غزہ میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسرائیل نے ہمیشہ عالمی رائے عامہ میں اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو تاریخ کے دوران ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: "7 اکتوبر وہ دن ہے جس نے اسرائیل کے مظلوم نمائی کے افسانے کو ختم کر دیا اور دنیا نے مزاحمت کا نیا چہرہ دیکھا۔" یہ تبدیلی صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ یورپی ممالک میں بھی جوانوں کی بڑی تعداد فلسطینی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے اور صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ آزاد سوچ کے حامل مغربی مفکرین جیسے نوآم چامسکی اور ناتالی توچی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ نکل چکا ہے۔ امریکہ اور صیہونی رژیم حتی بنیادی ترین بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ تحریر: پیمان صالحی
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مقیم فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر جلاوطن کر دینے کی کوششیں جاری ہیں اور اس مقصد کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے قریبی حلقوں نے عالمی اداروں کو بھی کئی منصوبے پیش کر دیے ہیں جبکہ یہ اقدام مغربی مکتب فکر لبرل ازم کے بنیادی اصولوں سے واضح تضاد رکھتا ہے۔ معروف مغربی فلاسفر جان لاک کی نظر میں ایک حکومت اس وقت تک قانونی جواز کی حامل ہے جب تک وہ انسانوں کے تین فطری حقوق کا خیال رکھے: زندہ رہنے کا حق، آزادی کا حق اور مالکیت کا حق۔ لیکن آج عالمی استکباری طاقتیں فلسطین کی سرزمین میں ان تینوں بنیادی حقوق کی نفی کرنے میں مصروف ہیں: فلسطینیوں کی نسل کشی سے ان کا حق حیات ختم ہو چکا ہے، ان کا گھیراو کر کے حق آزادی چھینا جا چکا ہے اور انہیں جبری جلاوطن کر دینے کی کوششوں سے مالکیت کا حق بھی ضائع ہو گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے بانیوں سے وفاداری کا دعوی کیا ہے لیکن اس دعوے کے برعکس وہ ایک ایسے خطے پر اپنا من مانا جیوپولیٹیکل آرڈر مسلط کرنے کے درپے ہے جہاں کی عوام اس آرڈر کو نہ تو مانتی ہے اور نہ ہی پسند کرتی ہے اور یہ آرڈر اس عوام کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی روشنی میں مسلط کیا جا رہا ہے۔ لبرل ازم کی رو سے انسانوں کی آزادی کسی قیمت پر ختم نہیں کی جا سکتی لہذا کس طرح ممکن ہے کہ امن یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایسے منصوبے پیش کیے جائیں جو قومی صفایا یا جبری جلاوطنی پر مشتمل ہوں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ لبرل ازم کا نعرہ لگانے والے صرف اس وقت تک اس کے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں جب تک ان کے مفادات کی تکمیل ہوتی رہتی ہے لیکن جب مفادات سے ٹکراو پیدا ہوتا ہے تو لبرل ازم اور اس کے اصولوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
اسلامی مزاحمت کی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ اور رضوان علی شحادہ اور وصفی حسن ابو محمد اور بہاء ابوالعطاء جیسی شخصیات کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب تک سیاسی طاقت کے روایتی مفہوم پر کاربند ہیں۔ اس مفہوم کی روشنی میں طاقت صرف شخصیات اور فوجی مشینری تک محدود ہے۔ لیکن معروف محقق مالک بن بنی کے بقول ایک تہذیب تین عناصر پر مشتمل ہوتی ہے: انسان، سرزمین اور تفکر۔ حتی اگر کسی جگہ تمام اہم شخصیات کو ختم کر دیا جائے تب بھی جب تک مزاحمتی سوچ موجود ہے اور فلسطین کی سرزمین باقی ہے اسلامی مزاحمت ختم نہیں ہو گی۔ کمانڈرز شہید ہو جائیں گے لیکن جیسا کہ شہید سید حسن نصراللہ نے فرمایا: "مزاحمت افراد نہیں جو ان کے جانے سے ختم ہو جائے بلکہ مزاحمت امت کے اندر روح کی مانند ہے۔"
