لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستانی معروف یوٹیوبر رجب بٹ نے اپنے نئے پرفیوم کے نام پر ایک بار پھر باقاعدہ معافی مانگتے ہوئے چوہدری بصیرت علی چشتی کو اپنا وکیل مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ ویڈیو پیغام میں رجب بٹ نے باضابطہ معافی نامہ جاری کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے ایک قانونی ٹیم کی خدمات حاصل کی ہیں جو میرے خلاف الزامات کا دفاع کرے گی۔

نئی ویڈیو میں یوٹیوبر نے کہا کہ میرا نام رجب بٹ ولد محمد افضل بٹ ہے، میں اللّٰہ کی وحدانیت، حضرت محمدﷺ کی ذات اور ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں، میری ایک ویڈیو 295 اے اور 295 سی کے حوالے سے وائرل ہے، جسے غلط رنگ دیا جا رہا ہے مجھے ان دفعات کا علم نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ میں نے ویڈیو میں جس 295 کی بات کی ہے وہ بھارت کے حوالے سے ہے، پاکستان میں موجود دفعات کا مجھے علم نہیں ہے، لہٰذا میں رجب بٹ ولد محمد افضل بٹ چوہدری بصیرت علی چشتی پاکستان تحریکِ لبیک کے سینئر رہنما اور ٹکٹ ہولڈر، جو میرے بڑے بھائی ہیں ان کو اپنا امیر و وکیل مقرر کرتا ہوں، جو میری اس کیس میں رہنمائی کریں گے اور تمام مذہبی علماء، مولانا سعد رضوی، مفتی منیب الرحمٰن سمیت دیگر سے بات کریں گے اور درخواست کریں گے کہ وہ مجھے اس ناکردہ گناہ پر معاف کردیں۔

اختر مینگل کے دھرنے کے قریب خودکش دھماکا

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

پڑھیں:

ڈیپ سیک جس نے معاصرین کو حیران کر دیا

 دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا کی سٹاک مارکیٹ میں حالیہ27 جنوری تاریخی دن بن گیا۔اس روز صرف ایک چینی ساختہ سافٹ وئیر کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ سے تقریباً ایک ٹریلین ڈالر (دس کھرب ڈالر یعنی دو ہزار آٹھ سو کھرب روپے )کا صفایا ہو گیا۔اس دن چپ بنانے والی امریکی کمپنی، نویڈیا(Nvidia) کے حصص کی مالیت ساٹھ ارب ڈالر کم ہوئی۔یوں امریکی سٹاک مارکیٹ میں کسی کمپنی کے سٹاک میں کمی کا نیا ریکارڈ بن گیا۔

یہ سافٹ وئیر ڈیپ سیک آر ۔۱(DeepSeek-R1)تھا، ایک چیٹ بوٹ جو مصنوعی ذہانت یا اے آئی کے طریق کار، لارج لینگوئج ماڈل ( large language models) کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ امریکا کے مشہور چیٹ بوٹ ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘، ’’جیمنی‘‘ ، ’’الیکسا‘‘اور ’’لاما‘‘بھی اسی طریق کار کی ایجاد ہیں۔ اس کو چین کی کمپنی، ڈیپ سیک نے تیار کیا تھا۔یہ چین کا پہلا چیٹ بوٹ ہے جس کو عالمی شہرت ملی کیونکہ اس نے رفتار اور جدت ہی نہیں کئی اعتبار سے اپنے امریکی معاصرین کو پچھاڑ دیا۔ واضح رہے، انٹرنیٹ پہ سرگرم یہ چیٹ بوٹ کسی بھی سوال کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امریکا کی سٹاک مارکیٹ میں امریکی ٹیک کمپنیوں کے حصص کی مالیت گری۔ اس گراوٹ کی بعض وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں یہ تاثر موجود تھا کہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں امریکی ٹیک کمنپیاں بہت آگے ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک کی کمپنیاں اس شعبے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے امریکا اور دنیا بھر کے سرمایہ کار امریکی ٹیک کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہے تھے۔

 دوسری وجہ یہ ہے، پچھلے سات آٹھ سال سے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پابندیاں لگا کر بھرپور کوشش کی تھی کہ جدید اور طاقتور چپس (Chip)چین کو ملنے نہ پائیں۔ اس لیے امریکی ٹیک کمپنیوں کو یقین تھا کہ کمزور طاقت رکھنے والی مقامی چینی چپس کی بنیاد پر چین کے سائنس داں کوئی عمدہ سافٹ وئیر اور مشین ایجاد نہیں کر سکتے۔

