بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے مینارٹی ایڈوائزری کونسل کے قیام
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
صوبائی وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ کو کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ سینئر سیاسی رہنما کامران بھٹی کو نائب چیئرمین اور عاقب عالم کو کنوینر نامزد کیا گیا ہے۔ مینارٹی ایڈوائزری کونسل 38 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں سکھ، مسلم، ہندو اور خواتین ممبران کی نمائندگی موجود ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب حکومت نے اقلیتی برادریوں کے مسائل حل کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے مینارٹی ایڈوائزری کونسل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ صوبائی وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ کو کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ سینئر سیاسی رہنما کامران بھٹی کو نائب چیئرمین اور عاقب عالم کو کنوینر نامزد کیا گیا ہے۔ مینارٹی ایڈوائزری کونسل 38 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں سکھ، مسلم، ہندو اور خواتین ممبران کی نمائندگی موجود ہوگی۔ کونسل کی مدت تین سال ہوگی تاہم حکومت کو اسے قبل از وقت تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
تمام ارکان بشمول چیئرمین، نائب چیئرمین اور کنوینر بلا معاوضہ کام کریں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کسی بھی رکن، بشمول چیئرمین، نائب چیئرمین یا کنوینر کو معطل یا برطرف کرنے کا اختیار رکھیں گے۔ کونسل حکومت کو اقلیتی برادریوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مشورے دے گی اور ترقیاتی منصوبوں کی تجاویز بھی پیش کرے گی۔ رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے کہ اقلیتی برادریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مینارٹی ایڈوائزری کونسل نائب چیئرمین کیا گیا ہے
پڑھیں:
پیکا ایکٹ کیخلاف صحافی تنظیمیں میدان میں آگئیں، ڈی چوک میں دھرنا، گرفتاری دینے کا اعلان
لاہور پریس کلب کے صدر اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکریٹری ارشد انصاری نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم (پیکا) ایکٹ ختم نہ کرنے پر اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنے اور گرفتاری دینے کا اعلان کر دیا۔
پیکا ایکٹ کیخلاف صحافی تنظیمیں میدان میں آگئیں، لاہور پریس کلب کے باہر صحافی برادری نے بھرپور احتجاج کیا۔
لاہور پریس کلب کے باہر پیکا ایکٹ، تنخواہوں کی عدم ادائیگی ، صحافیوں کی ناجائز گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
اس موقع پر صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیکا قانون کالا قانون ہے، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) پیکا ایکٹ بنانے میں ملوث ہیں، قانون ختم نا کیا گیا تو عید کے بعد ڈی چوک میں احتجاج ہوگا۔
معروف اینکر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ ہمارے لیے ناقابل قبول ہے، پیکا ایکٹ سے ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہوگا۔
انسانی حقوق کی چیئرمین منیزہ جہانگیر نے کہا کہ کالے قانون کو مسترد کرتے ہیں، اگر حکومت کو کوئی مسئلہ ہے تو سب کے سامنے بات کرے۔
اس موقع پر صدر لاہور وپنجاب اسمبلی پریس گیلری خواجہ نصیر احمد اور سیکریٹری عدنان شیخ نے بھی احتجاج میں شرکت کی اور مظاہرین سے خطاب کیا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کی تھی۔ صدر پاکستان کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا تھا۔
پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔
Post Views: 1