امام الحق کو پہلے ون ڈے میں کیوں پلئینگ الیون کا حصہ نہیں بنایا گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
قومی ٹیم کے اوپنر امام الحق کو نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں پلئینگ الیون کا حصہ نہ بنانے کی وجہ سامنے آگئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اوپنر امام الحق کو گزشتہ روز پریکٹس سیشن کے دوران انجری کا شکار ہوئے تھے جس کے باعث انہیں پلئینگ الیون کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
امام الحق کو ٹریننگ سیشن کے دوران پاؤں پر گیند لگی تھی جس کے باعث انکے ٹشوز پر چوٹ آئی تھی۔
مزید پڑھیں: اپنے ہی ملک کیخلاف ڈیبیو پر تیز ترین نصف سینچری جڑدی
اوپنر کی انجری کا اسکین کروایا گیا ہے تاہم رپورٹس سامنے آنے کے بعد مزید اَپ ڈیٹس فراہم کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: پہلا ون ڈے؛ پاکستانی بالرز نے ایک اور ناپسندیدہ ریکارڈ بنواڈالا
واضح رہے کہ امام الحق نے چیمپئینز ٹرافی 2025 فخر زمان کی انجری کے بعد اسکواڈ میں واپسی کی تھی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امام الحق کو
پڑھیں:
افغان طالبان پاکستان کے مخالف کیوں؟
یہ اوپن ایئر سا چائے خانہ تھا، سائیڈوں پر خوبصورت باغیچہ ، پھولوں کے گملے، سجاوٹی اشیا اور درمیان میں خاصی کشادہ جگہ پر خوبصورت کرسیاں، صوفے سجے ہوئے جبکہ سامنے خاصی بڑی ٹی وی اسکرین جس پر کرکٹ میچ لگا ہوا۔
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان میچ لگا ہوا تھا، پاکستانی ٹیم کی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔مس فیلڈنگ ہو رہی، باؤلرز درست لائن لینتھ پر باؤلنگ نہیں کرا رہے۔ سری لنکن بلے بازوں کی اچھی بیٹنگ پر میچ دیکھنے والے دیوانہ وار تالیاں بجا رہے، پُرجوش نعرے لگ رہے، فرط مسرت سے سیٹیاں بج رہیں۔ اچانک ایک اونچا شاٹ لگا، کیچ تھا۔ پاکستانی فیلڈر دوڑا گیند کے نیچے آیا۔ میچ دیکھنے والے ہجوم پر سکتہ طاری ہوگیا، ناہنجار بلے باز کے لیے منہ سے نکلی بے ساختہ گالیوں کی آواز سنائی دی، اچانک فیلڈر سے کیچ چھوٹ گیا۔ داد تحسین کے زبردست نعرے گونجے، 2-3 نوجوان خوشی سے اٹھ کر ناچنا شروع ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں:وائس آف امریکا کی متنازع رپورٹ کا کوئی نوٹس لے گا؟
ہم نے اس چائے خانے کے قریب موجود ہوٹل کی چھت پر جانا تھا، وہاں ترکش ڈنر ہمارا منتظر تھا۔ میں اور ہمارے پاکستانی میڈیا وفد کے 1-2 ساتھی تجسس اور دلچسپی کے مارے میچ کی تفصیل معلوم کرنے وہاں رک گئے تھے۔ یہ کابل شہر تھا اور 2023 کے ایشیا کپ کا میچ تھا جو پاکستان ہار گیا۔ پاکستان کی ہار پر دیوانہ وار خوشی کا اظہار کرنے والے افغان نوجوان تھے۔
لاہور، اسلام آباد اور پشاور سے چند صحافیوں کا وفد کابل گیا تھا، چند دن وہاں طالبان لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں، گلبدین حکمت یار سے بھی ایک ملاقات ہوئی۔ عام طالبان جنگجوؤں اور افغان وزارت اطلاعات کے ذمہ داران سے ملتے رہے۔ 1-2 معروف افغان میڈیا اداروں کا وزٹ کیا، افغان صحافیوں، اینکرز سے بھی ملے۔ یہ سوال ہر جگہ ذہن میں گونجتا رہا کہ آخر افغان اور خصوصاً ان کے نوجوان ہم پاکستانیوں اور پاکستان کے اتنے مخالف کیوں ہیں؟ ہم نے ان کا کیا بگاڑا ؟ اور یہ کہ ہم جس شکر گزاری اور احسان مندی کی ہم پاکستانی اپنے افغان ہمسایوں میں توقع کرتے ہیں، ہمیں اس کے برعکس جذبات اور رویہ کیوں نظرآتا ہے؟
اپنے تاثرات اور نتائج پر بعد میں بات کرتا ہوں، پہلے مختصراً جناب مفتی عبدالرحیم صاحب کے حالیہ پوڈ کاسٹ کا حوالہ دیتا جاؤں۔ مفتی عبدالرحیم ممتاز دینی سکالر، معلم اور جامعۃ الرشید کے سربراہ ہیں۔ جامعۃ الرشید کے نام سے اندازہ ہوگیا ہوگا، اگر نہیں ہوا تو بتاتا چلوں کہ جامعۃ الرشید ممتاز دیوبندی عالم دین مولانا رشید احمد لدھیانوی کی لیگیسی ہے۔ وہی مولانا رشید احمد جو الرشید ٹرسٹ کے سربراہ تھے، جس ادارے نے افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے دوران بے پناہ کام کیا، غریب افغانوں کے لیے مفت روٹی فراہمی کے تنور بنائے اور بھی بہت کچھ کیا، اسی وجہ سے نائن الیون کے بعد امریکیوں نے اس پر پابندی لگا دی۔ مولانا رشید احمد کا افغان طالبان کے حلقوں میں بے پناہ احترام تھا، ملا عمر ان کی بہت تکریم کرتے تھے۔ مفتی عبدالرحیم صاحب انہی مولانا رشید احمد لدھیانوی کے شاگرد رشید اور ایک طرح سے ان کے خلیفہ ہیں۔ ان کی فکری وارث اور ان کی تعلیمی جدوجہد کو لے کر چلنے والے۔ مولانا رشید احمد نے 20-22 برس تک مفتی عبدالرحیم کو اپنے ساتھ رکھا اور پھر انہیں جانشین مقرر کیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ کیوں بنا رہا ہے؟
مفتی عبدالرحیم صاحب کی زندگی کا خاصا حصہ افغانستان میں بسر ہوا۔ وہ افغان تحریک مزاحمت کے دنوں میں بھی وہاں رہے، افغانستان کا چپہ چپہ دیکھ رکھا ہے، کئی عیدیں وہاں کیں۔ عامر خاکوانیسامراج کے خلاف لڑائی میں عملاً حصہ لیا۔ مُلا عمر انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ افغان طالبان کے ہمیشہ خیر خواہ اور ہمدرد رہے۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہوئی اور طالبان تنظیم ہی تحلیل ہوگئی، کمانڈر اور جنگجو افغانستان کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں جب بتدریج قابض غیر ملکی افواج کے خلاف طالبان مزاحمت شروع ہوئی اور ایک ایسی گوریلا جنگ لڑی گئی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پاکستان کا کردار بھی تب مبہم، مشکل اور گہری حکمت عملی پر مبنی رہا۔ عالمی قوتوں کے ساتھ بظاہر تعاون مگر درپردہ طالبان قیادت اور ان کے لیڈروں کو تحفظ دینے کے ساتھ بیس کیمپ کی سہولت فراہم کرنا۔ مفتی صاحب اس سب کے گہرے شناور اور بھید بھاؤ جاننے والے عینی شاہد ہیں۔ بہت کچھ ان کے سینے میں دفن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان طالبان کی تحریک مزاحمت کبھی کامیاب نہیں ہوتی، اگر پاکستان کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی اور مفتی عبدالرحیم جیسے دیرینہ ہمدرد افغان طالبان کی کھل کر حمایت اور مدد نہ کرتے۔
انہی مفتی عبدالرحیم صاحب نے چند دن قبل بہت تفصیلی پوڈکاسٹ انٹرویو دیا ہے، جو 2-3 حصوں میں جے ٹی آر میڈیا سے نشر ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے بہت کھل کر باتیں کی ہیں، حال ، ماضی کے کئی انکشافات اور مستقبل کی ایک جھلک بھی ان کے انٹرویو میں موجود ہے۔
مفتی صاحب نے مُلا عمر کے افغانستان کے زمانے کے کئی واقعات سنائے اور ممتاز ترین عرب لیڈر کے حوالے سے بھی کئی باتیں بتائیں۔ وہی عرب لیڈر جو بعد میں دنیا کا مطلوب ترین شخص بنا اور جس کا نام لکھنے پر سوشل میڈیا سائٹس سٹرائیک کر کے آئی ڈی اڑا دیتی ہیں۔ بہت سی دیگر دلچسپ باتوں کےساتھ ایک بات یہ بتائی کہ مُلا عمر کے آخری برسوں میں اس پر عربوں کےساتھ بحث مباحثے چلتے رہے کہ جہا د کے لیے امیر کی اجازت لازمی ہے۔ آخر ایک علمی مناظرہ ہوا، جس میں عربوں کی جانب سے 3 عالم دین اور ادھر سے مفتی عبدالرحیم، جامعہ حقانیہ کے مشہور استاد ڈاکٹر شیرعلی شاہ اور ایک دوسرے عالم دین شامل تھے۔ جس کے بعد عرب علما قائل ہوگئے کہ کسی بھی قسم کا جہاد امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، تاہم مفتی صاحب کے بقول عرب لیڈر اور ان کے ساتھیوں نے اس بات کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ ان سرگرمیوں میں جتے رہے جن کی سزا بعد میں پورے افغانستان اور مُلا عمر کی طالبان حکومت کو بھگتنا پڑی۔