تاہم ڈیپ سیک آر ۔۱ نے ان کی سوچ کو غلط قرار دے ڈالا۔تیسرے ڈیپ سیک کمپنی محض ڈیرھ سال پہلے ہی بنی تھی۔اس کے باوجود کمپنی نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ بہترین چیٹ بوٹ بنا کر سکہ بند اور عرصہ دراز سے کام کرتی امریکی کمپنیوں کے چیٹ بوٹس کو نیچا دکھا دیا۔ 27 جنوری کو امریکی سٹاک مارکیٹ میں افراتفری اسی لیے مچی کہ ایپل کے ایپ سٹور میں ڈیپ سیک آر ۔1 نمبر ایک ایپلی کیشن بن گئی تھی۔ چوتھے ہر امریکی کمپنی نے کروڑوں ڈالر خرچ کر کے اپنا اپنا چیٹ بوٹ ایجاد کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے، ڈیپ سیک نے صرف ساٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت سے اپنا چیٹ بوٹ تیار کر لیا۔ گویا اس شعبے میں بھی چینی کمپنی نے اپنی برتری ثابت کر دی۔ درحقیقت اس نے کئی مفروضوں کو منہدم کر دیا ، مثلاً یہ کہ جدید ترین اے ماڈل تیار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر اور سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 ڈیپ سیک آر ۔1 اس صورت حال میں سامنے آیا جب امریکی ٹیک کمپنیوں نے یہ ہوا کھڑا کر رکھا ہے کہ وہ انسانی تاریخ میں ایک تاریخی پیش رفت کے دہانے پر ہیں جو مشینوں کو انسانی ذہانت کی سطح کے برابر کر دے گی۔

گوگل کے سابق چیف ایگزیکٹیو اور چیئر ایرک شمٹ کہتے ہیں، " ڈیپ سیک آر ۔۱کی الگورتھم اختراعات نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ امریکا مصنوعی ذہانت کی ریس نہیں جیت رہا بلکہ چین اس کے شانہ بشانہ دوڑنے میں محو ہے۔ اور امریکہ کی تکنیکی برتری کامیابی کی ضمانت نہیں ۔فتح تک پہنچنے کے لیے، ہمیں ٹیلنٹ میں سرمایہ کاری جاری رکھنے اپنے متحرک اوپن سورس ایکو سسٹم کو مدد دینے کی ضرورت ہوگی، اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنے حریفوں کو صرف زیادہ خرچ کرنے نہیں بلکہ جدت پسندی کے ذریعے بھی چت کرتے ہیں۔‘‘

27 جنوری سے قبل ڈیپ سیک کمپنی غیر معروف تھی۔ اس کی بنیاد جولائی 2023ء میں چالیس سالہ لیانگ وین فینگ نے رکھی جو کمپیوٹر سائنس میں چین کی مشہور ژی جیانگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ انھوں نے 2015ء میں ایک ہیج فنڈ(سرمایہ کار کمپنی)، ہائی فلائر قائم کیا تھا۔اسی کے منافع اور سرمائے کی مدد سے ڈیپ سیک کمپنی کی بنیاد رکھی گئی۔مصنوعی ذہانت کے میدان میں مشہور امریکی کمپنی، اوپن اے آئی کے بانی ، سیم آلٹمین کی طرح لیانگ کا مقصد بھی مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (AGI) بنانا ہے جو مصنوعی ذہانت کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ۔کہا جاتا ہے ، یہ بتدریج ترقی کر کے انسانوں کے مانند ذہین ہو سکتی ہے۔بلکہ عین ممکن ہے، مسقتبل میں انسانی ذہانت کو ہرا دے۔

لارج لینگویج ماڈلز (LLMs) کو تربیت دینے کے لیے اعلیٰ تربیت یافتہ محققین اور کافی کمپیوٹنگ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چینی میڈیا آؤٹ لیٹ پوسٹ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں، تجربہ کار کاروباری شخصیت اور گوگل چائنا کے سابق سربراہ کائی فو لی نے کہا کہ صرف "اعلی کھلاڑی" ہی عام طور پر چیٹ جی پی ٹی جیسے فاؤنڈیشن ماڈل بنانے میں مشغول ہیں، کیونکہ انھیں بنانے کی خاطر کثیر وسائل درکار ہوتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک آر ۔1 کو جنم دینے میں امریکی حکمران طبقے نے اہم کردار ادا کیا۔وہ یوں کہ جب امریکی اسٹیبلشمنٹ اشارے دینے لگی کہ جدید چپس اور سیمی کنڈکٹرز چین کو فراہم کرنے پر پابندیاں لگ جائیں گی تو لیانگ وین فینگ اپنے سرمائے سے مارکیٹ میں موجود بہترین چپس خریدنے لگے۔ خیال ہے کہ انھوں نے ایسی دس سے پچاس ہزار چپس خرید لیں۔انہی چپس کے ذریعے بعد ازاں کم طاقت والی اور سستی چینی چپوں کو ساتھ ملا کر ڈیپ سیک آر ۔1کو جنم دینے اور چلانے والا ڈھانچا یا انفراسٹکچر تیار کیا گیا۔چینی چپس کے استعمال کے باعث ہی ڈیپ سیک آر ۔1 اپنے امریکی معاصرین کی نسبت سستا ہو گیا۔

