Daily Ausaf:
2025-03-31@20:04:24 GMT

ذکر ایک پیکر اخلاق مسیحا کا

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

انسان کتنا ہی تن و مند اور توانا ہو ساٹھ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں، شخصیت کی ہوش ربائی اور کشش زوال آسا ںہونے لگتی ہے ،وہ جتنا بھی سحر انگیز ہو ،یہ عمر اس کا طلسم زائل کرنا شروع کر دیتی ہے ، وہ اپنے آپ کو ماضی میں تلاش کرنے کے ایک ناسٹالجیا میں تو مبتلا ہوسکتا ہے مگر گزرے ہوئے کسی ایک لمحے کو بھی واپس لانے کی قدرت سے عاری ہوتا ۔اس کا وجود دھیرے دھیرے مختلف نوعیت کی بیماریوں کی آماجگاہ بنتا چلا جاتا ہے ۔ پھر جہاں اسے اپنوں کی دلداری اور وفا شعاری کی ضرورت ہوتی ہے وہیں ایک اچھامعالج بھی اس کے درد کا درماں ہوتا ہے۔میں خود اب اس عمر کو پہنچ گیا ہوں جہاں اور ضرورتوں کے ساتھ ایک مخلص ڈاکٹر بھی میری زندگی کا لازمہ بن گیا ہے۔بارہ برس قبل شوگر نام کے مرض جسے ڈاکٹر حضرات کوئی بیماری نہیں بلکہ ” Life style “گردانتے ہیں ، نے مجھے اپنے نرغے میں لے لیا ۔اتفاق ہسپتال کے شعری ذوق رکھنے والے آصف قادری میرے پہلے معالج ٹھہرے ، وہ بہت اچھے انسان ،ہمدرد مسیحا تھے۔یوں بھی ایک اچھا ڈاکٹر ہر معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ،اس کے کندھوں پر ایک انسانی زندگی کی صحت و سلامتی کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ایک کامیاب معالج وہ ہوتا ہے جو ایک مثالی انسان ہو ،حسن سلوک اس کی پہلی ترجیح ہو ،بے لوث ہمدردی کا پیکر ہو اور یہ سب اوصاف میرے پہلے معالج ڈاکٹر آصف قادری میں موجود تھے ۔
میں گزشتہ دس سال ان کی طبی مہارتوں سے استفادہ کرتا رہا ۔مگر 64 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میں لاہور کے سفر سے تھک گیا ۔آخر میں نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنے شہر ملتان ہی میں ایک مسیحا پا ہی لیا ۔میڈیکل سائنس سرعت رفتاری سے ترقی کے سفر پر گا مزن ہے ۔وہ ڈاکٹر جو ترقی کی اس رفتارکے ساتھ چل سکتا ہے منزل اسی کی ہے ۔نئی تحقیقات اور دریافتوں سے آگہی اور جدید میڈیکل ریسرچ کا خوگر معالج ہی اب مریضوں کا موثر علاج کرسکتا ہے ۔جو طب کے پیشے کو فقط اپنی معاشی حالت کو خوشحال بنانے کا ذریعہ تصور نہ کرتا ہو بلکہ اپنی ایک عظیم ذمہ داری سمجھتا ہو ۔جو مریض کی علامات کی صحیح تشخیص کرنے کی بھر پور قدرت رکھتا ہو۔جسے کسی بھی مشکل صورت حال میں جذباتی ہونے کی بجائے پیشہ ورانہ سنجیدگی اختیار کرنے کا فن آتا ہو۔جو مریضوں کے تلخ رویئے یا تکلیف دہ حالت میں صبر اور تحمل کرنا جانتا ہو۔
مریض کو ایک الگ فرد اور انسان سمجھ کر اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنے کے جذبے سے سرشار ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کہ نئی طبی ایجادات اور تیکنیکی مہارتوں پر دسترس رکھتا ہو۔میں دس بارہ سال ایک ہی قسم کی ادویات کے ذریعے اپنی شوگر سے لڑتا رہا مگر میں اپنے شہر ملتان کے ایک ڈاکٹر صلاح الدین محمود رند کی دہلیز پر پہنچا تو ان کی اجلی شخصیت نے پہلی نظر میں ان کے اعلیٰ با صلاحیت اور جن اوصاف کا حوالہ دیا ان کے اندر ان سارے اوصاف کا ادراک ایک جھلک میں میرے مشام جاں میں نفوذ کرگیا (بحیثیت ایک استاذ کسی نوجوان کے روشن چہرے سے اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لینا کوئی مشکل نہیں ہوتا) سرخ سپید رنگت والے خوشخط چہرے کے حامل ڈاکٹر صلاح الدین محمود رند جنہوں نے ایم سی پی ایس ہی نہیں کیا بلکہ امریکہ سے MD MedicineMSPH,CHPE کیا ہے ۔35 سالہ یہ بلوچ نوجوان اتنی سی عمر میں ’’رائل کالج آف فزیشنز کا ممبر بھی ہے۔میں جو شوگر سے اپنی دس بارہ سالہ نبرد آزمائی کے بعد ان تک رسائی پاسکا تھا اور طویل عر صے میں اپنی بیماری کے بارے میں جدید تیکنیکی حوالوں سے آگہی رکھتا ہوں میری ساری جانکاریاں ان کی جدید ترین معلومات کے سامنے ایک ذرے کی حیثیت رکھتی تھیں۔
سچی بات یہ ہے کہ نوجوان ڈاکٹر صلاح الدین رند نے مجھے اپنی شوگر کے بارے میں جدید ترین معلومات سے متعلق حیرت میں ڈال دیا اور یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں روز نت نئی ایجادات اور دریافتیں ہو رہی ہیں اس لئے ایک طویل عرصہ ایک ہی قسم کی ادویات پر انحصار کار زیاں ہے، ذیابیطس کے مریض کو ہردو ماہ بعد اپنی ادویات تازہ ترین چیک اپ کی روشنی میں تبدیل کر لینی چاہئیں۔اللہ اس نوجوان ڈاکٹر کو عمر خضر عطا فرمائے جو اپنے مریض کی آدھی سے زیادہ بیماری کا ازالہ اپنے حسن اخلاق ہی سے کر دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

