لاہور:

پنجاب حکومت نے اقلیتی برادریوں کے مسائل حل کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مینارٹی ایڈوائزری کونسل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

صوبائی وزیر اقلیتی امور رمیش سنگھ اروڑہ کو کونسل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ سینئر سیاسی رہنما کامران بھٹی کو نائب چیئرمین اور عاقب عالم کو کنوینر نامزد کیا گیا ہے۔  

مینارٹی ایڈوائزری کونسل 38 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں سکھ، مسلم، ہندو اور خواتین ممبران کی نمائندگی موجود ہوگی۔ کونسل کی مدت تین سال ہوگی تاہم حکومت کو اسے قبل از وقت تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔  

تمام ارکان بشمول چیئرمین، نائب چیئرمین اور کنوینر بلا معاوضہ کام کریں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کسی بھی رکن، بشمول چیئرمین، نائب چیئرمین یا کنوینر کو معطل یا برطرف کرنے کا اختیار رکھیں گے۔  

کونسل حکومت کو اقلیتی برادریوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مشورے دے گی اور ترقیاتی منصوبوں کی تجاویز بھی پیش کرے گی۔  

رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے کہ اقلیتی برادریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے

ریاض احمدچودھری

کل جماعتی حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے بھارت کی جانب سے فوجی اور فرقہ وارانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی مذمت کی ہے۔حریت ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کالے قوانین کی آڑ میں پرتشدد کارروائیوں،بلاجوازگرفتاریوں اور املاک کی ضبطی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت نے کشمیریوں کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ان جابرانہ اقدامات سے کشمیریوں کو جدوجہد آزادی سے روکا نہیں جاسکتا۔ بھارتی اقدامات فلسطین میں اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی طرح ہیں۔ بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے مقبوضہ علاقے میں اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو جاری رکھتے ہوئے ضلع پونچھ میں مزید تین کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ بھارتی پولیس نے کیرنی اور قصبہ کے دیگر علاقوں میں نجب دین، محمد لطیف اور محمد بشیر کی جائیدادیں ضبط کر لیں۔یہ اقدام کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کو کمزور کرنے کی بی جے پی کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 2019میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو معاشی طورپر کمزور کرنے اورمقبوضہ علاقے میں آباد ی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے سینکڑوں کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔
عید الفطر سے قبل وادی کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کی وکالت کرتے ہوئے ڈی ڈی سی ممبر ترال اور عوامی اتحاد پارٹی کے سابق اسمبلی الیکشن امیدوار ڈاکٹر ہر بخش سنگھ نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خیر سگالی کے جزبے کے تحت سیاسی قیدیوں بشمول حریت لیڈران رہا کرے۔ انجینئر رشید اور ارت پال سنگھ کو بھی رہا کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ عوام کے چنے ہوئے نمائندے ہیں۔ ان سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن انہیں جیلوں میں بند رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ڈاکٹر ہر بخش سنگھ کے مطابق ”مرکزی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کسی انسان کو قید میں ڈال کر اسکی سوچ کو قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔بھارت کے آئین کو ماننے والے افراد کی سوچ میں فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کو جیل میں نظریات کی بنیاد پر نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ سنگھ نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی کہ ممبر پارلیمان انجینئر رشید کے ساتھ ساتھ جیلوں میں بند حریت لیڈران کو بھی رہا کیا جائے اور معمولی جرائم میں بند لوگوں کو خیرسگالی کے جزبے کے تحت رہا کیا جائے۔ڈاکٹر ہربخش سنگھ کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل وہ پی ڈی پی کے ترجمان تھے اور انہیں پارٹی قیادت کے نزدیک تصور کیا جا تھا لیکن اسمبلی الیکشن میں منڈیٹ نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے پی ڈی پی کو خیر باد کہا اور راتوں رات انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی میں شمولیت اختیار کی جنہوں نے انہین ترال کے حساس انتخابی حلقے سے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ اس دوران پی ڈی پی نے سابق وزیر اور اسپیکر مرحوم علی محمد نائیک کے فرزند رفیق احمد نائیک کے حق میں منڈیٹ کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر ہربخش سنگھ جنہیں ڈاکٹر شنٹی کے نام سے بھی جانا جا تا ہے کو جوانوں کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا لیکن وہ وٹوں کے کم فرق سے الیکشن ہار گئے۔ تاہم ڈی ڈی سی ممبر ہونے کی وجہ سے انکی سرگرمیاں ابھی علاقے میں بدستور جاری ہیں۔سنگھ نے بتایا کہ جموں وکشمیر کے ڈیلی ویجرس کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے اور اس کو جلد از جلد حل کیا جانا چاہئے اور وزیر اعلیٰ کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل دینا اگرچہ ایک مثبت اقدام ہے تاہم اس میں کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ گزشتہ حکومت میں اس حوالے سے کابینہ کا فیصلہ لیا گیا تھا اس پر ہی کام کرنا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر عید سے قبل ہی ڈیلی ویجرس کو مستقل کیا جاتا تو انکی حقیقی عید ہو جاتی۔ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں وکلا ء کا کہنا ہے کہ انہیں نئی دلی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کی طرف سے عدالت میں سیاسی نظربندوں کے مقدمات کی پیروی ترک کرنے کے لیے شدید دبا ئو کا سامنا ہے۔وکلا ء نے کہا کہ بھارتی حکام ان پر دبا ئوڈال رہے ہیں کہ وہ خاص کر آزادی پسند کارکنوں کے مقدمات کی پیروی کرنے سے گریز کریں۔
بھارتی حکام کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف کے باعث وکلا ء کی ہچکچاہٹ سے ہزاروں کشمیری قانونی امداد سے محروم ہوگئے ہیں۔ حالات یہاں تک بگڑ گئے ہیں کہ ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم جیسے غیر قانونی طور پر نظر بند سینئر وکلا ء عدالتوں میں اپنی نمائندگی کے لئے باہر سے وکلا کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔یہ رجحان نہ صرف قانونی نمائندگی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے جدوجہد آزادی کشمیر سے وابستہ رہنمائوںا ور کارکنوں کے ساتھ ہونے والی شدید ناانصافی کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے
  • پنجاب حکومت کی کارروائی، ٹرانسپورٹرز پر 23 لاکھ روپے سے زائد جرمانے
  • اسلام آباد پولیس نے عیدالفطر کیلئے مربوط سیکیورٹی پلان ترتیب دے دیا
  • بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے مینارٹی ایڈوائزری کونسل کے قیام
  • عالمی بینک نے پاکستان کیلیے 30 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی، رقم پنجاب ایئر پروگرام پر خرچ ہوگی
  • پنجاب میں اقلیتی برادریوں کے مسائل کے حل کیلئے مینارٹی ایڈوائزری کونسل قائم، رمیش سنگھ اروڑہ چیئرمین مقرر
  • شوال کے چاند کی پیدائش آج رات کس وقت ہوگی؟
  • ’’ہوا صاف کرنے‘‘ کیلئے 84 ارب روپیہ آرہا ہے
  • قائم مقام چیئرمین سینیٹ کی کوئٹہ میں مختلف سیاسی، سماجی اور قبائلی شخصیات کے انتقال پر تعزیت