دنیا بھر کے ماہرین سائنس ڈیپ سیک آر ۔1 کی تعریف میں رطب السان ہیں۔ ایموری یونیورسٹی میں انفارمیشن سسٹمز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہانچینگ کاو کہتے ہیں، "یہ واقعی ایک اہم پیش رفت ہے ۔یہ محدود وسائل کے حامل محققین اور  ڈویلپرز، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے لوگوں کے لیے بہت اچھا تجربہ ہے۔"

ڈیپ سیک کی کامیابی چینی اے آئی کمپنیوں کو جدید ترین چپس سے دور رکھنے والی پابندیوں اور رکاوٹوں کے پیش نظر اور بھی قابل ذکر ہے۔ اب ابتدائی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کے اقدامات ارادے کے مطابق کام نہیں کر رہے ۔ چین کی اے آئی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے بجائے امریکی پابندیاں ڈیپ سیک جیسے سٹارٹ اپس(نئی کمپنیوں ) کو ایسے طریقوں سے اختراع کرنے کی طرف راغب کرتی نظر آتی ہیں جو کارکردگی، وسائل جمع کرنے اور تعاون کو ترجیح دیتے ہیں۔

 امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں شعبہ کمپیوٹر سائنس میں کام کرتے پی ایچ ڈی کے طالب علم اور ڈیپ سیک کے سابق ملازم ، زیہان وانگ کہتے ہیں، آر ۔1 بنانے کے لیے ڈیپ سیک کو گرافک پروسیسنگ یونٹوں( GPUs )پر دباؤ کم کرنے کے لیے اپنے تربیتی عمل کو نئے سرے سے بنانا پڑا۔ یہ گرافک پروسیسنگ یونٹ امریکی کمپنی، نویڈیا نے چینی مارکیٹ کے لیے تیار کیے ہیں۔ وہ امریکی مصنوعات کے مقابلے میں آدھی قوت رکھتے ہیں۔

ڈیپ سیک آر1 کو محققین نے خاص طور پر ریاضی اور کوڈنگ میں پیچیدہ استدلال کے کاموں سے نمٹنے کی عمدہ صلاحیت رکھنے کے باعث سراہا ہے۔ یہ ماڈل چیٹ جی پی ٹی کی طرح "چین آف تھاٹ" طریقہ استعمال کرتا ہے جو اسے سوالات پر قدم بہ قدم کارروائی کرکے مسائل حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔

مائیکروسافٹ کی اے آئی فرنٹیئرز ریسرچ لیب کے پرنسپل محقق،دیمترس پاپیالوپولس (Dimitris Papailiopoulos) کا کہنا ہے کہ آر 1 کے بارے میں سب سے زیادہ حیران کن چیز اس کی انجینئرنگ کی سادگی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ڈیپ سیک آر 1 کا مقصد ہر منطقی قدم کی تفصیل کے بجائے درست جوابات دینا ہے، جس سے کمپیوٹنگ کے وقت میں نمایاں طور پر کم آتی ہے مگر وہ اعلیٰ سطح کی تاثیر برقرار رکھنا ہے۔

غرض ڈیپ سیک آر 1 بنا کر چینی قوم نے اشارہ دیا، وہ اب سخت جواب دینے کے لیے تیار ہے، ایسے طریقوں سے جو اس کے سب سے بڑے معاشی حریف (امریکا ٌکو شدید معاشی تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ڈیپ سیک نے آر 1 کے چھ چھوٹے ورژن بھی جاری کیے ہیں جو لیپ ٹاپ پر چل سکتے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے ایک نے اوپن آئی کے چیٹ بوٹ، o1-mini کو بعض معیارات پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

بلاک پر ایک نیا بچہ

چین میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں علی بابا اور بائٹ ڈانس جیسی ٹیک کمپنیاں نیز مٹھی بھر اسٹارٹ اپس کے ساتھ گہری جیب والے سرمایہ کار حاوی ہیں۔وہ چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے مقابلہ کرنا مشکل بنا رہے ہیں۔ اس میدان میں ڈیپ سیک جیسی کمپنی جس کا فنڈز اکٹھا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ، نایاب ہے۔ ڈیپ سیک کے سابق ملازم زیہان وانگ نے ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کو بتایا کہ انہیں کمپیوٹنگ کے وافر وسائل تک رسائی حاصل تھی اور ڈیپ سیک میں کام کرتے وقت تجربہ کرنے کی آزادی دی گئی تھی،ایسا عیش و آرام جو کسی کمپنی میں چند نئے گریجویٹس کو ہی حاصل ہوتا ہے۔‘‘

جولائی 2024 ء میں چینی میڈیا آؤٹ لیٹ، 36Kr کے ساتھ ایک انٹرویو میں لیانگ وین فینگ نے کہا تھا کہ چینی کمپنیوں کو چپ پابندیوں کے کے علاوہ ایک اضافی چیلنج کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی اے آئی انجینئرنگ کی تکنیک کم موثر ہے۔ ہمیں ( چینی کمپنیوں کو) نتائج حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹنگ کی دوگنا طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ معنی یہ کہ ڈیٹا کی کارکردگی کے فرق کے ساتھ مل کر چار گنا زیادہ کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہمارا مقصد ان مسائل سے چھٹکارا پانا ہے۔‘‘

زیہان وانگ کہتے ہیں، ڈیپ سیک نے میموری کے استعمال کو کم کرنے اور درستگی کو نمایاں طور پر قربان کیے بغیر حساب کتاب تیز کرنے کے طریقے تلاش کیے۔کمپنی ہارڈویئر چیلنجوں کو جدت طرازی کے مواقع میں تبدیل کرنا پسند کرتی ہے۔لیانگ خود بھی ڈیپ سیک کے تحقیقی عمل میں گہرائی سے شامل اور اپنی ٹیم کے ساتھ تجربات کرتے ہیں۔ وانگ کا کہنا ہے "پوری ٹیم ایک مشترکہ ثقافت رکھتی اور محنت و لگن سے گہری تحقیق کرتی ہے۔

سب کے لیے ترقی کے مواقع

کارکردگی کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیاں تیزی سے اوپن سورس اصول بھی اپنا رہی ہیں یعنی اپنی زیادہ تر تخلیقات افادہ عام کے لیے مفت تقسیم کر دی جائیں۔ کمپنی علی بابا کلاؤڈ نے100 سے زیادہ نئے اوپن سورس اے آئی ماڈلز جاری کیے ہیں جو 29 زبانوں کو سپورٹ اور کوڈنگ اور ریاضی سمیت مختلف ایپلی کیشنز کو پورا کرتے ہیں۔

چائنا اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے گزشتہ سال جاری کیے گئے ایک وائٹ پیپر کے مطابق، جو ریاست سے منسلک تحقیقی ادارہ ہے، دنیا بھر میں اے آئی کے بڑے لینگویج ماڈلز کی تعداد 1,328 تک پہنچ گئی ہے۔ان جن میں سے 36 فیصد چین سے نکلے ہیں۔ یہ امر امریکا کے بعد چین کو شعبہ مصنوعی ذہانت میں دوسرے سب سے زیادہ تعاون کرنے والے کے طور پر رکھتا ہے۔امریکی ٹفٹس یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی پالیسی کے اسسٹنٹ پروفیسر، تھامس کیٹونگ کاؤ کہتے ہیں، "نوجوان چینی محققین کی نسل اوپن سورس کلچر کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہے کیونکہ وہ اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔"

امریکی تنظیم ، کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے اے آئی کے محقق میٹ شیہن کا کہنا ہے "امریکی برآمدی کنٹرول نے بنیادی طور پر چینی کمپنیوں کو ایک ایسے کونے میں پہنچا دیا ہے جہاں انہیں اپنے محدود کمپیوٹنگ وسائل کے ساتھ کہیں زیادہ موثر ہونا پڑے گا۔ہم شاید مستقبل میںکمپیوٹنگ وسائل کی کمی کے باوجود بہت زیادہ استحکام دیکھنے جا رہے ہیں۔"

 ایسا ہونا شروع ہو چکا۔ دو ہفتے قبل علی بابا کلاؤڈ نے اعلان کیا کہ اس نے بیجنگ میں قائم سٹارٹ اپ، 01.AI کے ساتھ شراکت کی ہے جس کی بنیاد تائیوانی سائنس داں، کائی فو لی (Kai-Fu Lee) نے تحقیقی ٹیموں کو ضم کرنے اور ایک بڑی "صنعتی ماڈل لیبارٹری" قائم کرنے کے لیے رکھی تھی۔ٹفٹس کے پروفیسر کاؤ کہتے ہیں "اے آئی انڈسٹری میں محنت کی کسی قسم کی تقسیم کا ابھرنا توانائی کی بچت اور قدرتی بات ہے۔اے آئی کا تیز رفتار ارتقا چینی فرموں سے زندہ رہنے کے لیے چستی کا تقاضا کرتا ہے۔"

