امریکی ریاست ٹیکساس میں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
ٹیکساس:
امریکی ریاست ٹیکساس میں 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی جس میں پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کی ریاست ٹیکساس میں سماجی، مذہبی، لسانی اور معاشی خدمات کا بھی اعتراف کیا گیا۔
نیو یارک کی ریاستی اسمبلی کی جانب سے گزشتہ دنوں یوم پاکستان اور پاکستان بزنس ڈے کے حوالے سے دو قراردادیں منظور کی گئیں۔
سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ نے ٹیکساس اسمبلی کی جانب سے یوم پاکستان کے حوالے سے قرارداد منظور کرنے کا خیر مقدم کیا۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ مختلف ریاستوں میں یوم پاکستان کے حوالے سے قراردادوں کی منظوری ریاستی سطح پر پاک امریکا تعلقات خصوصاً معاشی تعلقات کے فروغ کے حوالے سے انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ دیگر ریاستوں خصوصاً ایسی ریاستوں جہاں پاکستانی کمیونٹی کثیر تعداد میں موجود ہے تک بڑھایا جائے گا۔
قونصل جنرل محمد آفتاب چوہدری کی اسپیکر ٹیکساس اسمبلی ڈسٹن بروز سے ملاقات ہوئی جس میں قرارداد کی منظوری میں ان کے کردار پر شکریہ ادا کیا۔ قونصل جنرل نے اسپیکر ٹیکساس کو ریاستی نمائندوں اور تاجروں کے وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔
بعد ازاں، انہوں نے ریاستی نمائندے ڈاکٹر سلیمان لالانی کی طرف سے ٹیکساس کیپیٹل میں مقننہ کے دونوں ایوانوں کے اراکین اور مقامی معززین کے اعزاز میں دی گئی افطار میں بھی شرکت کی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان یوم پاکستان کے کے حوالے سے
پڑھیں:
دشمن کے کئی چہرے ، ہر چہرہ آشنا سا
پاکستان دشمنی کے کئی چہرے ہیں، مگر ان کا ایجنڈا ایک ہے: انتشار، بدامنی، اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنا۔ بی ایل اے ایک مسلح دہشت گرد گروہ ہے، ماہ رنگ اس کا سہولت کار چہرہ ہے، اور پی ٹی آئی وہ سیاسی قوت ہے جو ریاست کو کمزور کرنے کی ہر سازش میں براہ راست یا بالواسطہ شامل رہی ہے۔ یہ تینوں مختلف نام اورحیثیتیں رکھتے ہیں، مگر ان کے مفادات ایک جیسے ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے میں معصوم شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا گیا، جس میں ریاست نے پوری قوت سے ان عناصر کو کچلا، مگر حیرت انگیز طور پر کچھ لوگ اس کے خلاف احتجاج میں سرگرم ہو گئے۔ ان میں سب سے نمایاں کردار بی ایل اے کا سیاسی چہرہ ماہ رنگ بلوچ کا تھا، جو لاپتہ افراد کا جھوٹا بیانیہ گھڑ کر ریاست کے خلاف زہر اگلتی رہی۔ احتجاج کی آڑ میں اس کی دہشت گردوں کے ساتھ ملی بھگت ثابت ہوچکی ہے۔ جعفر ایکسپریس آپریشن میں مارے گئے پانچ دہشت گردوں کی لاشیں زبردستی چھیننا، شرپسندوں اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا باپ خود دہشت گرد تھا، جو ریاست کے خلاف حملوں میں ملوث رہا،اپنی ہی تنظیم کے فنڈنگ کے گھپلے میں مارا گیا ، ماما قدیر اس کی گواہی دےچکا ہے ۔ سمی دین محمد کی حمائت میں میرجعفر و صادق کے وارث میروں کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے،حالانکہ اس کا باپ ڈاکٹر دین اس وقت بھی پڑوسی ملک میں دہشت گردوں کی قیادت کا حصہ ہے ، یہ اس سے ملتی بھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہ رنگ اور سمی کو لاپتہ افراد کا درد نہیں بلکہ بی ایل اے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی فکر ہے۔یہی وہ بی ایل اے ہے جسے بھارت اور دیگر دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، جو بلوچستان میں خونریزی پھیلا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کا احتجاج صرف اور صرف دہشت گردوں کو مظلوم ثابت کرنے اور ریاستی بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے تھا۔حکومت نے اسے گرفتار کرنے میں تاخیر کی ، اب بھی اس کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے سے گریز ناقابل فہم ہے ۔ جب تک ان سنپولیوں کے سر پوری قوت سے نہیں کچلے جائیں گے، امن قائم نہیں ہو سکےگا ۔
دوسری طرف فتنہ انتشار ہے، جو ہمیشہ سے ریاست مخالف قوتوں کی پشت پناہی میں پیش پیش رہا ہے ، حدتو یہ کہ اقتدار ملنے پر بھی پورے ملک کو دھیلے کا بھی ریلیف نہیں دیا ، لیکن دہشت گردوں پرمراعات کی بارش کردی ۔ اس کا ماضی ملک دشمنی سے عبارت ہےچاہے وہ 9 مئی کے فسادات ہوں، جہاں حساس اداروں پر حملے کیے گئے، یا اب بی ایل اے کے دہشت گردوں کی ہلاکت پر واویلا ، اس کا ہر عمل ریاست دشمن عناصر کے مفادات کو تقویت دیتا ہے۔ یہ وہی جماعت ہےجو دشمن ممالک کے میڈیا میں “آمرانہ ریاست” کا بیانیہ پھیلا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی ریاست کسی ملک دشمن ایجنڈے کو کچلنے کے لیے عملی اقدامات کرتی ہے، تو یہی تین عناصر یعنی بی ایل اے، ماہ رنگ اور پی ٹی آئی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن سوشل میڈیا پر بی ایل اے کے دہشت گردوں کے حق میں مہم چلاتے ہیں، ماہ رنگ ان کا نام لے کر عالمی اداروں سے مدد کی بھیک مانگتی ہے، اور بی ایل اے زمین پر ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت کی ناپاک کوشش کرتا ہے۔ یہ تینوں ایک ہی سکے کے رخ ہیں، جو مختلف طریقوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بعد ازخرابی بسیار حکومت نے ففتھ کالمسٹوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے ، لیکن یہ کارروائی ایسی نہیں کہ جو شر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے ، بلکہ جس طرح سے بعض عدالتوں میں انہیں سہولت کاری دستیاب ہو رہی ہے ، اس سے گرفتاریوں سے فائدے کے بجائے ریاست کو الٹا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ۔ لازم ہے کہ اب ریاست ان باغیوں اور دہشت گردوں کےحواریوں کے لئے مادر مہربان کا رویہ ترک کرے ، یہ بقاء کی جنگ ہے، اسے اسی طرح سے لڑنا ہوگا ۔ لازم ہے کہ چھوٹے موٹے چمونوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے ملک دشمنی کے ایوارڈ وصول کرنے والوں سے لے کر تمام شعبہ ہائے زندگی میں گھسے دشمن کے ان ایجنٹوں پر سخت ہاتھ ڈالا جائےاور ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کئے جائیں ۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے۔ بی ایل اے جیسے دہشت گرد گروہوں کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا، ماہ رنگ جیسے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا، اور پی ٹی آئی جیسے ریاست مخالف عناصر کو بےنقاب کرکے ان کے غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے کو مکمل طور پر ناکام بنانا ہوگا۔ پاکستان کے دشمنوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ ملک کسی دہشت گرد تنظیم، کسی سہولت کار، یا کسی سیاسی جماعت کے پروپیگنڈے سے کمزور نہیں ہوگا۔ عوام اپنی افواج اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہر دشمن کو عبرت ناک شکست دینے کے لیے تیار ہیں۔بقول فاروق درویش
اے فتنہ ء امریکہ کی حرفت کے مصاحب
اے دست ِ فرنگی ترے کردار پہ لعنت
سلطانی ء جمہور کہ اغیار کا منشور
دو رنگی ء مے خانہ و میخوار پہ لعنت
مفرور ِ وطن دہشت ِ اغیار کے کرتار
ہر فتنہ ء مغرب کے وفادار پہ لعنت
سن دیس بھگت نعرہ ء دم مست قلندر
اس دھرتی کے ہر قاتل و غدار پہ لعنت