قیام کے وقت سجدے میں گرجانا کیسا ہوتا ہے؟

اگر کوئی قیام کے وقت سجدے میں گر جائے تو یہ ایک بڑی غلطی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ظالم اور قابض قوت کے خلاف برسوں نہیں عشروں کی جدوجہد کے بعد عین اس وقت ہتھیار پھینک دے جب پھل ملنے والا ہو تو اس مجاہد کے بارے میں افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

خبر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس سے وابستہ 3 حریت پسند تنظیموں نے آزادی کا نعرہ مزید لگاتے رہنے کے بجائے اب چپ سادھ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان میں جے اینڈ کے پیپلزموومنٹ، ڈیموکریٹک پولیٹکل موومنٹ اور ریاست جموں میں قائم جموں و کشمیر فریڈم موومنٹ ہے۔ اگرچہ یہ تنظیمیں حجم کے اعتبار سے بہت بڑی نہیں ہیں تاہم ان کا تحریک حریت سے منہ پھیر لینا آزادی کے جذبے سے سرشار کشمیری قوم کے لیے افسوس کا باعث ضرور بنے گا۔

دراصل مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارت کی نریندرمودی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہاں ایک ایسا سیاسی نظام رائج کرنا چاہتی ہے جس میں کوئی حریت پسند نظر نہ آئے۔ چنانچہ وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے دو طرح کی حکمت عملی سے کام لے رہی ہے۔

مودی سرکار کی خواہش ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کل جماعتی حریت کانفرنس کا وجود سرے ہی سے ختم ہوجائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حریت کانفرنس کی جگہ کشمیر کی مسلمان تنظیموں پر ایک نیا اتحاد قائم کیا جائے یا پھر حریت کانفرنس ہی کے اندر ایک فاورڈ بلاک کی تشکیل دیدیا جائے۔ اس حکمت عملی پر کام کرتے ہوئے قابض بھارتی سرکار ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔

25 جنوری کو بھارت نواز پولیس نے قائد حریت کشمیر مرحوم سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور  اس کے ایک حصہ پر قبضے کرلیا۔  اس کے بعد پولیس نے مقبوضہ کشمیر کے کتب خانوں اور دکانوں پر چھاپے مارنا شروع کردیے اور انھیں جماعت اسلامی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابیں رکھنے سے منع کردیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت مزید آگے بڑھی اور  میر واعظ عمر فاروق کی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘  اور ’جموں و کشمیر اتحاد المسلمین ‘ پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان پر الزام عائد کیا کہ وہ علیحدگی پسند نظریہ کی حامی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر پولیس کے چھاپوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حریت کانفرنس سے اعلان لاتعلقی کریں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک  36 رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے جاچکے ہیں ہیں۔ان چھاپوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حریت کانفرنس میں شامل 6 رہنماؤں نے اتحاد سے الگ ہونے کے بیانات جاری کردیے ہیں۔ بھارت دیگر حریت پسند رہنماؤں کے بھی پیچھے لگا ہوا ہے۔

دراصل  گزشتہ کئی مہینوں سے انڈین وزارت داخلہ کی ایک ٹیم انٹیلی جنس بیورو کی سرکردگی میں حریت کانفرنس کے خاتمے یا پھر اسے کمزور کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اس ٹیم کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے اذہان و قلوب سے پاکستان کے بارے میں محبت بھرے جذبات ختم کردیے جائیں۔ یہ ٹیم جیل میں بند کئی رہنماؤں سے بھی ملاقات کرچکی ہے، جن میں تہاڑ جیل، کوٹ بھلوال جیل اور جموں میں قید شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بٹ، مشتاق الاسلام شامل ہیں۔ ان رہنماؤں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آزادی کا مطالبہ چھوڑ دیں۔ اور پاکستان کا نام لینا بند کردیں۔ تاہم انہوں نے آزادی کشمیر کی راہ سے پیچھے پلٹنے سے صاف انکار کردیا۔

اسی طرح یہ ٹیم کشمیری حریت پسند جماعتوں کے ان رہنماؤں سے بھی الگ الگ مل رہی ہے جو زیر حراست نہیں ہیں۔ ان پر بھی مسلسل زور دیا جارہا ہے کہ وہ بھارت نواز سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ ان بھی وہی مطالبہ ہے کہ حریت کانفرنس چھوڑنے کا برسرعام اعلان کریں بصورت دیگر جیل جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔

ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی قیادت کو کشمیری رہنماؤں پر چڑھائی کی ہمت کیوں ہوئی؟ اس کے چند جو اہم ترین اسباب ہیں، ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ  حریت پسند رہنما اور مسلح مزاحمتی گروہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد خاموش ہو چکے ہیں۔ ان کا عام کشمیریوں سے رابطہ بھی ختم ہو کے رہ گیا ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سبب پاکستان کا اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات بھی ہیں۔تاہم حکومتوں کی ترجیحات کا بھی عمل دخل ہے۔ یہ کوئی ایک دو برس کا قصہ نہیں ہے۔ عشروں سے پاکستانی حکومتیں ان کشمیریوں کو نظر انداز کر رہی ہیں جو پاکستان کی محبت میں جیتے اور مرتے ہیں۔

پاکستان میں عالم یہ ہے کہ یہاں عشروں سے ایک کشمیر کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ کوئی اس کشمیر کمیٹی کی اب تک ہونے والی سرگرمیوں ہی کی ایک فہرست تیار کرنا شروع کردے۔ پچھلے تیس، پینتیس برس سے کشمیر کمیٹی کی کارکردگی صرف ایک جملے میں بیان کی جاسکتی ہے کہ اس کی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ نہ اس کے چیئرمین کو پتہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کہاں ہے اور نہ ہی اس کے ارکان کو۔