یہ بات دلچسپ ہے کہ جب چیٹ جی پی ٹی نے مصنوعی ذہانت کی دنیا پر دھاوا بولا تو یہ ایک ناگزیر سوال پیدا ہوا: ’’کیا وہ امریکا کے سب سے بڑے ٹیک حریف ،چین کے لیے پریشانی کا باعث بن جائے گا؟‘‘اب دو سال بعد چین کے نئے اے آئی ماڈل نے اس سوال کو پلٹ دیا ہے: ’’کیا امریکہ چینی اے آئی اختراعات کو روک سکتاہے؟‘‘

چیلنج

جب امریکا نے چپ بنانے والی تمام بڑی کمپنیوں جیسے نویڈیا کو چین کے ہاتھ جدید ٹیکنالوجی فروخت کرنے سے روک دیا تو یہ یقیناً چینی قوم کے لیے ایک سخت دھچکا تھا۔یہ چپس طاقتور اے آئی ماڈل بنانے کے لیے ضروری ہیں جو بنیادی سوالات کے جواب دینے سے لے کر ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کرنے تک انسانی کاموں کو ایک حد تک انجام دے سکتے ہیں۔ڈیپ سیک کے بانی نے مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے چپ پر پابندی کو "بنیادی چیلنج" قرار دیا تھا۔

 ماہرین کا کہنا ہے، واشنگٹن کی پابندیاں چینی اے آئی صنعت کے لیے چیلنجز اور مواقع ،دونوں لے کر آئی۔یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر مارینا ژانگ کہتی ہیں کہ انھوں نے ڈیپ سیک جیسی چینی کمپنیوں کو اختراعات کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ وہ کم وسائل میں زیادہ کام کر سکیں۔ انہوں نے تخلیقی صلاحیتوں اور لچک کو بھی فروغ دیا جو تکنیکی آزادی کے حصول کے چین کے وسیع تر پالیسی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت نے الیکٹرک گاڑیوں اور سولر پینلز کو چلانے والی بیٹریوں سے لے کر اے آئی تک ہائی ٹیک میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے ۔چین کو ٹیک سپر پاور میں تبدیل کرنا صدر شی جن پنگ کا طویل عرصے سے عزم رہا ہے، لہٰذا واشنگٹن کی پابندیاں بھی ایک چیلنج تھا جسے بیجنگ نے قبول کیا۔ امریکی تنظیم ،سنٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں اے آئی کے ماہر گریگوری سی ایلن کے مطابق20 جنوری کو جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر حلف اٹھایا، تو جان بوجھ کر اسی دن ڈیپ سیک کا نیا ماڈل ریلیز کیا گیا۔ امریکا کے یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس جوائینٹ آرٹیفشل اینٹلی جنس سینٹر میں شعبہ سٹرٹیجی اینڈ پالیسی کے سابق ڈائریکٹر مسٹر ایلن کہتے ہیں"جس وقت اور جس طرح سے یہ پیغام دیا گیا بالکل وہی ہے جو چینی حکومت چاہتی ہے کہ ہر کوئی سوچے، برآمدی کنٹرول (پابندیاں) کام نہیں کرتے اور یہ کہ امریکہ اے آئی میں عالمی رہنما نہیں ہے۔‘‘

حالیہ برسوں میں چینی حکومت نے اے آئی ٹیلنٹ کو پروان چڑھایا ہے۔قابل طلبہ کو اسکالرشپ اور ریسرچ گرانٹس کی پیشکش کی اور یونیورسٹیوں اور صنعت کے درمیان شراکت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پروفیسر مارینا ژانگ کے مطابق نیشنل انجینئرنگ لیبارٹری برائے ڈیپ لرننگ اور دیگر ریاستی حمایت یافتہ اقدامات نے ہزاروںاے آئی ماہرین کو تربیت دینے میں مدد کی ہے۔

مثال کے طور پر ڈیپ سیک کی ٹیم کو لے لیجیے۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی 140 ملازمین پر مشتمل ہے۔ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہیں انٹرنیٹ نے فخر کے ساتھ چینی یونیورسٹیوں کے "گھریلو ٹیلنٹ" کے طور پر پیش کیا ہے۔ژانگ کہتی ہیں کہ مغربی مبصرین چین میں انٹرپرینیورز کی ایک نئی نسل کے ظہور کو دیکھنے سے محروم رہے جو بنیادی تحقیق اور طویل مدتی تکنیکی ترقی کو فوری منافع پر ترجیح دیتی ہے۔