وسائل کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو اسلامی مزاحمت 90 کی دہائی میں پتھر کے انتفاضے سے شروع ہوئی اور حالیہ چند سالوں میں جدید ترین میزائلوں تک پہنچ گئی۔ ٹیکنالوجی کی یہ ترقی اسرائیل کے سیکیورٹی ماہرین کے نقطہ نظر کے برعکس محض بیرونی مدد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مقامی سطح پر مزاحمت کی ترقی کا ثمرہ ہے۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت کے فوجی تجزیہ کار نے جنوری 2024ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا تھا: "غزہ میں محاصرے کے باوجود ہم ایک ایسے دشمن سے روبرو ہیں جو میزائل اور جنگی مائنوں کی ٹیکنالوجی حاصل کر چکا ہے۔" یہ وسائل اس سوچ کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو اپنا قانونی جواز بین الاقوامی اداروں سے نہیں بلکہ اپنی قوم اور عوام کی حمایت سے حاصل کرتی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی اہم ترین شکست افکار کے میدان میں اس کی شکست ہے۔
اسرائیل نے ہمیشہ عالمی رائے عامہ میں اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو تاریخ کے دوران ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہا ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا: "7 اکتوبر وہ دن ہے جس نے اسرائیل کے مظلوم نمائی کے افسانے کو ختم کر دیا اور دنیا نے مزاحمت کا نیا چہرہ دیکھا۔" یہ تبدیلی صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں تھی بلکہ یورپی ممالک میں بھی جوانوں کی بڑی تعداد فلسطینی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکل آئے اور صیہونی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ آزاد سوچ کے حامل مغربی مفکرین جیسے نوآم چامسکی اور ناتالی توچی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فلسطین میں مغربی لبرل ازم کا جنازہ نکل چکا ہے۔ امریکہ اور صیہونی رژیم حتی بنیادی ترین بین الاقوامی قوانین کی پابندی بھی نہیں کرتے۔
قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور امریکہ نے اس کی ضمانت فراہم کی تھی لیکن اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کر کے غزہ پر دوبارہ فضائی جارحیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اب تک ہزاروں فلسطینی شہریوں کو شہید اور زخمی کر چکا ہے۔ معاہدوں کی خلاف ورزی جدید مغربی فلسفہ سیاست کی رو سے بھی ناجائز اقدام ہے۔ مغربی فلاسفر ہابز اپنی کتاب لویاتھن میں لکھتا ہے: "اگر کسی معاہدے کے اجرا کی یقین دہانی نہ پائی جاتی ہو تو حالات بہت تیزی سے لاقانونیت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔" ہابز کی نظر میں لاقانونیت کی صورت میں سب ایکدوسرے سے جنگ میں مصروف ہوں گے۔ اسرائیل نے مکتوب معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی نظر میں ورلڈ آرڈر اور بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی طاقت سوچ کے مقابلے میں قرار پاتی ہے آخرکار اسے شکست ہوتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی لبرل ازم کا اسرائیل نے اور صیہونی امریکہ اور ہے اور دیا ہے چکا ہے کر دیا اور اس
پڑھیں:
کھرمنگ میں یوم القدس ریلی، عوام کی بھرپور شرکت
مقررین نے کہا کہ امام خمینی کے فرمان کے مطابق دنیا بھر کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ مسلم امہ کو غزہ کے مظلومین کیلئے فوری اور موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان مظلومین پر بدترین ظلم و بربریت کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ متعلقہ فائیلیںرپورٹ: لیاقت علی انجم
عالمی یوم القدس کے موقع پر گلگت بلتستان کے ضلع کھرمنگ میں ریلی نکالی گئی جس مین ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء نے امریکہ اور اسرائیل کیخلاف شدید نعرے بازی کی جبکہ فلسطینیوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ مقررین نے کہا کہ امام خمینی کے فرمان کے مطابق دنیا بھر کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی ڈالے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ مسلم امہ کو غزہ کے مظلومین کیلئے فوری اور موثر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان مظلومین پر بدترین ظلم و بربریت کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ کھرمنگ میں یوم القدس ریلی میں علماء نے خطاب کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو اپنی زمینوں کی حفاظت کرنے پر زور دیا۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial