معروف صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ کی گدی نشینی کے کیس کا فیصلہ آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
سینیئر سول جج کی عدالت سے مقدمہ 2002ء سے زیر سماعت تھا۔ عدالت نے تمام شواہد کی روشنی میں فیصلہ صاحبزادہ فیض سلطان کے فرزند صاحبزادہ نجیب سلطان کے حق میں سنا دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد صاحبزادہ نجیب سلطان 10 دیں سجادہ نیشن دربار حضرت سلطان باہوؒ مقرر ہو گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ضلع جھنگ کے معروف صوفی بزرگ حضرت سلطان باہوؒ کی گدی نشینی کے کیس کا فیصلہ 23 سال بعد سنا دیا گیا۔ سینیئر سول جج کی عدالت سے مقدمہ 2002ء سے زیر سماعت تھا۔ عدالت نے تمام شواہد کی روشنی میں فیصلہ صاحبزادہ فیض سلطان کے فرزند صاحبزادہ نجیب سلطان کے حق میں سنا دیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد صاحبزادہ نجیب سلطان 10 دیں سجادہ نیشن دربار حضرت سلطان باہوؒ مقرر ہو گئے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد صاحبزادہ نجیب سلطان کے ملک و بیرون ملک موجود مریدین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ کیس صاحبزادہ منیب سلطان اور صاحبزادہ نجیب سلطان کے درمیان چل رہا تھا۔ عدالت نے صاحبزادہ نجیب سلطان کو حقیقی سجادہ نشین قرار دیدیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صاحبزادہ نجیب سلطان کے حضرت سلطان باہو
پڑھیں:
تُو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا (آخری حصہ)
آپ ﷺ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، حضرت فاطمہؓ کو اپنی تمام اولاد سے بڑھ کر چاہتے تھے، حضرت فاطمہؓ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہا اور پھر جب فرض کی ادائیگی اللہ کی رضا اور انتخاب سے قرار پائی تو پھر نہ صرف یہ کہ شہزادی کونین حضرت فاطمہؓ کے نکاح کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انبساط و شادمانی کا احساس اپنے عروج پر پہنچنے لگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ابھی حضرت جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور یہ خبر سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کے پاس میری بیٹی فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کر دیا ہے، فرشتوں نے گواہی دی ہے اور مجھے بھی حکم فرمایا ہے کہ میں زمین پر ان کا نکاح کر دوں۔
میں تم سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح حضرت علیؓ سے کر دیا ہے۔ایک ماہ بعد بی بی فاطمہ کی رخصتی حضرت علیؓ کی خواہش پر کی گئی، رخصتی سے قبل آنحضرت ﷺ نے گھر گرہستی کا سامان خریدنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کو مٹھی بھر درہم دے کر فرمایا کہ فاطمہؓ کے لیے ضرورت کی اشیا خرید لاؤ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روئی کا موٹے کپڑے کا بستر، کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا تکیہ اور چمڑے کا ہی دسترخوان، پانی کے لیے ایک مشکیزہ، مٹی کا آب خورہ اور اون کا ایک پردہ خریدا۔
نبی اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو کچھ درہم دیے اور فرمایا ان سے کھجوریں، گھی اور پنیر خرید لو، چنانچہ جب یہ تینوں چیزیں آگئیں تب آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے دسترخوان بچھایا اور کھجوروں کو گھی میں مسل کر پنیر میں ملا کر حلوہ تیار کیا اور مسجد نبوی میں تشریف فرما صحابہ کرام کو دعوت دی۔
حضرت علیؓ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ! مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے، آپؐ نے فرمایا دسترخوان کو رومال سے ڈھانپ دو اور دس دس لوگوں کو داخل کرتے جاؤ، حضرت علیؓ نے حکم کی تعمیل کی، سب نے کھایا، لیکن کھانے میں ذرہ برابر کمی نہ آئی، اس دعوت طعام میں سات سو افراد نے شرکت کی۔