چین کی اعلیٰ یونیورسٹیاں تیزی سے بڑھتا ہوا اے آئی ٹیلنٹ پول بنا رہی ہیں جہاں مینیجر بھی اکثر 35 سال کی عمر سے کم ہوتے ہیں۔چین کے تیز رفتار تکنیکی عروج کے دوران پروان چڑھنے کے بعد چینی نوجوان جدت طرازی میں خود انحصاری کی مہم سے بہت متاثر ہیں۔

ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وینفینگ اس کی ایک مثال ہیں ۔ ٹیک آؤٹ لیٹ، 36Kr پر ایک مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ لیانگ سے واقف لوگ کہتے ہیں، وہ باس کے بجائے ایک محقق زیادہ لگتا ہے ۔ چینی میڈیا اسے "تکنیکی آئیڈیلسٹ" قرار دیتا ہے جو ڈیپ سیک کو اوپن سورس پلیٹ فارم کے طور پر رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ درحقیقت ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ چین میں فروغ پذیر اوپن سورس کلچر نے نوجوان اسٹارٹ اپس کو وسائل جمع کرنے اور تیزی سے آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے۔

بڑی چینی ٹیک فرموں کے برعکس ڈیپ سیک نے تحقیق کو ترجیح دی۔نیز ماہرین اور کمپنی میں کام کرنے والے سبھی لوگوں کے مطابق ان کو مزید تجربات کرنے کی اجازت ہے۔ لیانگ نے 36Kr کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا "اے آئی شعبے میں سرفہرست 50 ٹیلنٹ شاید چین میں نہ ہوں، لیکن ہم یہاں ایسے لوگوں کو تیار کر سکتے ہیں۔" ماہرین تاہم حیران ہیں کہ ڈیپ سیک کتنا آگے جا سکتا ہے! مارینا ژانگ کا کہنا ہے، نئی امریکی پابندیاں چینی کمپنیوں کے لیے امریکی صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کو محدود کر سکتی ہیں۔یوں ممکنہ طور پہ اس بات پر اثر پڑے گا کہ ڈیپ سیک جیسے چینی ماڈلز عالمی سطح پر کیا کارکردگی دکھا پائیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے،امریکا کو اب بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے، مسٹر ایلن کے الفاظ میں امریکی ٹیک کمپنیاں کمپیوٹنگ وسائل کی بہت زیادہ مقدار رکھتی ہیں۔" اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ڈیپ سیک اپنے ماڈل کو بہتر بنانے کے لیے ایڈوانس چپس کا استعمال کیسے جاری رکھے گا۔لیکن ابھی ڈیپ سیک دھوپ میں اپنے لمحے سے لطف اندوز ہو رہا ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ چین میں تو کیا دنیا کے زیادہ تر لوگوں نے ماہ جنوری کے آخر تک اس کے بارے میںکچھ نہیں سنا تھا۔

نئے اے آئی ہیرو

اچانک شہرت نے لیانگ وینفینگ کو چین کے سوشل میڈیا پر ایک سنسنی بنتے دیکھا جہاں اسے ہانگ کانگ کی سرحد سے متصل جنوبی گوانگ ڈونگ صوبے کے "تین اے آئی ہیروز" میں سے ایک کے طور پر سراہا گیا۔دیگر دو ہیں، کمپیوٹر سائنس کے معروف ماہر، زہلین یانگ (Zhilin Yang) اور کیامنگ ہی (Kaiming He) جو امریکا میں ایم آئی ٹی میں پڑھاتے ہیں۔

ڈیپ سیک نے ملک کی سب سے بڑی تعطیل، قمری نئے سال سے پہلے چینی انٹرنیٹ کو خوش کر ڈالا اور جوش وخروش سے بھر دیا۔ یہ مسائل میں گھری معیشت اور ٹیک انڈسٹری کے لیے اچھی خبر تھی جو مزید محصولات اور ٹک ٹاک کے امریکی کاروبار کی ممکنہ فروخت کے لیے تیار ہے۔چین میں سوشل میڈیا کے سب سے بڑے پلیٹ فارم، ویبو پر یہ جملہ بہت مشہور ہوا:’’ڈیپ سیک نے ہمیں دکھا دیا کہ اگر آپ کے اندر دم ہے تو تبھی آپ وقت کی کسوٹی پر پورا اتریں گے۔‘‘(DeepSeek shows us that only if you have the real deal will you stand the test of time)’’یہ نئے سال کا بہترین تحفہ ہے۔ خواہش ہے، مادر وطن خوشحال اور مضبوط ہو ۔ ایک اورصارف نے لکھا۔

