جویریہ سعود رواں سال رمضان کی سب سے بڑی نشریات کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔

ایکسپریس ٹی وی کی رمضان ٹرانسمیشن کے تمام پروگرامز اور سیگمنٹس پر ریٹنگز اور ویوز بہترین رہے جنہیں عوام کی جانب سے بھی خوب سراہا گیا۔ پیارا رمضان کی نشریات کے کئی ویڈیو کلپس بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئے۔

جویریہ سعود ایکسپریس ٹی وی پر پیارا رمضان کی میزبانی کر رہی ہیں اور خاص طور پر مولانا آزاد جمیل کے ساتھ ان کا سیگمنٹ پورے مہینے وائرل رہا ہے۔

A post common by Express TV (@entexpresstv)

ناظرین کی جانب سے دلچسپ کالز، الیکٹرک میٹر کے وظیفے سمیت کئی چیزوں کے سوشل میڈیا پر خوب چرچے ہوئے۔ جویریہ سعود سال 2025 کے لیے پاکستانی ٹیلی ویژن پر اپنی سب سے بڑی ٹرانسمیشن بنانے میں کامیاب رہیں۔

حال ہی میں یاسر حسین رمضان ٹرانسمیشن میں شریک ہوئے اور انہوں نے اسے وائرل ہونے اور اس سال اس کی سب سے بڑی ٹرانسمیشن کے لیے اعلیٰ درجہ بندی حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔

A post common by Express TV (@entexpresstv)

جس پر پیارا رمضان کی میزبان جویریہ سعود نے کہا کہ وہ ہر چیز کے لیے رب کی شکر گزار ہیں اور وہ ہمیشہ نیت پوری لگن کے ساتھ ہر کام کرتی ہیں اس ہی لئے خدا انہیں کامیاب بھی کرتا ہے۔ 

میزبان نے عوام کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے پیارا رمضان کی ٹرانسمیشن کو پورا ماہ دیکھا اور اسے پسند کر کے اسے کامیاب بنایا۔

 

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پیارا رمضان کی جویریہ سعود

پڑھیں:

خلوص اور محبت سے بھرے عید کارڈ سے واٹس ایپ تک

مختار احمد(مسافر پاکستانی)

٭ ڈاکیے لوگوں کو خوشیوں کے پیغام پہنچا نے کے لئے نا صرف رمضان المبارک میں چو کس ہو تے تھے بلکہ عید الفطر کی چھٹی وا لے روز بھی عید کارڈ لوگوں تک پہنچا نے کے لئے سر گرم نظر آ تے تھے

٭زمانہ قدیم جوکہ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اسی لیے اس وقت چھپائی کے لیے انتہائی سادہ مشینیں ہوا کرتی تھیں جس سے چھاپے گئے کارڈ بھی بے رنگ اور سادہ ہوا کرتے تھے

٭ جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی مشینیں جدیدو رنگ دار ہوئیں تو ایسے ایسے دیدہ زیب عید کارڈز چھاپے جانے لگے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی

٭کیونکہ دور دراز رہنے والوں کو ایک دوسرے سے عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے کوئی دوسرا سہارا نہیں ہوا کرتا تھا لہٰذا عید کارڈز کی چھپائی نے ایک صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا

٭ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رنگین اور دیدہ زیب عید کارڈز کی پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا جاتا تھا جو کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے تک بدستور جاری رہتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب نہ مو با ئل ہو تے تھے اور نہ ہی واٹس ایپ ،وائی فا ئی ،فیس بک ،انسٹا گرام کی سہو لت حاصل تھی اور لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطوں کا انحصار صرف خط و کتا بت پر ہو تا تھا اور لوگ اپنے عزیز و اقا رب کے پیغامات کے لئے محکمہ ڈاک کے ڈاکیوں کا انتظار کر تے تھے جن کا سلسلہ گو کہ سال بھر جا ری رہتا تھا مگر عید الفطر کے موقع پر نا صرف ڈاکخانوں میں کام بڑھ جا تا بلکہ ڈاک بانٹنے والے ڈاکیوں کی بھی موجاں ہو جا تی تھیں۔ ڈاکیے لوگوں کو خوشیوں کے پیغام پہنچا نے کے لئے نا صرف رمضان المبارک میں چو کس ہو تے تھے بلکہ عید الفطر کی چھٹی وا لے روز بھی عید کارڈ لوگوں تک پہنچا نے کے لئے سر گرم نظر آ تے تھے۔

