بھارت کی دہشت گردانہ کارروائیاں عالمی امن کیلئے خطرہ، علی رضا سید
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
برسلز سے جاری ایک بیان میں انھوں نے امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" بیرون ملک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی طرف سے امریکہ سمیت دیگر ممالک میں مداخلت اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق علی رضا سید نے برسلز سے جاری ایک بیان میں امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" بیرون ملک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں ”را“ پر پابندی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے غیر ملکی سرزمین پر دہشت گردانہ کارروائیاں عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں، کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے بھارت کا دہشت گرد چہرہ بے نقاب کر دیا ہے جبکہ را نے اسی طرح امریکہ میں بھی ایک اور سکھ رہنماء کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ علی رضا سید نے کہا کہ بھارتی حکومت اپنے ملک کے اندر بھی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے جبکہ اس نے حق خودارادیت کے مطالبے کی پاداش میں کشمیریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ علی رضا سید نے کہا کہ مودی حکومت کے دور میں مقبوضہ کشمیر میں مظالم میں اضافہ ہوا ہے اور وہ علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ نہتے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا نوٹس لے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی قیادت پر دباﺅ ڈالے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علی رضا سید نے
پڑھیں:
کابل کے سقوط کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح ایک بڑا سیکیورٹی خطرہ بن گئی
کابل کے سقوط کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح ایک بڑا سیکیورٹی خطرہ بن گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 1 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنی کارروائیوں اور تنظیمی ساخت میں اہم تبدیلیاں کرنے کی وجہ سے سنگین سیکیورٹی چیلنج بن گئی۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) 2024 تک ایک انتہائی منظم اور مرکزی کمان کے تحت کام کرنے والی جنگجو تنظیم بن چکی ہے، جس میں 42 مختلف گروپوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
اس گروپ کی قیادت 2017 سے نور ولی محسود کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے اسے طالبان کے طرز پر ایک گورننس ماڈل میں تبدیل کر دیا ہے، جس میں ”وزارتیں“، انتظامی صوبے (ولایات) اور ایک سخت ضابطہ اخلاق شامل ہیں تاکہ داخلی معاملات کو منظم کیا جا سکے۔
مالی وسائل اور فنڈنگ کا نظام
خفیہ رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی کا مالی نظام بہت منظم ہے، جو غیر قانونی ذرائع جیسے بھتہ خوری (جو کہ کل آمدنی کا 5-20 فیصد تک ہو سکتا ہے)، اسمگلنگ اور اغوا سے آمدنی حاصل کرتا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے اندرونی مالی بدعنوانی کو روکنے کے لیے سخت ضابطہ نافذ کیا ہے، جس سے اس کے مالی وسائل مسلسل فراہم ہوتے رہتے ہیں۔
پروپیگنڈا میں تبدیلی
دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈہ کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہے، جس میں اب محض جنگجوؤں کو ہیرو بنانے کی بجائے سماجی و سیاسی پیغامات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
گروپ اب رسالوں، پوڈکاسٹ اور ویڈیو مواد تیار کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ عوامی شکایات کا فائدہ اٹھا کر خود کو پاکستانی حکومت کا متبادل ظاہر کرتا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کا مقصد ٹی ٹی پی کے اثر و رسوخ اور بھرتی کی کوششوں کو بڑھانا ہے۔
افغان طالبان سے تعلقات اور سرحدی کارروائیاں
افغانستان میں طالبان کے 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد، انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، ٹی ٹی پی نے افغان علاقے کو اپنا آپریشنل بیس بناتے ہوئے پاکستان پر حملوں کو بڑھا دیا ہے۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹی ٹی پی کابل حکومت کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچتی ہے، تاہم افغانستان میں اس کی موجودگی خطے کی سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
امن مذاکرات کا ناکام ہونا اور بڑھتا ہوا تشدد
انسداد دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ 2021-2022 کے دوران ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات میں ناکامی کی بڑی وجہ گروپ کا ایف اے ٹی اے کی ضم ہونے کی مخالفت اور درانداز لائن (ڈیورنڈ لائن) کو مسترد کرنا تھا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ناکامی کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
سیاسی اور نسلی تقسیم کا فائدہ اٹھانا
خفیہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پشتونوں کی شکایات، فوج کے خلاف بیانیہ اور سرحدی علاقوں میں معاشی مسائل کو اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہے تاکہ مقامی حمایت حاصل کی جا سکے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹی ٹی پی علیحدگی پسند بیانیہ اختیار کرنے سے گریز کرتی ہے اور خود کو ایک متبادل حکومتی ماڈل کے طور پر پیش کرتی ہے۔
ایک مستقل سیکیورٹی چیلنج
دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود، ٹی ٹی پی ابھی بھی ایک مضبوط اور مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، جو سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور سرحدی کنٹرول کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر بنیادی وجوہات جیسے حکومتی ناکامیاں، حل طلب سرحدی مسائل اور سیاسی بیگانگی کو حل نہ کیا گیا تو یہ بغاوت مزید بڑھے گی، جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دے گی۔
نتائج
ٹی ٹی پی کا مزید منظم اور سیاسی طور پر حکمت عملی اختیار کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کی مالی اور سیاسی استحکام، افغان طالبان سے تعلقات اور سرحدی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