کراچی(نیوز ڈیسک)پاکستانی اداکارہ و میزبان فضا علی نے شوہروں کے حقوق پر بات کرتے ہوئے شادی شدہ خواتین کو ایسی نصیت کردی کہ سوشل میڈ یا پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑ گیا۔

دورانِ رمضان ٹرانسمیشن انہوں نے شوہروں کے حقوق کے موضوع پر بات چیت کی اور کہا کہ خواتین کے حقوق پر تو ہر کوئی بات کرتا ہے لیکن کوئی مردوں کے حقوق کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، ان کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا۔شو کے دوران ایک خاتون کالر نے اپنا دکھ بیان کیا اور کہا کہ میں 28 سال کی ہوں، میرے 3 بچے ہیں، اپنے گھر اور بچوں کو میں اکیلی سنبھالتی ہوں، شوہر نہ کماتا ہے نہ بچوں کو سنبھالتا ہے، بلکہ ذہنی تشدد کرتا ہے، جب معاشرے میں میرے شوہر جیسے مرد موجود ہیں تو آپ پھر شوہروں کے احترام کا پرچار کیسے کر سکتی ہیں؟

اداکارہ نے کالر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر کیس، سب کی زندگی مختلف ہوتی ہے لیکن عورت کو پھر بھی شوہر کی عزت کرنی چاہیے کیونکہ اللّٰہ نے اسے یہ حق دیا ہے، آج کی خواتین جب پیسہ کمانا شروع کر دیتی ہیں تو خود کو مردوں کے برابر سمجھنے لگ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالات کیسے بھی ہوں عورت کو اپنے شوہر کی عزت کرنا چاہیے خواہ وہ بدحالی میں ہی کیوں نہ رہ رہی ہو، کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ فضا علی کی اس بات پر سوشل میڈیا صارفین بھڑک گئے اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنا یا اور انہیں یاد دلا یا کہ انہوں نے خود اسی نوعیت کے مسائل کے سبب اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ایک صارف نے سوال کیا کہ جب وہ اپنے سابق شوہر کے مزاج میں تبدیلیاں برداشت کر سکتی تھیں تو انہوں نے خود دو بار طلاق کیوں لے لی؟
مزیدپڑھیں:عیدالفطر پرموسم کیسا رہے گا؟محکمہ موسمیات نےخوشخبری سنادی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انہوں نے کے حقوق کہا کہ

پڑھیں:

خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج

زندگی کے اس دور میں جہاں ہر طرف شور و غل، مادی عیش و آرام، اور دنیا کی بے شمار مصروفیات ہیں، انسان کی روحانیت اور ایمان کا کمال تنہائی میں ہی ملتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے رب کے ساتھ رشتہ مضبوط کرتا ہے۔ اپنی ذات میں غور و فکر کرتا ہے اور اپنی روح کو سکون اور تقویٰ کی حالت میں پاتا ہے۔

اسلام میں خلوت کو ایک نہایت اہم مقام حاصل ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب انسان اپنے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اللہ کی رضا کےلیے سوچتا ہے اور اپنی زندگی کے مقصد کو پہچانتا ہے۔

تنہائی صرف جسمانی طور پر اکیلا ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی اور روحانی کیفیت ہے جس میں انسان دنیا کی تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو کر اپنے اندر جھانکتا ہے۔ یہاں وہ اپنے اعمال، نیتوں اور دل کی حالت کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ خلوت ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جب انسان ہر قسم کی دنیاوی الجھنوں سے آزاد ہو کر اپنے روحانی سفر پر غور و فکر کرتا ہے۔

تقویٰ، یعنی اللہ کا خوف۔ اس کی رضا کی کوشش اور برائیوں سے بچنا۔ ایمان کا اصل جوہر ہے۔ تقویٰ انسان کے دل کی حالت کو درست کرتا ہے اور اس کے اندر اللہ کے احکام کے بارے میں احترام اور محبت پیدا کرتا ہے۔ جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کا خوف اور اس کی محبت بڑھتی ہے کیونکہ اس وقت وہ صرف اللہ کے سامنے ہوتا ہے۔ کوئی انسان یا دنیاوی چیز اس کے درمیان نہیں آتی۔ اس وقت کی عبادت سب سے زیادہ قیمتی اور خالص ہوتی ہے۔

لہٰذا گناہ سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ بندہ اپنے دل میں یہ احساس پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہے ہیں، خواہ میں لوگوں کے سامنے ہوں یا لوگوں سے پوشیدہ ہوں، میں کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہوسکتا۔

ایمان کی معراج خلوت  میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان اپنی ذات سے جڑتا ہے اور دل کی گہرائیوں میں اللہ کی ہدایات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

معجم صغير للطبراني كتاب الرقاقِ میں دلوں کو نرم کرنے کے بیان میں حدیث نمبر 1011
 
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں، کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنی امّت میں سے ایسے لوگ نہیں چاہتا جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑ جیسی نیکیاں لے کر آئیں اور اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کو بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ بنا دے۔‘‘ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں بتائیے وہ کن اوصاف والے ہیں تاکہ ہم ان جیسے نہ ہوں، جب کہ ہمیں ان کا علم نہیں ہو؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ خلوت اختیار کرتے ہیں تو اللہ کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘

تنہائی میں انسان اپنی عبادات میں خلوص پیدا کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی دکھاوے کے صرف اللہ کی رضا کےلیے عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے رب کے سامنے سر جھکاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے جو کہ اس کی سچی محبت اور ایمان کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کی عبادت میں وہ سکون اور تسکین ہوتی ہے جو دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں مل سکتی۔

تنہائی میں انسان اللہ کے قریب تر ہوتا ہے وہ اپنے رب کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کرتا ہے جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ جب انسان تنہائی میں اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اسے ایک غیر معمولی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔

اسلام میں تقویٰ کا مفہوم صرف دنیا سے اجتناب نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کرنا ہے۔ جب انسان تنہائی میں ہوتا ہے تو وہ دنیا کی تمام الجھنوں سے آزاد ہو کر اپنے دل کی صفائی کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کی عبادت اور دعائیں بے پناہ خلوص سے بھری ہوتی ہیں اور یہی خلوص اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔

تنہائی کا فائدہ یہ ہے کہ انسان دنیا کے فتنوں سے بچا رہتا ہے۔ جب انسان دنیا کی مادیات اور اس کے فریب سے دور رہتا ہے تو وہ اللہ کی رضا کےلیے زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے انسان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور وہ اللہ کے احکام پر چلنے کی سچی کوشش کرتا ہے۔

ذکرِ الہی جیسے ’’سبحان اللہ‘‘، ’’الحمدللہ‘‘، ’’اللہ اکبر‘‘ وغیرہ پڑھنے سے انسان اللہ کی یاد میں رہتا ہے اور اس کا دل نرم اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ صاحب علم فرماتے ہیں

’’اگر تم تقویٰ اختیار کرلو تو تمہاری دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔‘‘
’’جس شخص میں تقویٰ ہو اس کی زبان ہمیشہ سچ بولتی ہے اور اس کا دل پاک ہوتا ہے۔‘‘
 
امام غزالیؒ نے فرمایا: ’’تقویٰ کا مقصد صرف گناہوں سے بچنا نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے ہر عمل کو بہترین بنانا ہے۔‘‘

تقویٰ انسان کو اس کی فطرت کے قریب لے آتا ہے اور زندگی کو سچے اور پائیدار راستے پر گامزن کرتا ہے۔ تنہائی میں انسان کے پاس اپنے اندر کی خواہشات اور جذبات پر قابو پانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ دنیا کی تمام لذتوں سے دور رہ کر انسان اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ جس سے تقویٰ کی روح پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔

تنہائی میں خشیت الٰہی مغفرت اور جنت کا راستہ ہے۔ بیشک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کےلیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔

ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کی کڑی نگرانی رکھنی چاہیے۔ اپنے باطن کو ظاہر کر دیں اور ظاہر کو باطن کرلیں۔ ظاہر اور باطن میں تضاد نہ ہو۔ تقویٰ تب ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ تنہائی میں ایک انسان کا دل اور دماغ عبادت کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ انسان نماز، ذکر، اور تلاوت قرآن میں وقت گزار سکتا ہے۔ ان عبادات کے ذریعے دل کی سکونت بڑھتی ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور پر رات کی تنہائی میں جب انسان اللہ کے سامنے سر جھکاتا ہے وہ روحانیت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرتا ہے۔

خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج پانا ایک روحانی سفر ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لے جاتا ہے۔ یہ وقت اللہ کی رضا کےلیے خود کو بہتر بنانے کا، اپنے دل کو صاف کرنے کا اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کا ہوتا ہے۔ تنہائی میں انسان اللہ کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا دل اللہ کی محبت اور خوف سے معمور ہوتا ہے اور یہی وہ کیفیت ہے جو انسان کو ایمان کی معراج تک پہنچاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ریمپ واک کے دوران ایشان کھتر کے کپڑے اتارنے پر لوگوں کی تنقید، ویڈیو وائرل
  • فیصل آباد؛ شوہر کے سامنے خاتون سے اجتماعی زیادتی کا تیسرا ملزم بھی گرفتار
  • عید الفطر کے موقع پرایدھی فاؤنڈیشن کے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ
  • محرر نے لیڈی پولیس اہلکار کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، ویڈیو بناکر بلیک میل بھی کرتا رہا
  • خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج
  • پیکا ایکٹ کیخلاف صحافی تنظیمیں میدان میں آگئیں، ڈی چوک میں دھرنا، گرفتاری دینے کا اعلان
  • اقلیتی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ریمارکس پر پاکستان کا بھارت کو کرارا جواب
  • حکومت نے بجلی سستی کرنے کی سمری نیپرا کو ارسال کردی
  • افغانستان میں زلمے خلیل زاد کی واپسی ایک نیا گیم پلان جس کا نشانہ پاکستان ہے: برگیڈئیر آصف ہارون