راجر بارکر نے ''Ecological Psychology'' کے تحت مطالعہ کیا کہ ماحول انسانی طرزِ عمل پر کیسے اثر ڈالتا ہے۔
علاوہ ازیں روبن مور اور کلیر کوپر مارکوس نے تعمیر شدہ ماحول اور انسانی نفسیات، خاص طور پر بچوں کی کھیل کی جگہوں پر تحقیق کی۔ایگنس ویزل نے ''Probabilistic Functionalism'' کے ذریعے انسانی ادراک اور ماحول کے تعلق کو واضح کیا۔
ماحولیاتی نفسیات کا یہ شعبہ 1960-70 کی دہائی میں متعارف ہوا، اور اب نفسیات، سماجیات، شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی علوم کے حوالے سے موثر نتائج کا حامل ہے۔ موجودہ دور میں انسانی رویوں، مزاج اور شخصیت میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
جس میں دوسرے عوامل کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر بھی شامل ہے۔ ماحولیاتی آلودگی، شدید گرمی اور موسموں کی شدت انسان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ اس حوالے سے اہم عناصر کی نشان دہی ضروری ہے تاکہ ہم ماحول اور ذہنی تناؤ کے پس منظر کو سمجھ سکیں۔
انسان ہمیشہ سے قدرتی ماحول کا حصہ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد کھلے آسمان کے نیچے، درختوں اور دریاؤں کے قریب زندگی بسر کرتے تھے، اور ان کے طرز زندگی میں فطرت کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم تھا۔ جدید دور میں، شہروں کی بے ہنگم ترقی، بلند و بالا عمارتوں اور مشینی طرز زندگی نے ہمیں فطرت سے دور کر دیا ہے۔
اس فاصلے نے ہماری ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو قدرتی ماحول میں زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں ذہنی سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیات زیادہ پائی جاتی ہیں۔
سبزہ، درخت، اور کھلی فضائیں ذہنی دباؤ (stress) کم کرنے، توجہ بڑھانے اور عمومی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ماحولیاتی نفسیات میں ان مختلف عوامل پر غور کیا جاتا ہے جو انسانی جذبات اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
قدرتی ماحول:سبزہ، پانی کے ذخائر، اور پہاڑ انسانی نفسیات پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔درختوں کے سائے میں وقت گزارنا بلڈ پریشر کم کرتا ہے اور دل کی صحت بہتر بناتا ہے۔ساحل سمندر پر چہل قدمی یا کسی پارک میں بیٹھنے سے ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔
مصنوعی ماحول کے حوالے سے بات کی جائے تو شور، آلودگی، اور ہجوم ذہنی تناؤ بڑھاتے ہیں۔بڑی عمارتیں اور کنکریٹ کے جنگل انسان کو قدرت سے دور کر کے احساس محرومی پیدا کرتے ہیں۔روشن اور کھلی جگہوں میں کام کرنیوالے افراد زیادہ پیداواری (productive) ہوتے ہیں، جب کہ تاریک یا بند جگہوں میں رہنے والے لوگ جلدی افسردہ ہو سکتے ہیں۔
دھوپ والے دن انسان زیادہ خوش باش محسوس کرتا ہے، جب کہ مسلسل بارش یا سردی اداسی کو بڑھا سکتی ہے۔موسم کی تبدیلی ذہنی امراض جیسے کہ ''سیزنل ایفیکٹیو ڈس آرڈر'' (Seasonal Affective Disorder - SAD) کو جنم دے سکتی ہے۔
آلودگی اور ذہنی صحت:فضائی آلودگی یادداشت کو کمزور کر سکتی ہے اور ڈپریشن میں اضافہ کر سکتی ہے۔شور کی آلودگی نیند کے مسائل، چڑچڑاپن، اور ذہنی دباؤ پیدا کرتی ہے۔بڑے شہروں میں زندگی کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے لوگ مسلسل ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔
یہاں ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی، اور حد سے زیادہ اسکرین کا استعمال لوگوں کے رویے پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ شہری آبادی میں بے چینی اور ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ قدرت سے دوری اور مسلسل مصروف زندگی ہے۔
چونکہ ماحولیاتی عوامل ہماری نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، اس لیے ان میں بہتری لا کر ہم اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ شہروں میں زیادہ سے زیادہ پارکس، باغات، اور درخت لگانے سے لوگوں کو سکون کا احساس ہو سکتا ہے۔
وقتاً فوقتاً قدرتی ماحول میں جانا، جیسے کہ پہاڑوں، جنگلات یا ساحل سمندر پر چھٹیاں گزارنا، ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔گھروں اور دفاتر میں زیادہ سے زیادہ قدرتی روشنی داخل ہونے دینی چاہیے، کیونکہ یہ خوشی کے ہارمون (serotonin) کو بڑھاتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ استعمال، گاڑیوں کی تعداد میں کمی، اور شور کی آلودگی کو کم کرنے کے اقدامات ضروری ہیں۔ماحول دوست طرزِ زندگی سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
