ٹرمپ کے جوہری مذاکراتی خط کا جواب دے دیا، ایران
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا پر وزیر خارجہ عباس عراقچی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے خط کے '' سرکاری جواب میں‘‘ موجودہ صورتحال کے بارے میں ایران کی پوزیشن کی مکمل طور پر وضاحت پیش کی گئی ہے۔
عراقچی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایران کی طرف سے جوابی خط عمان کو بھیجا گیا ہے جس نے ماضی میں امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تاہم جواب کے متن اور اس کی نوعیت کی تفصیلات نہیں بتائیں نہ ہی یہ واضح کیا کہ یہ خط کب بھیجا گیا ہے۔امریکی وزیر خارجہ کا بیان
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ان دونوں کیریبیئن خطے کے دورے پر ہیں۔
(جاری ہے)
اس دورے کے لیے پروازکے دوران جہاز پر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ کیا امریکہ کو ایران کا کوئی خط موصول ہوا ہے، تو ان کا جواب تھا،''میں ابھی اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔
‘‘ انہوں نے تاہم کہا کہ امریکہ توقع کر رہا ہے کہ ایران کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے آئے گا اور یقیناً اُس وقت صدر ٹرمپ یہ فیصلہ کریں گے کہ ان کا اگلا قدم کیا ہوگا۔چین، روس اور ایران کا تہران پر پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے 2018 ء میںایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک طے شدہ معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا، اب کہتے ہیں کہ وہ تہران کے ساتھ سفارتی بات چیت چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے ایران کو خط کب بھیجا؟
امریکی صدر نے مارچ کے اوائل میں یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک طرف تہران پر اضافی پابندیوں کے اپنے پروگرام کو ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کے اظہار کے ساتھ آگے بڑھایا اور ساتھ ہی ایران کو دھمکی دی کہ اگر اس نے مذاکرات سے انکار کیا تو اُس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے گی۔
ایرانی وزیر خارجہ عراقچی کے بقول،''ہماری پالیسی یہ ہے کہ 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ اور فوجی کارروائی کے خطرے کے تناظر میں براہ راست (واشنگٹن کے ساتھ) بات چیت نہیں کی جائے گی، لیکن بالواسطہ مذاکرات جیسے کہ ماضی میں ہوئے تھے، جاری رہ سکتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ کا عراق کو ایران سے بجلی خریدنے کی چھوٹ ختم کرنے کا فیصلہ ’غیر قانونی‘، تہران
ایران امریکی سفارتی تعلقات کی تاریخ
ایران اور امریکہ کے درمیان 1980 ء سے سرکاری سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
تاہم، دونوں ممالک نے تہران میں سوئس سفارت خانے، جو ایران میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتا ہے کے ذریعے بالواسطہ طور پر روابط قائم رکھے۔ عمان نے بھی ماضی میں امریکہ اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کیا اور کسی حد تک قطر نے بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مذکورہ خط متحدہ عرب امارات نے ایران کو پہنچایا تھا۔ایران نے امریکہ اور چین سمیت بڑی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے بعد 2015 میں اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
امریکہ مذاکرات میں بے پروائی برت رہا ہے، ایرانی سپریم لیڈر
مغربی حکومتوں کو کئی دہائیوں سے شبہ ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ اس الزام کی ایران تردید کرتا رہا ہے۔ تہران اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فقط سویلین مقاصد کے لیے ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں عالمی جوہری معاہدے سے امریکی انخلا کے بعد ایران ایک برس تک اس معاہدے کا بہ ظاہر احترام کرتا رہا۔
نئی امریکی پابندیاں 'غیر قانونی' اور 'غیر منصفانہ'، ایران
امریکی دستبرداری کا فیصلہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے ہوا، جو اس معاہدے میں شامل نہیں تھا اور جسے واشنگٹن ایک خطرہ سمجھتا تھا۔
ک م/ ع ت (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے کیا تھا کے ساتھ رہا ہے
پڑھیں:
ایران نے معاہدہ نہ کیا تو ایسی بمباری ہوگی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی، ٹرمپ کی کھلی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
این بی سی نیوز سے فون پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایسی بمباری کی جائے گی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:’اپنا میزائل پروگرام ختم نہیں کرینگے‘، ٹرمپ کے خط پر ایرانی سپریم لیڈر کا جواب
انہوں نے کہا کہ اگر ایران معاہدہ نہیں کرتا تو بمباری ہو گی۔ انہوں نے ایران پر ’ثانوی محصولات‘ لگانے کے امکان کا بھی ذکر کیا۔
ٹرمپ نے تصدیق کی کہ دونوں فریقین کے حکام فی الحال ’بات چیت‘ کر رہے ہیں، حالانکہ 2018 میں امریکا کے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
ایران نے ٹرمپ کے انتباہ کے باوجود جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو مسترد کر دیا۔
ٹرمپ نے جمعے کو بھی اسی طرح کی وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری بڑی ترجیح ہے کہ ہم ایران کے ساتھ اس پر کام کریں لیکن اگر ہم نے اس پر کام نہیں کیا تو ایران کے ساتھ بری، بری چیزیں ہونے والی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:آیت اللہ خامنہ ای دوبارہ منظر عام پر آگئے، امریکا و یورپ پر ’شرانگیزی‘کم کرنے پر زور
ٹرمپ کا یہ تبصرہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کے ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر کو بھیجے گئے خط کا جواب دینے کے فوراً بعد سامنے آئے، جس میں کہا گیا تھا کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت میں شامل نہیں ہوگا۔
پیزشکیان نے ایک ٹیلیویژن خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہم بات چیت سے گریز نہیں کرتے؛ یہ وعدوں کی خلاف ورزی ہے جو اب تک ہمارے لیے مسائل کا باعث بنی ہے، انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔
براہ راست مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے، پیزشکیان نے کہا کہ ایران کے جواب، عمان کے راستے بھیجے گئے، نے امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے دروازے کھلے چھوڑ دیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران بمباری ٹرمپ جوہری معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