سردار سلیم حیدرخاں ایک عوامی گورنر
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
سردار سلیم حیدرخاں گورنر پنجاب کی حیثیت سےصوبے کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن ہیں۔1970ء میں راولپنڈی کے ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں جنم ہوا۔ گائوں ’’ڈھرنال‘‘ سے ان کا تعلق ہے۔ابتدائی تعلیم تلہ گنگ کے بورڈنگ اسکول میں حاصل کی۔پھر ہائی لیول کے لئے راولپنڈی کے سر سید سکول میں آ گئے۔جہاں سے میٹرک کیا۔راولپنڈی ہی کے سیٹلائٹ ٹائون کے گورنمنٹ ڈگری کالج سے ایف اے اور بی اے کیا۔سردار سلیم حیدر خاں کا آبائی ضلع اٹک کئی حوالوں سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔شہر کے نواح میں اٹک دریا بہتا ہے۔جو ایک قدیم دریا ہے۔اٹک کو ابتدا میں شہنشاہ اکبر نے آباد کیا۔شہر کی پوری تاریخ آئین اکبری میں درج ہے۔سیاسی لحاظ سے بھی ایک زرخیز سر زمین ہے۔بہت سے سیاسی رہنمائوں کا تعلق اٹک سے ہے جو جیت کر نیشنل اور صوبائی اسمبلی میں اپنے ضلع کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ کالج کے زمانے سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔1980 ء میں طلبا تنظیم ’’ایم ایس ایف‘‘ کی طرف سے وائس پریذیڈنٹ کا الیکشن لڑا۔ان کا مقابلہ جمعیت سے تھالیکن الیکشن ہار گئے۔1997 ء میں انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔آزاد حیثیت سے ضلع کونسل کا الیکشن لڑا۔بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔2002 ء میں صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیئے پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔سردار سلیم حیدر خاں اس ہار سے دل برداشتہ نہ ہوئے بلکہ اس ’’ہار‘‘ کو جیت میں تبدیل کرنے کے لئے ہمہ تن اپنے آپ کو علاقے کے لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ گو کہ سردار سلیم حیدر خاں کا سیاسی سفرتین دہائیوں پرمحیط ہےلیکن اس کم عرصےمیں انہوں نے لوگوں کے دلوں پرخدمت کے بہت سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔2024ء کےحالیہ الیکشن کے بعد پنجاب کی گورنر شپ کا معاملہ آیا اور شیئرنگ فارمولے کے تحت طے ہوا کہ صوبے کی گورنر شپ پاکستان پیپلز پارٹی کو دی جائے گی تو پارٹی کے اندر بہت سے ناموں پر غور شروع ہو گیا اور جس نام کا قرعہ نکلا وہ سردار سلیم حیدرخاں تھے۔پنجاب جیسے بڑے صوبے کا آئینی عہدہ انہیں ایسے ہی نہیں مل گیا اس کے پیچھے ان کی سیاسی جدوجہد تھی جس کے معترف ہمیشہ ہی سے صدر آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور راجہ پرویز اشرف رہے ہیں۔ سردارسلیم حیدرخاں کو بھی ان کے بے داغ سیاسی کیرئیر نے گورنر کے اعلیٰ منصب تک پہنچایااور وہ پنجاب کے47 ویں گورنر بن گئے۔جنرل سوار خان، جنرل ٹکا خاں،چودھری الطاف اور راجہ سروپ خاں کے بعد سردار سلیم حیدر خاں وہ پانچویں گورنر ہیں جن کا تعلق خطہ پوٹھوہار سےہے۔سردار سلیم حیدر خاں دھیمے مزاج کے ہیں اس لئے پنجاب میں ن لیگی حکومت ان کے ساتھ آسانی محسوس کر رہی ہے۔پنجاب کے گورنر کے لئے پارٹی کے اندر جب لابنگ کی جا رہی تھی تو کافی دوستوں نے سردار سلیم حیدر خاں کو کہا کہ آپ کے لئے ہم لابنگ کرتے ہیں لیکن سردار صاحب نے جواب دیا ’’میں نے جہاں لابنگ کرنی تھی کرلی ہے۔یہ عہدہ اللہ سے، اس کے رسول اور آلِ رسول سے مانگا ہے۔کسی اور سے مانگا نہ مانگوں گا‘‘۔
سردار سلیم حیدر خاں کے والد جنگ بہادر خاں کا تعلق مغل روال برادری سے ہے۔1930 ء میں اس وقت کے انگریز ڈپٹی کمشنر اٹک مغل روال برادری کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اٹک میں مغل روال کم ہونے کے باوجود سب سے اہم قبیلہ ہے۔جس کے لوگ اچھے اور مشاق گھڑ سوار ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اصلی مغل ہے۔فتح جنگ کے سردار نواز خاں آف کوٹ فتح خان اس قبیلے کے سربراہ ہیں۔جو ضلع کی انتہائی معتبر اور شریف شخصیت ہیں۔ گورنر سردار سلیم حیدر خاں اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔خوشی اور طمانیت کی بات ہے کہ سردار صاحب ایک ایسے گورنر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں جو بردباری اور متانت میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔خدمت اور محبت کے جذبے سے مالا مال ہیں۔