اب یہ تو کو ئی نہیں جانتا کہ عید کارڈ بھیجنے اور وصول کرنے کا رواج کب کہاں اور کیسے شروع ہوا لیکن اس بات کو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رواج چند برسوں کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اور عید کارڈ کو نہ صرف ماضی میں پیغام پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا بلکہ اسی کے ذریعے خوشیاں محبت اور پیار بانٹا جاتا تھا ۔زمانہ قدیم جوکہ زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھا اسی لیے اس وقت چھپائی کے لیے انتہائی سادہ مشینیں ہوا کرتی تھیں جس سے چھاپے گئے کارڈ بھی بے رنگ اور سادہ ہوا کرتے تھے مگر اس پر لکھے گئے پیغام اور دعائیہ کلمات میں خلوص ،محبت اور پیار کی ایسی خوشبو ہوا کرتی تھی جوکہ فی زمانہ میسر نہیں ۔اس کے بعد جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی مشینیں جدیدو رنگ دار ہوئیں تو ایسے ایسے دیدہ زیب عید کارڈز چھاپے جانے لگے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔

اس زمانے میں کیونکہ دور دراز رہنے والوں کو ایک دوسرے سے عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے کوئی دوسرا سہارا نہیں ہوا کرتا تھا لہٰذا عید کارڈز کی چھپائی نے ایک صنعت کا درجہ اختیار کر لیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کے روزگار وابستہ تھے جہاں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی رنگین اور دیدہ زیب عید کارڈز کی پرنٹنگ کا کام شروع کر دیا جاتا تھا جو کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے تک بدستور جاری رہتا تھا اور پھر اس صنعت سے منسلک کارڈز فروخت کرنے والے چند سال قبل تک رمضان المبارک میں ہی دکانیں کرائے پر لے کر عید کارڈز کی فروخت شروع کر دیتے تھے یہاں تک کہ نوجوان اور بچے بھی رمضان المبارک اور عید کی خوشیاں بانٹنے کے لیے شہر بھر کی فٹ پاتھوں پر ،گلی کوچوں میں اسٹال سجاتے اور جہاں عید کے نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری سے قبل لوگ اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کو عید کارڈ بھیجنے کے لیے کارڈوں کی خریداری کرتے تھے ان عید کارڈوں میں زیادہ تر قرآنی آیات ،قومی ہیروز ،فلمی ہیروز اور ہیروئنز، کھلاڑیوں اور رنگ برنگے پھولوں سے مزین کارڈز جن پر عید مبا رک ،عید سعید مبا رک ،عید آئی خوشیاں لا ئی سمیت بزرگوں نو جوانوں اور بچوں کے لئے نا صرف علیحدہ علیحدہ پیغامات درج ہو تے بلکہ ان سے خلوص اور محبت کی خوشبو بھی آ تی تھی بڑے پیما نے پر فروخت ہوتے تھے جس سے نا صرف بچوں ،جوانوں اور بزرگوں کو رشتوں کا لحاظ کر تے ہو ئے ایک دوسرے کو پیغامات بھیجنے کا سلیقہ آ تا تھا بلکہ ان کے دلوں میں محبتوں کے ساتھ ساتھ رشتوں کا احترام بھی نظر آ تا تھا گو کہ یہ محبتوں سے مزین کا رڈ بھیجنے کا سلسلہ رمضان المبا رک کے پہلے عشرے سے ہی شروع ہو جا تا مگر رمضان کے آخری عشرے میں اس میں بے پناہ اضا فہ نظر آ تا تھا جس کے تحت دنیا بھر سے آ نے والے اور جا نے والے عید کارڈوں کی تعداد جو کہ لاکھوں میں ہوا کرتی تھی کی ڈیلیوری اور تقسیم کا مرحلہ شروع ہو جاتا تھا جس کے لیے پوسٹ آفس کو اپنے عملے سے ڈبل ڈیوٹی لینی پڑتی تھی ۔بسا اوقات پوسٹ آفس میں تین تین شفٹوں میں صرف عید کے کارڈز کو بھیجنے اور آنے والے کارڈوں کو تقسیم کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا تھا۔