اگر صرف ایک کشمیر کمیٹی فعال ہوجائے اور کام کا حق ادا کرنا شروع کردے تو بھارت کے بڑھتے ہوئے قدم فی الفور رک سکتے ہیں، وہ پسپائی پر مجبور ہوسکتا ہے، اس کے نتیجے میں مایوس ہونے والے کشمیری ایک بار پھر شیر بن سکتے ہیں۔

پاکستانی حکومتیں کچھ کرنے کا ارادہ کریں، کشمیر کو اپنی اولین ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ لیکن یہاں ایک حکمران آیا، اس نے اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام ’سری نگر ہائی وے‘ رکھ دیا، ایک چوک کا نام ’کشمیر چوک‘ رکھ دیا اور  سمجھ لیا کہ اس سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت مل جائے گا۔

مودی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے اب تک کشمیریوں کو اپنا مکمل غلام بنانے کی راہ پر جس تیز قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے، پاکستانی حکمران اسے دیکھ لیں اور اپنی حرکتیں دیکھ لیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ایک نئے عزم و ہمت سے پاکستانی حکمران کشمیریوں کا مقدمہ دنیا بھر میں لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

تین چھوٹی حریت پسند تنظیموں نے آزادی کا نعرہ لگانا بند کیا، بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ آزادی پسندوں کی کمر توڑنے کے دعوے کرتے پھر رہے ہیں۔  حالانکہ کشمیریوں کی عظیم الشان اکثریت اب بھی اپنے خوبصورت سرزمین سے بھارتی فوج کو نکل جانے کو کہہ رہی ہے۔اس کے آزادی پسند جذبات مضبوط ہیں۔ وہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی سرکار کے مقابل بلند اور مضبوط عزم و ہمت رکھتی ہے۔

کشمیریوں کی یہ عظیم الشان اکثریت تین چھوٹی تنظیموں کی طرف سے حریت کی راہ ترک کرنے کے اعلان پر حیران ہیں۔ ایک ایسے وقت میں یہ نادان سجدے میں گر گئیں جب ایک بار پھر کھڑے ہونے کا وقت آ گیا تھا۔

ذرا پنجاب سے منی پور اور ناگا لینڈ تک کے علاقوں کو دیکھیے، بھارت سے آزادی چاہنے والے کیسے ایک وقفے کے بعد پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمران اپنے ہاں مختلف طبقات پر بدترین مظالم ڈھا کر مزید علیحدگی پسندوں کو پیدا کر رہے ہیں۔

یہ بات تسلیم کہ بھارت حریت پسند رہنماؤں کی جائیدادیں ضبط کرکے، ان کے روزگار بند کرکے،  ان کے بچوں کو ڈرا دھمکا کر، ان کی رشتہ دار خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرکے انہیں راہ حریت سے پسپا ہونے کے لیے مجبور کر رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بھارت نواز سیاست کا حصہ بن کر وہی کچھ حاصل کرپائیں گے جو شیخ محمد عبداللہ سے عمر عبداللہ تک نے حاصل کیا۔ جبر کے سامنے ہمیشہ کے لیے دب جانا ہی تو غلامی ہوتی ہے۔ اور غلامی سے بدتر زندگی کی کوئی شکل ہو نہیں سکتی۔ آزاد قومیں ہی خوشحال ہوسکتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بھارت پاکستانی حکومت ریاست جموں کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس

متعلقہ مضامین

  • شہباز شریف کا پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس سے رابطہ، عید کی مبارکباد پیش کی
  • صدر مملکت، وزیراعظم کا عید پیغامات میں کشمیریوں، فلسطینیوں کی حمایت کا اعادہ
  • خلوت میں تقویٰ اور ایمان کی معراج
  • قیام کے وقت سجدے میں گرجانا کیسا ہوتا ہے؟
  • تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (آخری حصہ)
  • ماحولیاتی نفسیات: انسان اور فطرت کا باہمی تعلق
  • کیا مرحوم والدین کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے؟ 
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ٹو ان ون سعادتیں