لاہور؛ عید کی آمد، اولڈ ایج ہوم میں مقیم بزرگ خواتین اپنوں کی راہ تک رہی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
لاہور:
اداس چہروں اور آنسوؤں کے ساتھ لاہور کے سرکاری اولڈ ایج ہوم میں مقیم بزرگ خواتین عید قریب آتے ہی اپنے پیاروں کی راہ دیکھ رہی ہیں، پنجاب سوشل ویلفیئر سمیت مختلف این جی اوز اور مخیر حضرات کی طرف سے اولڈایج ہومز میں رہنے والے بزرگ افراد کے لیے نئے کپڑوں، جوتوں، تحائف اور عیدی کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن ان بزرگوں کا کہنا ہےعید کا حقیقی مزہ تو اپنوں کےساتھ ہے۔
پنجاب سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے زیر انتظام اولڈایج ہوم ''عافیت'' میں مقیم بخمینہ خاتون کا تعلق مردان سے ہے لیکن اپنے شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنے بچوں کو لے کر لاہور آگئیں، بچوں کو پال پوس کر جوان کیا اور ان کی شادیاں کیں مگر یہ باہمت ماں آج خود اولڈایج ہوم میں زندگی گزار رہی ہیں۔
بخمینہ خاتون کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا بہت اچھا ہے لیکن بہو کہتی ہے اگر تمہاری ماں یہاں رہے گی تو وہ گھر چھوڑ کر چلی جائیں گی، میں نےبیٹے کو سمجھایا کہ میری وجہ سے تمھارا گھر نہیں ٹوٹنا چاہیے، تمھاری بیوی چلی گئی تو بچوں کو کون سنبھالےگا۔
انہوں نےکہا ان کی بیٹی کی شادی کراچی میں ہوئی ہے، وہ بہت ضد کرتی ہےکہ میں اس کے پاس آجاؤں لیکن ہم پختون داماد کےگھر میں نہیں رہتے، کبھی کبھار رونا تو آتا ہے کہ اولاد کو محنت مزدوری کرکے پال پوس کر جوان کیا اور آج خود یہاں زندگی گزار رہی ہوں۔
اولڈ ایج ہوم عافیت میں اس وقت 33 بزرگ مقیم ہیں جن میں 21 مرد اور 12 خواتین ہیں، ان خواتین میں فیصل آباد کی رہائشی رخسانہ ظفر اور شاہ کوٹ کی رہائشی نسیم اختر بھی شامل ہیں جنہیں اولاد کی بے رخی اور حالات کی مجبوریاں یہاں لے آئی ہیں۔
رخسانہ ظفر نے آنسوؤں سےبھری آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ اولاد بےشک والدین کو چھوڑ دے، انہیں یاد بھی نہ کرے لیکن مائیں ہمیشہ اپنی اولاد کو یاد کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عید پر مختلف این جی اوز کے لوگ آتے ہیں، اسٹوڈنٹس آتے ہیں، ان کےساتھ عید مناتے، مدرڈے مناتے ہیں لیکن وہ نہیں آتے جن کو اپنی کوکھ سے جنم دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رو،رو کر عید کا دن گزار لیتی ہوں، دو بیٹے یہاں لاہور میں رہتے ہیں لیکن کوئی ملنے نہیں آتا، ایک بیٹا کبھی کبھار فون پربات کرلیتا یا ملنےآتا ہے، وہ کہتے ہیں ناں جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، وہ اولاد جو بڑھاپے میں والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں، ایک دن وہ خود بھی اس مرحلے سے گزریں گی، وہ تو بھی بوڑھے ہوں گے، جب ان کی اولاد انہیں گھر سے نکالے گی تب انہیں احساس ہوگا، بچوں کے بغیر تنہا زندگی کیسے گزرتی ہے۔
نسیم اختر کا درد بھی دیگر خواتین جیسا ہی ہے، انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بھی فوت ہوچکے ہیں، تمام جائیداد بھائیوں نے اپنے نام کروالی، شوہر کی جائیداد ان کے رشتہ داروں نے لے لی، ایک بیٹی تھی جس کی شادی کی اور خود بھی اس بیٹی کے ساتھ رہتی تھی لیکن بیٹی فوت ہوگئی تو داماد نےبھی گھر سے نکال دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ان کا کوئی نہیں ہے، ایک نواسہ ہے، میٹرک میں پڑھتا ہے اس سے فون پر بات کرلیتی ہوں لیکن وہ بھی ملنے نہیں آتا ہے۔
