امریکی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کی کوششوں کو روک دیا، جو امریکی مالی امداد سے چلنے والی بین الاقوامی نیوز سروس ہے۔ عدالت نے اس اقدام کو من مانے اور بے بنیاد فیصلوں کی کلاسک مثال قرار دیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق اپنے حکم میں جج جیمز پال اوٹکن نے براڈکاسٹس کی بحالی کا حکم نہیں دیا۔ تاہم، اس نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو 1,200 سے زیادہ صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا جنہیں اس مہینے کے شروع میں اچانک چھٹیوں پر بھیج دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟

اوٹکن کے حکم میں امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا جو VOAریڈیو فری یورپ اور دیگر حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے میڈیا کی نگرانی کرتی ہے کو کسی بھی ایسی کوشش کرنے سے روک دیا ہے کہ وہ ملازمین یا کنٹریکٹرز کو برطرف کرے، کم کرے، چھٹیوں پر بھیجے یا معطل کرے۔

ایجنسی کو کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا غیر ملکی ملازمین کو امریکا واپس بھیجنے کا حکم دینے سے بھی روکا گیا ہے۔ یہ کیس VOA کے ملازمین، ان کے یونینز اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (RSF) نے دائر کیا تھا، جنہوں نے الزام لگایا کہ بندش عملے کے آئینی پہلے ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے جو آزادی اظہار پر زور دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد

مدعی وکیل اینڈریو جی سیلی جونیئر نے کہا کہ یہ صحافت کی آزادی اور پہلی ترمیم کے لیے ایک فیصلہ کن فتح ہے بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ہمارے جمہوریت کو تشکیل دینے والے اصولوں کی مکمل بے حرمتی کا ایک شدید ردعمل ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ جج نے حکومت کے کسی بھی مزید اقدام کو روکنے سے اتفاق کیا تاکہ وائس آف امریکا کو تحلیل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ٹرمپ انتظامیہ سے فوری طور پر VOA کے لیے فنڈنگ بحال کرنے اور اس کے ملازمین کو بغیر کسی تاخیر کے دوبارہ بحال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

VOA ڈونلڈ ٹرمپ وائس آف امریکا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ وائس آف امریکا وائس آف امریکا

پڑھیں:

گرین لینڈ ضم کرنے کا عندیہ، ٹرمپ کے بیان پر ڈنمارک کا شدید ردعمل

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ لارش لوک راسموسن نے امریکی صدر کی انتظامیہ کے بیان پر کہا ہے کہ انکا ملک گرین لینڈ میں سکیورٹی کو بہتر کرنے کیلئے مزید سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر کے بزور طاقت گرین لینڈ ضم کرنے کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر ڈنمارک کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ لارش لوک راسموسن نے امریکی صدر کی انتظامیہ کے بیان پر کہا ہے کہ ان کا ملک گرین لینڈ میں سکیورٹی کو بہتر کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہم امریکا کے ساتھ مزید تعاون کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ڈنمارک کے وزیرِ خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ہم اس لہجے کو پسند نہیں کرتے، جو استعمال کیا گیا ہے۔

آپ اپنے قریبی حلیفوں سے اس انداز میں گفتگو نہیں کرتے، میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ ڈنمارک اور امریکا قریبی اتحادی ہیں۔ اس سے پہلے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بیان میں کہا تھا کہ ڈنمارک نے گرین لینڈ کے لوگوں کے ساتھ درست نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ جہاں تک گرین لینڈ کو ضم کرنے کا تعلق ہے، میں اس معاملے میں فوجی قوت کے استعمال کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے زیلنسکی کو ایک بار پھر دھمکی دے دی
  • امریکی صدر ٹرمپ کی متنازع پالیسیاں، امریکی سائنسدان ملک چھوڑنے پر مجبور
  • جوہری معاملے پر امریکا سے براہ راست نہیں بالواسطہ مذاکرات کا راستہ ہمیشہ کُھلا ہے، ایرانی صدر
  • گرین لینڈ ضم کرنے کا عندیہ، ٹرمپ کے بیان پر ڈنمارک کا شدید ردعمل
  • امریکی محصولات کا مقابلہ اپنے جوابی تجارتی اقدامات سے کریں گے، کینیڈا
  • وائس آف امریکا سے عملے کی جبری برطرفی، جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو روک دیا
  • امریکی عدالت کا وائس آف امریکہ کے حق میں فیصلہ
  • امریکی عدالت نے فلسطینیوں کی حمایت پرگرفتار ترک طالبہ کی ملک بدری عارضی طور پر روک دی
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کے وائس آف امریکا کی بندش کے فیصلے کو معطل کردیا