رسول پاکؐ کے بہت سے معجزات ہیں جن میں یہ معجزہ آپ ؐ کی بیٹی فاطمہؓ کی رخصتی کے موقع پر رونما ہوا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ بی بی فاطمہؓ اپنی عفت، سخاوت، شرم و حیا، صبر و قناعت کی وجہ سے سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں، جن کا نکاح اللہ خود کراتا ہے تو بھلا ان کا مرتبہ کیوں کر نہ ارفع و اعلیٰ ہوگا، وہ جنت میں عورتوں کی سردار اور دنیا میں عفت و عظمت کے درجے پر بلند نظر آتی ہیں۔
رسول اللہؐ کو حضرت فاطمہؓ سے خصوصی لگاؤ تھا، وہ اپنے والد محترم کو دیکھتے ہی احتراماً کھڑی ہو جاتی تھیں، اسی طرح حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کے وقت اللہ کے رسول اپنی صاحبزادی کی تعظیم اور محبت میں کھڑے ہو کر اظہار شفقت فرماتے، ان کی پیشانی پر بوسہ ثبت کرتے۔
اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، تمام اولادوں میں حضرت فاطمہؓ سے آپؐ کو خصوصی محبت تھی۔ آپؐ نے فرمایا، جس بات سے فاطمہؓ کو اذیت پہنچتی ہے، اسی سے مجھے اذیت ہوتی ہے اور جو بات فاطمہؓ کو پریشان کرے، اس سے مجھے بھی پریشانی ہوتی ہے۔
حضرت جمیع بن عمیرؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس گیا تو ان سے میں نے دریافت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا کہ فاطمہؓ۔ پھر دوبارہ عرض کی کہ مردوں میں رسول پاکؐ کو زیادہ عزیز کون تھا؟ ارشاد ہوا، ان کے شوہر یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔
سیدہ، طیبہ، طاہرہ، فاطمۃ الزاہرہ بے شمار اوصاف اور فضائل کی حامل تھیں، جنت میں تمام جنتی خواتین عالم کی سردار، آپ اپنی فقر و درویشی، استغنا اور سخاوت میں بے مثال تھیں، آپ رسول اکرمؐ کی صفات حسنہ کا پیکر تھیں، آپؓ کی گفتار و عادات، چلنے کا انداز اور اخلاق رسول اللہؐ سے مشابہ تھیں۔
آپؓ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی تربیت خاص اور رسول پاکؐ کی مکمل توجہ اور محبت کا مرکز تھیں، فاطمۃ الزاہرہ اپنے ابا جان کے کردار کی روشن مثال تھیں۔حضرت فاطمہؓ شہنشاہ دو جہاں کی صاحبزادی ہوتے ہوئے گھر کے سارے کام خود انجام دیتیں، چکی پیستیں، مشکیزے میں پانی لاتیں، تمام کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہ ہوئیں۔
تین تین دن فاقے میں گزر جاتے مگر کبھی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا۔عبادت کا یہ عالم تھا کہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں، صبح کی اذان سنتے ہی اپنے رب سے محو گفتگو ہوتے ہوئے عرض کرتیں ’’خدایا! تیری بندی عبادت کا حق ادا نہ کر پائی، کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے۔‘‘
غزوہ احد کے موقع پر جب نبی پاکؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپؐ زخمی ہوگئے اور خون بہنے لگا تو حضرت فاطمہؓ بے حد پریشان ہوئیں، روتی جاتیں اور خون صاف کرتی جاتی تھیں، جب خون نہیں رکا تو حضرت فاطمہؓ نے ایک چٹائی کا ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ سے زخموں کو بھرا۔ اس عمل سے خون رک گیا۔
اسی روز پیارے نبیﷺ کا دندان مبارک شہید ہوا تھا اور آپؐ کا نورانی و تقدس سے دمکتا ہوا چہرہ زخمی ہو گیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ کا اخلاق اور سخاوت بے مثال تھی، آپؓ کی خانگی زندگی گھر کے کام اور ذمے داریوں کے بوجھ سے تھکا دینے والی تھی وہ گھر کے سب کام خود انجام دیتیں، پانی کی مشک ڈھوتے ڈھوتے ان کی گردن پر نشان پڑ گئے تھے اور چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے ابھر آئے تھے۔
آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ سے کہا کہ ’’کیا ہی اچھا ہو، جو تم اپنے بابا سے جا کر ایک خادم کا سوال کرو‘‘ حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر کے مشورے پر عمل کیا اور دربار رسالت میں پہنچ گئیں۔
وہاں بہت سے لوگ گفتگو کر رہے تھے، لہٰذا دوسرے دن آ کر حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیا کام ہے فاطمہ؟ فاطمہؓ نے جواب نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر لی تو پھر حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نے ہی فاطمہ کو رائے دی کہ وہ ایک خادم کا سوال کریں تاکہ یہ اس مشقت سے بچ جائیں جو انھیں گھر کے کام نمٹاتے ہوئے پیش آتی ہے۔
یہ سن کر آقائے جود و سخا محمد ﷺ نے فرمایا فاطمہ! تقویٰ اختیار کرو، اپنے رب کا فرض ادا کرو اور اپنے گھر والوں کے کام انجام دو۔ اور رات سوتے وقت 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمدللہ اور 34 بار تکبیر (اللہ اکبر) پڑھ لیا کرو، یہ ورد تمہارے لیے ایک خادم سے زیادہ بہتر ہوگا۔
حضرت فاطمہؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں۔آنحضرت ﷺ اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ سے بہت محبت کیا کرتے تھے، جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے حضرت سیدہ فاطمۃ الزاہرہ کے پاس جاتے اور واپسی میں بھی اپنی نور نظر فاطمہؓ سے ملاقات کرتے۔
بعض جگہ پر روایت ملتی ہے کہ آپؐ سفر پر جاتے وقت حضرت فاطمہؓ کے گھر آخر میں تشریف لاتے اور واپسی پر حضرت فاطمۃالزاہرہ سے پہلے ملاقات کرتے بعد میں دوسرے لوگوں سے۔رسول پاکؐ نے اپنی چہیتی بیٹی کو اپنے وصال کی خبر سنائی جسے سن کر آپؓ آبدیدہ ہوگئیں، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دوسری خبر اپنے بابا سے سننے کو ملی جسے سن کر وہ خوش ہوگئیں۔
حضرت عائشہؓ نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو حضرت فاطمہؓ نے نفی میں جواب دیا کہ میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کروں گی، لیکن اللہ کے محبوب احمد مجتبیٰ ﷺ جب اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے تب حضرت عائشہؓ کے شوق تجسس نے پوچھنے کی طرف مائل کیا۔
حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ جب پہلی بار بابا جان نے یہ بتایا کہ وہ عنقریب مجھ سے بچھڑنے والے ہیں اور میرے ہنسنے اور خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی۔
رسول پاکؐ کے وصال کے 6 ماہ بعد آپؓ انتقال فرما گئیں۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات 3 رمضان 11ھ میں ہوئی، حضرت عباسؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت علیؓ نے اور حضرت عباسؓ نے قبر مبارک میں اتارا۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں جس وقت حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی اس وقت حضرت علی شیر خدا گھر میں موجود نہیں تھے، حضرت فاطمہؓ نے مجھے بلایا اور فرمایا پانی کا انتظام کرو، میں غسل کروں گی اور میرے پہننے کے لیے عمدہ کپڑے نکال دو۔
غسل کے بعد فرمایا، میرا بستر کردو، میں لیٹوں گی، پھر مجھ سے فرمایا اب مفارقت کا وقت قریب ہے، میں غسل کر چکی ہوں اب دوبارہ غسل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اب میرا بدن کھولا جائے، اس کے بعد ہی آپؓ اللہ کے حضور پہنچ گئیں، اپنے بابا سے خاتون جنت ملاقات کے لیے رخصت ہوئیں۔
آپؓ نے 28 سال کی عمر پائی، حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ جن کا انتقال بہت جلد ہو گیا اور بیٹیاں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ۔ حضرت فاطمہؓ کا رات میں ہی انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق اسی شب ان کی تدفین ہوئی۔