مجھے سردار صاحب سے کئی بار ملاقات کا موقع ملا۔ایک میزبان کی حیثیت سے اپنے مہمانوں کو جس والہانہ انداز سےخوش آمدید کہتے ہیں، ان کیفیات کا الفاظ سے احاطہ کرنا میرے لیے مشکل ہو رہا ہے۔سردار سلیم حیدرخاں پروٹوکول کےسارےتقاضے بالائے طاق رکھ کر اپنے آپ کو عوام میں سے سمجھتے ہیں۔اسی لئے عوامی گورنر کہلاتے ہیں۔ بلاشبہ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو کسی بھی عوامی لیڈر میں ہونی چاہئیں ان سے مل کر گمان نہیں ہوتا کہ گورنر سے ملاقات ہو رہی ہے۔ان کا عہدہ بڑا ہے لیکن خود کو بڑا بنا کر مہمانوں کے سامنے پیش نہیں کرتے۔ایک عوامی گورنر کے طور پر ان کا سب سے اچھا اور احسن قدم یہ ہے کہ انہوں نے گورنر ہائوس کے دروازے سب خاص و عام کے لئے کھول دیئے ہیں۔کوئی بھی شخص بلا جھجک گورنر ہائوس میں داخل ہو سکتا ہے اور ان سے ملاقات کر سکتا ہے۔چونکہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اسی نسبت سے لوگ ملک بھر میں افطار کا اہتمام کر رہے ہیں۔گورنر سردار سلیم حیدر خاں نے بھی گورنر ہائوس میں ایک بہت ہی وسیع افطار پارٹی کا اہتمام کیا جس میں خاص تو آئے ہی، عام افراد نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔آنے والوں میں سیاسی ورکرز، صحافی، سیاستدان، فن کار، این جی اوز، سینئر کالم نگار اور بیوروکریٹ شامل تھے۔گورنر ہر ایک کے پاس جاتے، گورنر ہائوس میں آنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے۔ سردار صاحب چونکہ پنجاب کے باسی ہیں اس لئے پنجاب کی ترویج و ترقی کےلیے سنجیدہ ہیں۔پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی گورنر ہائوس میں جب سے رسائی ممکن ہوئی ہے کارکن اپنی قیادت سے خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے جب سردار سلیم حیدر خاں کی بطور گورنر پنجاب میں تعیناتی کا فیصلہ کیا تو ان کے پیش نظر ایک ہی بات تھی کہ کیا سردار صاحب گورنر کی حیثیت سے پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ فعال کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔آج وہ اپنے اس فیصلے پر بہت مطمئن ہیں اورخوش بھی کہ سردار صاحب نے قیادت کے فیصلے کی لاج رکھ لی ہے اور پنجاب میں وہ پارٹی کو زیادہ فعال اور مضبوط بنانے کے لئے اپنے تئیں بہت زیادہ سرگرم ہیں۔انہیں بلاشبہ عوامی گورنر کہا جاسکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سردار سلیم حیدر خاں سردار سلیم حیدرخاں گورنر ہائوس میں عوامی گورنر پیپلز پارٹی کی حیثیت سے پارٹی کے کا تعلق کے لئے
پڑھیں:
یومِ القدس مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی اور امت کے اتحاد کا دن ہے، گورنر سندھ
افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کامران ٹیسوری نے کہا کہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر پوری امت مسلمہ کو یک زبان ہو کر آواز بلند کرنی چاہیئے، 27 رمضان المبارک کو قیام پاکستان ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا ثمر ہے، جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ نے اتحادِ رمضان کی افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یومِ القدس مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی اور امت مسلمہ کے اتحاد کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر پوری امت مسلمہ کو یک زبان ہو کر آواز بلند کرنی چاہیئے۔ گورنر سندھ نے مزید کہا کہ 27 رمضان المبارک کو قیام پاکستان ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا ثمر ہے، جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔ انہوں نے اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے ہمیں باہمی اتفاق اور اخوت کو فروغ دینا ہوگا۔ افطار ڈنر میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، سیاسی و سماجی شخصیات اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جہاں ملکی سالمیت، فلسطینی عوام کی آزادی اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