لاہور کے اس اولڈایج ہوم میں ایسی خواتین بھی ہیں جن کی اولاد ہے اور ایسے بھی ہیں جن کی کوئی اولاد ہی نہیں تھی لیکن حالات انہیں یہاں لے آئے ہیں، یہ بزرگ خواتین اولڈایج ہوم میں مختلف کاموں میں مشغول رہ کر دن گزارتی ہیں، انتظامیہ کے مطابق ان کی عید کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔
عافیت کی انچارچ سمیرا اسلم کہتی ہیں یہاں مقیم ہر بزرگ کی الگ کہانی ہے، ہم انہیں ان کی حقیقی اولاد کا سکون تو نہیں دے سکتے لیکن ان کی خوراک، علاج اور آرام کا خیال رکھتے ہیں، ان کے لیے ٹی وی لاؤنج ہے، اخبارات اور رسالے منگوائے جاتے ہیں، نماز، قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہاں کے مکینوں پر مشتمل میس کمیٹی ہے جن کی مشاورت سے تین وقت کا کھانا تیار ہوتا ہے۔
سمیر ا اسلم نے بتایا کہ عید کے لیے تمام بزرگ مکینوں کو نئے کپڑے، جوتے اور تحائف دیے گئے ہیں، عید پر ان کے لیے سویاں سمیت اسپیشل ناشتہ تیار ہوگا، اس کے علاوہ ان کو آؤٹنگ پر لے کر جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ عید پر اگر ان میں سے کوئی اپنے رشتہ داروں کے ہاں جانا چاہے یا وہ انہیں ملنے یہاں آنا چاہیں تو کوئی پابندی نہیں ہے، اپنی جنت کو اپنے ہاتھوں خود سے دور کرنے والی اولاد شاید یہ بھول جاتی ہے کہ ایک دن ان پر بھی یہ وقت آئے گا اور پھر انہیں احساس ہوگا کہ جب اولاد اور والدین کو خود سے دور کرتی ہے تو دل پر کیا گزرتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے ہوم میں کے لیے ہیں جن
پڑھیں:
آسٹریلیا: ایک ایسا قصبہ جہاں منہ مانگی تنخواہ پر بھی کوئی ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں
سڈنی( نیوز ڈیسک )آسٹریلیا کا ایک دور دراز قصبے میں ڈاکٹر کی پوسٹ کے لیے منہ مانگی تنخواہ دی جا رہی ہے لیکن وہاں کوئی نہیں جانا چاہ رہا۔ ڈاکٹر کی اس پوسٹ کے لیے 6,80,000 آسٹریلوی ڈالر ($4,28,000) تک کی تنخواہ، مفت رہائش اور ایک کار کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
اس قصبے کا واحد ڈاکٹر جلد ہی وہاں سے جا رہا ہے اور اتنی پرکشش تنخواہ و مراعات کے باوجود وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں جانا چاہتا۔ ریاست کوئنزلینڈ کے دور افتادہ قصبے جولیا کریک، جس کی آبادی 500 نفوس پر مشتمل ہے
ایک فیملی فزیشن کی تنخواہ ریاستی دارالحکومت برسبین کے مقابلے میں تقریباً دُگنی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ برسبین یہاں سے 17 گھنٹے کی مسافت پر ہے، جب کہ قریبی بڑا شہر ٹاؤنزویل بھی 7 گھنٹے کی مسافت (ڈرائیو) پر واقع ہے۔
متوقع امیدواروں کو شدید گرمی اور حشرات الارض کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔ لیکن قصبے کے سبکدوش ہونے والے ڈاکٹر، ایڈم لاؤس، کا کہنا ہے کہ ان کے جانشین کو یہاں ایک پُرسکون طرزِ زندگی کے ساتھ ایسی مہارتیں سیکھنے کا موقع بھی ملے گا جو انہوں نے پہلے کبھی استعمال نہیں کی ہوں گی۔ لاؤس کو 2022 میں برسبین سے جولیا کریک لایا گیا تھا، جب اس قصبے نے AU$500,000 کی تنخواہ کی پیشکش کر کے ملکی سطح پر شہ سرخیاں حاصل کی تھیں۔
واشک میں فرائض سے غفلت اور نااہلی دکھانے پر 13 لیویز اہلکار برطرف