بی این پی کا لانگ مارچ قلات پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کا لانگ مارچ قلات پہنچ گیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کا لانگ مارچ بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں قلات پہنچ گیا ہے، لانگ مارچ میں خواتین و حضرات ہزاروں کی تعداد میں شریک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کے خلاف اختر مینگل کا لانگ مارچ کا اعلان، اے این پی کی حمایت
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی این پی کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر مارنگ بلوچ اور دیگر اسیر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
قلات میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں مجبور کیا گیا کہ ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں گھروں سے نکلے ہیں، بلوچستان میں عوام کی ننگ و ناموس محفوظ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’الوداع، شاید قانون کی حکمرانی کے بعد ملیں‘، کیا اختر مینگل ملک چھوڑ گئے؟
اختر مینگل نے کہا کہ یہاں خواتین کی عزت و نامو س محفوظ نہیں ہے، وہ قوتیں جو بلوچستان کے وسائل لوٹتی تھیں، وہی قوتیں آج ہماری خواتین کے سروں سے دوپٹے کھینچ رہی ہیں۔
بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا قافلہ قلات میں مختصر قیام کے بعد کوئٹہ کے لیے روانہ ہوگیا ہے، لانگ مارچ میں دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان و عہدیداران بھی شریک ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اختر مینگل بلوچستان نینشل پارٹی بی این پی ڈاکٹر مارنگ بلوچ قلات کوئٹہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اختر مینگل بلوچستان نینشل پارٹی بی این پی ڈاکٹر مارنگ بلوچ قلات کوئٹہ کا لانگ مارچ اختر مینگل بی این پی
پڑھیں:
پاکستانی طالبان کے حملے میں سات فوجی ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مارچ 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستان کی پولیس کے حوالے سے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ افغان سرحد سے متصل ایک علاقے میں سات فوجی مارے گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ 'مسلح طالبان‘ ایک گھر میں چھپے ہوئے تھے، جہاں سے انہوں نے فوجی قافلے پر اچانک حملہ کر دیا۔ فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں آٹھ جنگجو ہلاک جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔
کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں فوج کو جنگی ہیلی کاپٹرز کی معاونت بھی حاصل رہی۔
اے ایف پی کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح گروہوں کے حملوں میں 190 سے زائد افراد ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فوجی شامل تھے۔
(جاری ہے)
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مارچ کے وسط میں سکیورٹی فورسز کے خلاف 'اسپرنگ کمپین‘ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ سال پاکستان میں تقریباً ایک دہائی کا سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوا۔ اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس دوران سولہ سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان میں سے تقریباً نصف سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ یہ تشدد زیادہ تر پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں تک ہی محدود ہے۔
بلوچ نیشنل پارٹی کے لانگ مارچ کے دوران 'خود کش حملہ‘بلوچستان کے ضلع مستونگ میں لک پاس کے علاقے میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں کم ازکم ایک شخص زخمی ہو گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آور غالبا وہاں جاری نیشنل بلوچ پارٹی (بی این پی) کے دھرنے کی طرف جانے کی کوشش میں تھا تاہم اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔
بی این پی کے رہنما اختر مینگل اور دیگر رہنما وڈھ سے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کر رہے ہیں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا ترک کیا جائے جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔بی این پی نے الزام عائد کیا ہے کہ لانگ مارچ میں رکاوٹین ڈالی جا رہی ہیں جبکہ ڈھائی سو کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ تاہم اختر مینگل کا اصرار ہے کہ وہ کوئٹہ تک پہنچ کر ہی رہیں گے۔
متوقع طور پر لانگ مارچ کے تحت وہ اور ان کے حامی ہفتے کے دن کوئٹہ پہنچ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہوئی ہے جبکہ علیحدگی پسند عناصر اکثر پولیس اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پاکستانی سکیورٹی فورسز کو براہ راست نشانہ بنانے کی کوشش تیز کر چکی ہے۔
ادارت: عاطف توقیر