اسی طرح کارڈ بیرون شہر سے آنے والے عید کارڈوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں ہوتی تھی جس کے سبب پوسٹ مینوں کا کام میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا تھا اور پوسٹ مین انہیں دن اور رات میں تقسیم کرتے نظر آتے تھے مگر بہت سارے پوسٹ مین ایسے بھی ہوتے تھے جوکہ آنے والے عید کارڈز کو چھپا کر رکھ لیتے تھے اور عین عید والے روز انہیں گھر گھر تقسیم کر کے عیدیاں وصول کرتے اور لوگ انہیں بخوشی عیدی دیا کرتے تھے بلکہ اکثر گھروں میں محبت کا پیغام لے کر آنے والے ان پوسٹ مینوں کی سویوں اور کھانے پینے کی اشیاء سے تواضع بھی کی جاتی تھی پھرجب زمانے نے ترقی کی اور انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا، واٹس ایپ،فیس بک ،انسٹا گرام ،ایس ایم ایس کے ذریعے مہینوں کا سفر سیکنڈوں میں طے ہو نے لگا تو گویا تو لوگوں کی دنیا ہی بدل گئی اور انہوں نے عید کارڈ کی خریداری ہی چھوڑ دی جس کے پیش نظر نا صرف عید کارڈ چھاپنے والے پریس نے عید کارڈ چھاپنے بند کر دیے بلکہ وہ نوجوان جو کہ رمضان المبا رک کے با بر کت موقع پر ٹائم پاس کر نے اور عید کے خر چے نکالنے کے لئے شہر بھر میں جو عید کارڈوں کے اسٹال لگا یا کر تے تھے، انہوں نے بھی عید کارڈ کی خرید و فروخت میں دلچسپی لینا چھوڑ دی اور بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی اپنا کاروبار تبدیل کر لیا جس کے سبب عید کارڈوں کے ذریعے شہر کے گلی ،کو چوں،محلوں اور شاپنگ سینٹر پر لگا ئے جا نے والے عید کارڈ کے اسٹال یکسر ختم ہو کر رہ گئے اور اس کی جگہ بزرگوں ،نو جوانوں اور بچوں نے جدید سہولیات کا سہا را لے کر بجا ئے اپنے عزیز و اقارب ،دوست احباب کو خوشیوں بھرے عید پیغامات بھیجنے کے صرف ہیلو ہا ئی پر اکتفا کر نا شروع کر دیا ہے جس میں نہ تو محبتیں ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ پہلے جیسا خلوص نظر آتا ہے جسے عموما لوگ وقت کی کمی قرار دیتے ہیں مگر یہ وقت کی کمی نہیں بلکہ رشتوں میں فاصلوں اور محبتوں کی کمی ہے جسے دور کر نے کے لئے ہمیں مل جل کر ایک بار پھر عید کارڈوں کے پرا نے اور فر سودہ نظام کو زندہ کر نا ہو گا جس سے نا صرف آپس میں پیار بڑھے گا بلکہ نوجوان ،بوڑھے اور بچے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے ۔

متعلقہ مضامین

  • مدتوں نہ بھلائے جانے والے ڈرامے کا او ایس ٹی جاری
  • اپوزیشن چاہتی ہے وفاقی حکومت گرائی جائے، ہم گیم کامیاب نہیں ہونے دینگے، مراد علی شاہ
  • خلوص اور محبت سے بھرے عید کارڈ سے واٹس ایپ تک
  • عید مبارک۔۔۔۔۔ !
  • رمضان کی برکتوں کو روز مرہ زندگی میں نافذ کریں، اصل خوشی دوسروں کیساتھ خوشیاں بانٹنے میں ہے: صدر زرداری
  • عید کے موقع پر پاکستان ریلوے ایک مرتبہ پھر ٹرینوں کو بروقت چلانے میں ناکام
  • کٹھوعہ میں حملہ آور ہلاک ہونے والے بھارتی پولیس اہلکاروں کے ہتھیار لے کر فرار
  • فتنہ الخوارج سمیت کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو ملک کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے
  • رمضان شو میں ’بانجھ پن‘ کا علاج پوچھنے کی ویڈیو وائرل
  • کلائمیٹ فنانسنگ پر بات چیت کامیاب، پاکستان کو 1.3 ارب ڈالر ملیں گے: آئی ایم ایف کی تصدیق