چینی تنظیم ،کاؤنٹرپوائنٹ ریسرچ کے پرنسپل اے آئی تجزیہ کار ، وی سن نے چین میں ڈیپ سیک کی کامیابی پر ردعمل کو یوں بیان کیا "صدمے اور جوش کا امتزاج، خاص طور پر اوپن سورس کمیونٹی کے اندر۔‘‘جنوبی شہر شینزین میں ایک ٹیک ورکر، فیونا زو کا کہنا ہے کہ ان کی سوشل میڈیا فیڈ کل اچانک ڈیپ سیک سے متعلق پوسٹس سے بھر گئی۔ لوگ اُسے ’میڈ ان چائنا کی شان‘ کہہ رہے تھے اور کہا کہ اس نے سلیکن ویلی کو چونکا دیا۔ اس لیے میں نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا تاکہ دیکھ سکوں یہ کتنا اچھا ہے۔"

ڈیپ سیک کی کامیابی میں بانی کی ہمت و اعتماد نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ لیانگ نے پچھلے سال ایک انٹرویو میں سوال کیا تھا، امریکا کی سلیکن ویلی اتنی اختراعی کیوں ہے؟ کیونکہ امریکی کمپنیاں کام کرنے کی ہمت رکھتی ہیں۔جب چیٹ جی پی ٹی سامنے آیا، تو چین میں ٹیک کمیونٹی اختراعات کرنے میں اعتماد کا فقدان رکھتی تھی۔"انہوں نے مزید کہا: "سرمایہ کاروں سے لے کر چینی بڑی ٹیک کمپنیوں تک، سب نے سوچا کہ خلا بہت بڑا ہے لہذا وہ امریکیوں کی نقل کرنے لگے۔ دراصل جدت پسندی اور اختراعات کا آغاز اعتماد و حوصلے سے ہوتا ہے۔

اس ضمن میں چین میں تبدیلی کا آغاز چند سال قبل ہوا جب سرکاری فنڈز سٹارٹ اپس کو بھاری رقم فراہم کرنے لگے۔ تب مملکت کے کاروباری ماحولیاتی نظام ( entrepreneurial ecosystem )نے ملکی اثاثے کھونے کے خوف میں مبتلا ہو کر یہ دباؤ محسوس کیا کہ کچھ کر کے دکھایا جائے۔اگرچہ جیسا کہ بتایا گیا، ڈیپ سیک چینی جنریٹیو اے آئی اسٹارٹ اپس میں اس لحاظ سے مخصوص ہے کہ اس نے کوئی بیرونی فنانسنگ نہیں اٹھائی اور اس وجہ سے وہ ان رکاوٹوں سے آزاد رہا جو ترقی کرتی کمپنی کو درپیش رہتی ہیں۔

ڈیپ سیک ایک خالص تحقیقی لیب ہے جو برطانیہ میں ڈیپ مائنڈ اور امریکہ میں اوپن اے آئی کے ابتدائی دنوں کی بازگشت کرتی ہے۔اس نے پیسا کمانے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی تمام تر کوششیں اے آئی کے شعبے کو آگے بڑھانے پر مرکوز کر دیں۔ گو چینی کمپنی خود کو مکمل طور پر گھریلو صلاحیتوں پہ قائم ہونے پر فخر کرتی ہے، اس نے ایک ایسی ثقافت کو اپنایا جو اکثر امریکی ٹیک قلب میں پائی جاتی ہے۔

چین میں ایک اے آئی سرمایہ کار کا کہنا ہے کہ ڈیپ سیک چینی اے آئی کمپنیوں میں منفرد ہے۔ اس میں دوسری بڑی ٹیک کمپنیوں یا بڑے اسٹارٹ اپس کی طرح کوئی سیاست یا انتظامی رگڑا موجود نہیں ۔ لوگوں کے پاس مخصوص عہدے نہیں اور نہ ان کو ہر حال میں رپورٹنگ دینا ہوتی ہے۔

ڈیپ سیک کی کامیابی کا راز یہ بھی ہے کہ اسے چلانے والے کاروباری حس کے ساتھ ساتھ چپس کی گہری سمجھ رکھتے اور انجینئرنگ کے ہنر میں بھی طاق تھے۔ اوپن اے آئی کا دعویٰ ہے ، اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈیپ سیک نے اوپن اے آئی کے اپنے ماڈلز سے آؤٹ پٹ پر تربیت حاصل کی ہے ۔ ان کے استعمال کی شرائط کے تحت کسی چیز کو کاپی کرنے کی اجازت نہیں ہے، حالانکہ امریکی کمپنیاں بھی انھیں بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہیں۔