ری سائیکلنگ، پانی اور بجلی کی بچت اور پلاسٹک کے کم استعمال سے نہ صرف قدرتی ماحول بہتر ہوگا بلکہ انسانوں کے اندر احساسِ ذمے داری بھی بڑھے گا۔ماحولیاتی نفسیات ہمیں سکھاتی ہے کہ ہمارا ذہنی سکون صرف اندرونی عوامل پر نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد کے ماحول پر بھی منحصر ہے، اگر ہم اپنی زندگی میں فطرت کو زیادہ جگہ دیں، تو ہم نہ صرف خوش رہ سکتے ہیں بلکہ زیادہ تخلیقی اور مثبت طرزِ زندگی اپنا سکتے ہیں۔ انسان اور فطرت کا تعلق محض حیاتیاتی نہیں، بلکہ ایک گہرا نفسیاتی رشتہ ہے اور اسے برقرار رکھنا ہماری ذہنی صحت اور مجموعی فلاح کے لیے ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قدرتی ماحول میں زیادہ سکتے ہیں کرتا ہے ا لودگی سکتی ہے ہے اور
پڑھیں:
50 لاکھ روپے سائبر فراڈ کا شکار معمر جوڑے نے زندگی ختم کرلی
بھارتی ریاست کرناٹک میں دل دہلا دینے والے واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ بیلاگاوی ضلع کے خانپور تعلقہ میں ایک معمر جوڑے نے سائبر فراڈ اور مبینہ طور پر ہراسانی کا شکار ہونے کے بعد اپنی زندگی ختم کرلی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق خانپور کے بیڑی گاؤں کے رہائشی 82 سالہ ڈیوگجرون سنتن نذرتھ اور ان کی 79 سالہ بیوی فلاویانا نے 50 لاکھ روپے کے سائبر فراڈ اور دھمکیوں کے بعد اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دی۔ معمر جوڑا بے اولاد تھا۔
پولیس کے مطابق، ڈیوگجرون نے خودکشی سے پہلے دو صفحات پر مشتمل ایک خط بھی لکھا، جس میں انہوں نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ کسی کو بھی قصوروار نہ ٹھہرایا جائے، کیونکہ وہ کسی کے رحم و کرم پر نہیں جینا چاہتے تھے۔
یہ افسوسناک واقعہ اس وقت سامنے آیا جب پڑوسیوں نے فلاویانا کی لاش بستر پر پائی، جبکہ ڈیوگجرون کی لاش ان کے گھر کے زیر زمین پانی کے ٹینک میں ملی۔ ڈیوگجرون، جو مہاراشٹر حکومت کے سیکریٹریٹ کے ایک ریٹائرڈ ملازم تھے، نے اپنی گردن پر وار کرکے خودکشی کی۔ ان کی کلائی پر بھی زخم پائے گئے۔
پولیس کو شبہ ہے کہ فلاویانا نے زہر کھایا تھا، حالانکہ اس کی تصدیق پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی ہوگی۔
خط میں ڈیوگجرون نے دو افراد سمت بیررا اور انیل یادیو کا نام لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بیررا، جس نے نئی دہلی سے ٹیلی کام ڈپارٹمنٹ کا اہلکار ہونے کا دعویٰ کیا تھا، نے انہیں بتایا کہ ان کے نام پر ایک سم کارڈ فراڈ سے خریدا گیا ہے اور اسے ہراسانی اور غیر قانونی اشتہارات کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔ بیررا نے بعد میں کال یادو کو منتقل کردی، جس نے کرائم برانچ سے ہونے کا دعویٰ کیا۔
پولیس کے مطابق، یادو نے ڈیوگجرون کی جائیداد اور مالیات کی تفصیلات طلب کیں، اور مبینہ سم کارڈ کے غلط استعمال پر قانونی نتائج کی دھمکی دی۔
فراڈ کا شکار ہوکر ڈیوگجرون نے انہیں 50 لاکھ روپے سے زیادہ منتقل کیے، لیکن انہوں نے مزید رقم کا مطالبہ جاری رکھا۔ انہوں نے 7.15 لاکھ روپے کا گولڈ لون لینے کا بھی ذکر کیا، جس پر 4 جون کو سود واجب الادا تھا۔
خط میں لکھا تھا، ’’رقم ادا کی جانی چاہیے، اور سونا فروخت کیا جانا چاہیے۔ اصل رقم اور سود کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد موصول ہونے والی رقم نامزد افراد کو ادا کی جائے۔‘‘
ڈیوگجرون نے مزید بتایا کہ انہوں نے دوستوں سے رقم ادھار لی تھی اور درخواست کی تھی کہ ان کی بیوی کی سونے کی چوڑیوں اور بالیوں کو فروخت کر کے قرضے ادا کیے جائیں۔
خط میں لکھا تھا، ’’اب میری عمر 82 سال ہے، اور میری بیوی کی عمر 79 سال ہے۔ ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے۔ ہم کسی کے رحم و کرم پر نہیں جینا چاہتے، اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔‘‘
انہوں نے اپنی لاشوں کو طلبا کے مطالعہ کےلیے کسی طبی ادارے کو عطیہ کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
پولیس نے ان کا موبائل فون، چاقو اور خودکشی کا خط تحقیقات کے حصے کے طور پر اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
بیلاگاوی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بھیماشاکر گلیڈ نے کہا، ’’موت کے خط اور ابتدائی انکوائری کی بنیاد پر، ہم نے خط میں نامزد دو ملزمان کے خلاف خودکشی پر اکسانے اور سائبر فراڈ کا مقدمہ درج کیا ہے۔ مزید تحقیقات جاری ہیں۔‘‘