مفتی عبدالرحیم صاحب پر اس پوڈ کاسٹ کے بعد یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ وہ اتنے پرانی باتیں اب کیوں بیان کر رہے ہیں؟ تب کیوں نہیں کہا؟ اپنے پوڈ کاسٹ کے تیسرے حصے میں مفتی صاحب نے وضاحت کی ہے کہ وہ برسوں سے ان رازوں کو اپنے سینے میں اسی لیے محفوظ کیے رہے کہ کہیں آشکار کرنے سے ریاست پاکستان یا افغان طالبان کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ تاہم اب انہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں کھل کر بیان ہونی چاہییں۔ یہ راز ہر ایک تک پہنچنے چاہییں، تاکہ غلط فہمیاں اور فکری مغالطے دور ہوں اور اب بھی خاموشی اختیار کی رکھی تو گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:’خلیفہ‘ کا زوال
مفتی عبدالرحیم نے اپنے پوڈ کاسٹ کے پہلے حصے میں 2 واقعات سنائے جسے سُن کر بہت سے لوگ حیران بھی ہوئے۔ پہلا واقعہ 2 ڈھائی سال قبل جنرل باجوہ کے دور کا ہے، جب مقتدر قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ افغانستان گئے تھے، وہاں پر مختلف علما کے وفود سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے شاگردوں کا بڑا حلقہ وہاں موجود ہے، بہت سے علما اکھٹے ہوئے اور انہوں نے ان سے سند حدیث بھی لی۔ کوئی ایک ہزار کے قریب علما سے رابطہ اور ملاقاتیں ہوئیں۔ اچانک ایک روز انہیں طالبان حکومت کے عہدے داروں نے لیا اور فوری طور پر پاکستان بھیج دیا، مفتی صاحب کو ہوٹل میں رکھا اپنا سامان تک نہیں لینے دیا گیا۔ عذر ان کی سیکیورٹی کا بنایا گیا، مگر ایک طرح سے انہیں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ طالبان حکومت کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ ایک ہزار سے زائد علما ٹی ٹی پی کی دہشتگردی کے خلاف ایک اجتماعی فتویٰ نہ جاری کر دیں جس سے طالبان حکومت کے لیے اس دہشتگرد گروہ کی پشت پناہی مشکل ہوجائے۔ جو لوگ مفتی عبدالرحیم صاحب کی افغان طالبان کے لیے خدمات کو جانتے ہیں، ان کے لیے یہ بات حیران کن رہی۔
مفتی صاحب نے دوسرا واقعہ بھی بیان کیا جس میں وہ بقول ان کے پاکستانی آرمی چیف کی مرضی سے افغانستان ویزا لے کر جا رہے تھے، جہاز میں بھی بیٹھ گئے تھے کہ اچانک اطلاع ملی کہ انہیں افغانستان آنے کی ضرورت نہیں، اگر آئے تو کابل ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیے جائیں گے۔ مجبوراً مفتی صاحب کو جہاز سےاتر کر واپس آنا پڑا۔
ان دونوں واقعات سے ہر کوئی اپنی مرضی کے نتائج اخذ کر سکتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان پر تو ایسی پابندی نہیں لگی اور چند ماہ قبل وہ افغانستان گئے، ان کی طالبان قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ فرق شاید یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ریاست پاکستان کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، اپنے طور پر گئے تھے، اس لیے ان کے جانے نہ جانے سے کچھ فائدہ بھی نہیں ہوا۔ مفتی عبدالرحیم صاحب البتہ ریاست پاکستان اور مقتدر قوتوں کی ایک طرح سے نمائندگی کر رہے تھے، اگر ان کی طالبان قیادت سے ملاقاتیں ہوتیں تو شاید کوئی بریک تھرو ہوجاتا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا طالبان حکومت ہی کو فائدہ ہوتا۔ یہ بات مگر واضح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین غلط فہمیاں اور تلخیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ مفتی صاحب جیسی بڑی، قدآور اور افغانستان کے اندر گہرا اثر و نفوذ رکھنی والی شخصیت بھی افغان طالبان حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کو ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی چاہیے
مفتی عبدالرحیم صاحب کے پوڈ کاسٹ انٹرویوز میں بہت کچھ ایسا ہے جسے وی نیوز کے قارئین سے شیئر کرنا چاہیے، اس پر مگر کسی اگلے کالم میں بات کریں گے۔ یہ کالم طویل ہوگیا ہے تو اپنے دورہ کابل کے دوران اخذ کردہ نتائج اور اپنے مشاہدات بھی ان شااللہ اگلے حصے میں بیان کروں گا۔ ان شااللہ ملتے ہیں چند دنوں کے وقفے میں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
افغانستان ٹی ٹی پی جامعۃ الرشید جنرل باجوہ دہشتگردی طالبان مفتی عبدالرحیم مولانا رشید احمد لودھیانوی