چین کے کچھ ٹیک مبصرین کے مطابق ڈیپ سیک کی پیشرفت اس حقیقت کو تبدیل کرنے کے لیے کافی اہم نہیں کہ چینی اے آئی کمپنیاں زیادہ تر امریکیوں کی نقل ہی کرتی ہیں ، وہ بڑی حد تک خود سمت متعین کرنے کے بجائے امریکی ہم منصبوں کی تقلید کے لیے وقف ہیں۔

ڈیپ سیک کا کام بھی اس زمرے میں آتا ہے۔ امریکہ اور چین کے مقابلے میں پیش رفت اسی وقت ہو گی جب چینی کمپنیاں اے آئی کی کوئی نئی اختراع سامنے لائیں گی۔ مگر دیگر ماہرین کا کہنا ہے، مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیزی سے ترقی اس امر کا ثبوت ہے کہ چین اس شعبے میں لیڈر بننے کے لیے پُرجوش اور متحرک ہے۔چین کے معروف ٹیک مبصر، ٹلی زینگ کہتے ہیں:

’’ڈیپ سیک کے تازہ ترین ماڈلز کا یہ مطلب نہیں کہ چین اے آئی دوڑ میں امریکا سے آگے نکل رہا ہے۔ لیکن یہ ثابت کرتا ہے کہ چینی کمپنیاں سافٹ ویئر کی اختراع میں نمایاں پیش رفت کر رہی ہیں اور انھوں نے امریکی برآمدی کنٹرولز کی طرف سے عائد رکاوٹوں کے اثرات تقریباً ختم کر دئیے ہیں۔اے آئی قیادت کی دوڑ اب صرف اس بارے میں نہیں؎ کہ بہترین چپس تک کس کی رسائی ہے، بلکہ اس بارے میں کہ کون ان کا بہترین استعمال کرتا ہے۔"

امریکی تنظیم ،الائنس برنسٹین سے منسلک گروتھ اسٹاک انویسٹر، جم ٹائرنی کہتے ہیں’’امریکا میں یہ نظریہ عام تھا کہ صرف انہی کے پاس اے آئی کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اور صرف امریکیوں کے پاس ہی اے آئی منصوبوں کے لیے پیسہ ہے۔ان ماڈلز کی کموڈائزیشن(commoditisation) ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے۔"

’’اگر چین اے آئی کے شعبے میں امریکا کے ساتھ مساوی سطح پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ہے، تو اس کے ہر اس چیز پر مضمرات ہوں گے جس کے لیے ٹیکنالوجی کو بالآخر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ یو ایس اے آئی اسٹارٹ اپ، اینتھروپک کے سی ای او ڈاریو آمودی خبردار کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے،ایسا لگتا ہے کہ چین زیادہ ہنر، سرمایہ اور ٹیکنالوجی کے فوجی استعمال پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے۔اپنے بڑے صنعتی اڈوں اور ملٹری اسٹریٹجک فوائد کے ساتھ یہ امر چین کو عالمی سطح پر نہ صرف اے آئی بلکہ ہر چیز کے لیے ایک کمانڈنگ لیڈ لینے میں مدد دے گا۔‘‘

منڈی نے، جو امریکہ کے آنجہانی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے قائم کردہ یو ایس چائنا اے آئی ڈائیلاگ ڈپلومیٹک فورم کے سربراہ بھی ہیں، نشاندہی کی ہے کہ اے آئی "حتمی دوہری استعمال کی ٹیکنالوجی" ہے یعنی اس کے ذریعے مثبت اور خطرناک، دونوں مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ڈیپ سیک جس نے معاصرین کو حیران کر دیا
  • عید کے بعد توہین عدالت کی پٹیشن دائر کریں گے، سلمان اکرم راجہ
  • کونسا سیاسی رہنما کہاں عید منائے گا؟تفصیلات سامنے آ گئیں
  • جدہ جانے والے مسافر کی سلائی مشین سے آئس ہیروئن برآمد، ویڈیو سامنے آگئی
  • احکامات کی خلاف ورزی، عید کے بعد توہین عدالت کی پٹیشن دائر کریں گے، سلمان اکرم راجہ
  • ایک ارب ڈالرز کی گندم بیرونِ ملک سے درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، بڑا دعویٰ سامنے آگیا
  • کینیڈین شہری پاکستان کے جوہری پروگرام کیلئے ٹیکنالوجی اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار
  • پاکستان کے جوہری پروگرام کیلئے ٹیکنالوجی سمگل کرنے کے الزام میں کینیڈین شہری گرفتار
  • امریکا،کینیڈین شہری پاکستان کے جوہری پروگرام کیلئے ٹیکنالوجی اسمگل کرنے کے الزام میں گرفتار