Islam Times:
2025-04-01@02:46:06 GMT

مودی حکومت بینکوں کے ذریعے عوام کو لوٹ رہی ہے، کانگریس

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

مودی حکومت بینکوں کے ذریعے عوام کو لوٹ رہی ہے، کانگریس

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ بی جے پی حکومت کی اقرباء پروری اور ریگولیٹری بدانتظامی نے ہندوستان کے بینکنگ سیکٹر کو بحران میں ڈال دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس نے مودی حکومت پر شدید حملہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ بینکوں کے ذریعے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے بینکوں کو "کلیکشن ایجنٹ" بنا دیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 2018ء سے 2024ء کے درمیان بینکوں نے عوام سے کم از کم بیلنس نہ رکھنے پر 43500 کروڑ روپے وصول کئے ہیں۔ ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ مودی حکومت نے بینک فیس کے نام پر لوٹ مچا رکھی ہے۔ کانگریس کے صدر نے کہا کہ پہلے حکومت پارلیمنٹ میں ان چارجز کے ذریعے جمع کی گئی رقم کا حساب دیتی تھی، لیکن اب آر بی آئی کے نام پر یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔

اس دوران کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کبھی اے ٹی ایم فیس، کبھی کم از کم بیلنس، کبھی کے وائی سی کے نام پر عوام کی جیبوں سے معمولی رقم چوری کر کے حکومت بینکوں کے خزانے بھرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر بڑے چور آ کر بینکوں سے ہزاروں کروڑ لوٹ کر بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت عوام کو مہنگائی اور بے لگام لوٹ مار کے شکنجے میں جکڑ رہی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایک پرائیویٹ بینک کے کچھ ملازمین سے ملاقات کر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے بعد انہوں نے بی جے پی پر بینکنگ سیکٹر کو بحران میں ڈالنے کا سنگین الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کی اقرباء پروری اور ریگولیٹری بدانتظامی نے ہندوستان کے بینکنگ سیکٹر کو بحران میں ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے جونیئر ملازمین کو تناؤ اور دباؤ کی حالت میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مودی حکومت کانگریس کے نے کہا کہ انہوں نے بی جے پی

پڑھیں:

حکومت کی طرف سے عوام کوعیدکا تحفہ

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی حالات کے مطابق ردوبدل عمومی طور پرہمارے یہاں ہر ماہ میں دوبار یعنی یکم اورپندرہ تاریخ کو کیاجاتاہے لیکن اس بار 28مارچ کی شام کو ہی پٹرول کی قیمت میں ایک روپے کا خطیر ریلیف دے کر عوام کی عید کی خوشیوں کودوبالا کردیا ۔

گزشتہ پندرواڑے کو یعنی پہلی مارچ کو جب دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم اورسستی ہوگئی تھیں تو اس نے یہ ریلیف عوام کو منتقل کرنے کے بجائے اپنے خزانے میں منتقل کردیا تھا۔ جو دس روپے کا ریلیف عوام کو ملناچاہیے تھا وہ لیوی کی مد میں اضافہ کرکے اپنی جھولی میں ڈال دیا۔یہ لیوی جو پہلے ہی بہت زیادہ تھی یعنی 60 روپے فی لٹر اسے 70روپے فی لٹر کردیا۔ویسے تو جب جب عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے تو ہماری حکومت IMF کی ہدایتوں کا بہانہ بنا کراسے عوام تک پہنچانے سے معذرت کردیتی ہے۔256 روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت میں سے ایک روپیہ کم سے بہتر تھا کہ وہ یہ ریلیف خود ہی رکھ لیتی اورعوام کو منتقل نہ کرتی۔

اس طرح اسے کم ازکم پارلیمنٹرین کی تنخواہوں میں غیر ضروری اضافے کے بوجھ میںکچھ کمی مل جاتی۔عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کے لیے IMF کی کڑی شرطیں یاد آجاتی ہیں اورجب اپنا مفاد ہوتو تمام شرائط نظر انداز کرکے ایک طرف رکھدی جاتی ہیں۔کہنے کو ہماری حکومت ہرروز یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اس ایک سال میں مہنگائی کی شرح میں بہت کمی واقع ہوئی ہے ۔جو شرح ایک سال پہلے تک تیس بتیس فیصد تھی وہ کم ہوکرپانچ یا ساڑھے پانچ فیصد ہوچکی ہے۔حالانکہ اس کمی کا فائدہ عوام کو ابھی تک محسوس نہیں ہوا ہے۔جو مہنگائی اسی حکومت یعنی PDM کی سولہ ماہ کی حکومت نے کی تھی وہی اگر کم ہوجاتی تو شاید عوام خوش ہوجاتے ۔

مہنگائی کی شرح نمود میں کمی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہمارے یہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس شرح نمود میں کمی کا مطلب مہنگائی بڑھنے کی شرح میں پہلے نسبت کچھ کمی ہوئی ۔یعنی مہنگائی تو ہنوز جاری ہے۔جو خوردنی تیل پہلے 550 روپے فی لٹر مل رہا تھا وہ اب بھی اسی قیمت بلکہ کچھ مہنگاہی مل رہا ہے۔

اسی طرح چینی کی قیمت کو لے لیجیے جوایکسپورٹ کی اجازت سے پہلے 130روپے فی کلو ہرجگہ دستیاب تھی چھ ماہ میں وہ 170 روپے فی کلوتک جاپہنچی۔وزیراعظم ایکسپورٹ کی اجازت دینے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر ایکسپورٹ کرنے سے یہ مہنگی ہوگی تو ہم برآمد کرنے کی یہ اجازت واپس لے لیں گے۔مگر اب اسی قیمت کو سرکاری قیمت کے طور پرعوام پرلاگو کردیاگیا ہے۔یعنی عوام کو صرف زبانی وکلامی دلاسے اور لارے لپے دیکر کام چلالیاگیا ہے۔ چینی کے کارخانے داروں کو بھی فائدہ پہنچادیاگیا اوراضافی چینی ایکسپورٹ بھی کردی گئی ۔

 ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ چینی مافیا میں کون کون سے لوگ شامل ہیں۔چینی کے کارخانے دار ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں نقصان کا احتمال بہت ہی کم ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں بہت سے لوگ اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔جب جب ان کے منافع میں کمی ہونے لگتی ہے یہ چینی کابحران پیداکرکے اس کی قیمت میں من مانا اضافہ کروالیتے ہیں۔ پہلے اضافی چینی کا بہانہ بناکراور اسے ایکسپورٹ کرکے اور پہلے مصنوعی قلت پیداکرکے اسے امپورٹ بھی کرواکے اورپھرعالمی ریٹس پراس کی قیمت بڑھواکراپنا منافع دگنا کرلیتے ہیں۔

اس طرح چٹ بھی میری اورپٹ بھی میری کی مصداق یہ کبھی بھی خسارے میں نہیں رہتے۔یہ سلسلہ کوئی آج کا نہیں ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف دور میں بھی اوران کے بعد کے ادوارمیں بھی یہی کچھ ہوتا آیاہے۔انھیں معلوم ہے کہ یہ گیم کس طرح کھیلی جانی ہے اورکس طرح حکومت سے اپنے مطالبے منوالینے ہیں۔ہم اگر کارخانے داروں کے مالکان کاجائزہ لیں تو پتاچل جائے گا کہ ان کے اکثریت کن سیاستدانوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات کیسے بھی ہوں انھیں نقصان ہرگز نہیں پہنچتا۔

ہمار ی مہربان اس حکومت نے چینی اورپٹرول کی طرح اب بجلی کے نرخ بھی کم کرنے کا دعویٰ کیا ہواہے اورشاید عید بعد کوئی پیکیج بھی سامنے آنے والاہے۔مگر ہمیں اس پیکیج سے بھی کوئی آس واُمید نہیں ہے۔

یہ پیکیج بھی پہلے پیکیجز کی طرح عوام کی آنکھوں میں دھول تو ضرور پھونکے گا مگر براہ راست کوئی ریلیف نہیں پہنچائے گا، بس صرف حکومت کی کارکردگی میں اضافے کے طور پرشمار اوراس کی تشہیری مہم کا ذریعہ ضرور بنے گا۔گزشتہ دسمبرمیں بھی حکومت نے ایک ایسا ہی پیکیج دیاتھا جس کا فائدہ نجانے کس مخلوق کو پہنچا، غریبوں کو تو بجلی اسی نرخ پرملتی رہی جو پہلے مل رہی تھی۔ہاں صرف کاغذوں اورحکومتی اعدادوشمار میں اس کااندراج ضرور ہوگیا ہے۔

 موجودہ وزیراعظم اس حقیقت سے انکار ہرگز نہیں کرسکتے ہیں کہ اُن کے سابقہ 16 ماہ کے دور اقتدارمیں جو مہنگائی ہوئی تھی ، اس کا خمیازہ مسلم لیگ نون کو فروری 2024 کے الیکشنوں میں بھگتنابھی پڑا تھا۔ ملک کا معاشی بحران ابھی مکمل طور پرٹلا نہیں ہے، صرف مؤخرہواہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی مصنوعی ہے، اِن ذخائر میں سے آٹھ نو ارب ڈالرز جو قرض خواہوں کو واپس کردیے جائیں تو ہمیں زمین بوس ہو جانے میںلمحہ بھرکی دیر نہیں لگے گی۔

شاندار کارکردگی کا سارا بھرم کھل کرعیاں ہوجائے گا۔ دوست ممالک کی مہربانیوں کی وجہ سے معاشی طور پرکچھ دیر کے لیے ہمیں سانس لینے کاموقعہ ملا ہے ورنہ تو ہم وینٹی لیٹر پر پہنچ چکے تھے۔آج اگر یہ سرپرستی واپس لے لی جائے تو لگ پتاجائے گا کہ کارکردگی کیاہوتی ہے۔ایک طرف 26ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے اس خطرے سے نجات ملی جو اگر مسلط ہوجاتا توشاید یہ حکومت ہی نہ رہتی۔ دوسری جانب وفاقی وزیرخزانہ اورآرمی چیف کی مدد نے IMFسے ملنے والے قرض کو ممکن بنایا ۔

 حکومت کومعلوم ہوناچاہیے کہ اس کا مینڈیٹ ابھی خطرات سے باہر نہیں نکلا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی جب چاہے اپنا کام کرسکتی ہے ، وہ اگر فی الحال حمایت پرمجبور ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی بڑا ہاتھ کارفرماہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اقتدار کو نعمت غیرمترقبہ جان کرملک کی ترقی دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف پہنچانے کے جتن کرے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان باعزت بری ہوں گے، وزیراعلیٰ گنڈا پور
  • مودی حکومت نے تعلیمی نظام کو کمزور کر دیا ہے، سونیا گاندھی
  • اگر ممتا بنرجی کی حکومت بنی رہی تو ہندوؤں کا وجود ختم ہوجائیگا، بی جے پی
  • حریت کانفرنس کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ
  •  پاکستان جامع پالیسیوں کے ذریعے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پرعزم ہے‘مصدق ملک
  • عید الفطر پر عوام کے لیے حکومتی فطرانہ
  • حکومت کی طرف سے عوام کوعیدکا تحفہ
  • بینک ملازمین کی ملی بھگت سے عوام گڈیوں سے محروم، لوگ نئے نوٹوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے
  • فجی اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا ، اسپیکر فجی پارلیمنٹ